دہشت گردی کی تعریف کیا ہے۔
اس پر بات نہیں کرتے بلکہ دہشت گردوں کے نظریہ کی بات کرتے ہیں۔ جی ہاں
تعریف اور نظریہ مختلف ہیں ایک تعریف کے کئی نظریات اورانداز ہوسکتے ہیں۔
دہشت گردوں نے بھی از خود اپنا نظریہ برائے دہشت گردی قائم کررکھا ہے۔ اور
وہ ہے کہ ایک گروہ اپنے عقائد جو اس نے اپنا رکھے ہیں یا خود ہی بنارکھے
ہیں۔ کو دوسروں پر زبردستی جبر سے ظلم سے طاقت سے اپنی بربریت سے مسلط کردے۔
اور پھر سیاسی طور پر بھی اپنے مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کرے۔ اس حصول کی
خاطر عام لوگوں کا قتل عام سے بھی گریز نہ کرے۔ یہی کچھ تو دہشت گرد
پاکستان میں کر رہے ہیں۔ اپنی وحشت اور دہشت سے اپنا آپ منوانے کی کوشش کی
جارہی ہے۔ یوحنا آباد لاہور میں ہونے والی دہشت گردی بھی اسی سلسلہ کی ایک
کڑی تھی۔ جب اتوارکو چھٹی کے دن پاکستان آئرلینڈ کرکٹ ٹیم کا، کانٹے دار
میچ قوم اپنے اپنے گھروں میں بیٹھی سکون سے ٹی وی پر میچ سے مکمل لطف اندوز
ہورہی تھی کہ ایک افسوس ناک خبر نے پوری قوم کو سوگواربنا دیا۔ یوحنا آباد
کا افسوس ناک واقعہ رونما ہوگیا۔ یوحنا آباد لاہور میں ہے اوریہاں نوے فیصد
سے بھی زائد کی آبادی عیسائیوں کی ہے۔ اور پاکستان بھر میں سب سے زیادہ
تعداد میں ایک جگہ پرآباد عیسائی بھی یہی ہیں۔ اس وقت جب مسیحی اپنے چرچ
میں دعائی تقریب میں مصروف تھے کہ یکے بعد دو ،دھماکے ہوئے۔ اورکہرام مچ
گیا۔ پہلا دھماکہ کیتھولک اور دوسر،اکرائسٹ چرچ میں ہوا۔ اس دہشت گردی کے
واقعہ میں 17 افراد جان بحق اور 75 سے زائد زخمی ہوگئے۔ اس افسوس ناک واقعہ
جو کہ دہشت گردی تھی اور اس کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے میڈیا پر آکر قبول
کرلی تھی کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
اور دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکرمقابلہ کرنے کا عزم کیا گیا۔ دہشت گردوں کو
یہ میسج دیا گیا کہ ہمارے حوصلے بلند ہیں اور تمھارے مذموم ناپاک ارادے کی
تکمیل کبھی نہ ہوگی۔ مگر یہ کیا اس کا رد عمل اور بھی اس قدر شدید اور غلط
کہ پوری دنیا نے اس کی بھی بڑی شدد کے ساتھ مذمت کی۔ پر تشدد واقعات کا نہ
رکنے والا سلسلہ جاری ہوگیا۔ رد عمل میں مشتعل لوگوں نے نہ تو گاڑی چھوڑی
اور نہ دکان اور نہ دفترتھوڑ پھوڑ اور بلواہ گری شروع کردی گئی۔احتجاج کے
دوران توڑ پھوڑ کے ساتھ لوٹ مار بھی شروع کردی ان کا ہاتھ کوئی روکنے والا
کوئی نہ تھا۔ اس دوران دو نوجوانوں کو بھی مشکوک جان کراحتجاجی لوگوں جوکہ
مشتعل تھے نے اپنے قابو میں کر لیا ۔اور پھر کیا سرعام ان کو بڑی بے دردی
کے ساتھ مارنا شروع کردیا۔ اسی اثناءمیں پولیس نے ان دونوں کو مشتعل افراد
کے چنگل سے چھڑوالیا مگر مشتعل لوگوں نے دونوں کو پھر پولیس سے ان کو چھین
لیا اب آگے کا حال لکھنے کی سکت نہ ہمیں ہے اور نہ ہی ہمارے قلم میں اس کی
طاقت۔ سرعام دو نوجوانوں کا قتل اور ان کی نعشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ جس
طرح نعشوں کی بے حرمتی کا مرتکب یہ لوگ ہوئے اس سے انسانیت بھی شرماگئی۔ اس
کا دفاع ہرگزممکن نہیں مگر اس کو بنیاد بنا کریہ کہنا کہ یہ ایک عقیدے کی
جانب سے دوسرے عقیدے کے خلاف رد عمل تھا یہ بالکل غلظ ہے۔ 15 اور پھر 16
مارچ کو ریاستی ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اقلیتوں اور محروم
طبقات کے تحفظ اورفراہمی انصاف میں ناکام رہے ہیں۔ اور ہمیں ریاست کہیں نظر
نہیں آئی۔ اگر ریاست اور اس کے اس کے متعلقہ ادارے موقع پر اپنا بھرپور
کردار ادا کرتے تو لوگ اس قدر مشتعل نہ ہوتے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں
لینے کا رحجان پیدا نہ ہوتا۔ اس واقعہ سے متعلق یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی
بھی مسلک ،مذہب یاعقیدہ کی عبادت گاہ پر دہشت گردی۔ دراصل دہشت گردوں کی ہی
خواہش ہے کہ اس ملک میں عوامی مقامات پر حملے ہوں تو یہ مذہب کی بنیاد پر
بھی ہنگامہ آرائی کا سبب بھی بنیں۔ یہ دہشت گردوں کی کارروائی تھی لیکن
ہجوم اشتعال میں آ گیا اور دوافراد کو بھی بلاوجہ قتل کردیا۔ ہم پہلے بھی
یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ مذہبی محرکات کے تحت نہیں بلکہ فوری اشتعال کے تحت
ہوا۔ اس عمل جوایک طرح سے رد عمل بھی تھا کی نہ تو حمایت کی جاسکتی ہے اور
نہ ہی ایسا کرنے والوں سے ہمدردی کی جاسکتی ہے۔یوحناآباد سانحہ کو سمجھنے
کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے محرکات کا درست تعین کیا جائے اورمسیحی عبادت
گاہوں پر حملے اور پھردوافراد کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کو دونوں کو
نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مشتعل ہجوم کا متشدد ردعمل غلط ہے۔ ریاست کو
معاشرے میں تمام مذہبی گروہوں کو یکساں آزادی فراہم کرنے اور مذہبی منافرت
سے پاک سماجی میل جول کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ قانون کی عملداری کو
یقینی بنانا ہوگا۔دہشت گرد ہوں یا اشتعال میں آکر املاک اور انسانی جانوں
کا ضیاع کرنے والے ہوں سب قانون کے سامنے جوابدہ ہوں۔ قانون حرکت میں آئے |