’’ہم کیسا سوچتے ہیں !‘‘

تعلیم حاصل ہمارے لئے کتنا ضروری ہے ہم نہیں جانتے۔اور اگر تعلیم ہم حاصل کرتے بھی ہیں توبس ایک ڈگری حاصل کرنے کے لئے نا کہ ہم نے جو بھی اپنی تعلیم سے چیزیں سیکھی اس پہ عمل کریں۔ہم یہ کیوں نہیں جانتے کہ تعلیم ہمیں کبھی بھی پیسہ نہیں دیتی ، پیسہ تو ہم اپنی صلاحیت کے مطابق کماتے ہیں۔تعلیم صرف اور صرف ہمیں جینے کا سلیقہ سیکھاتی ہے۔اچھے ،برے، صحیح اور غلط کا فرق بتاتی ہے۔

جس طرح آج ہم اپنے معاشرہ میں لڑکیوں کے ساتھ ہوتی ہوئی زیادتی دیکھتے ہیں لیکن کبھی ہم اس پہ آواز نہیں اٹھاتے ہیں پر وہ ہی چیز اپنی بیٹی کے ساتھ ہوجائے تو ہماری راتوں کی نیندیں اڑجاتی ہیں ۔لیکن جب کسی دوسری لڑکی کے ساتھ ہو تو اس وقت یہ بھول ہی جاتے ہیں کہ شاید وہ بھی تو کسی کی بیٹی ہے۔پر ہم ایسا سوچیں بھی تو کیوں ، ہمیں تو بس دوسروں کے عیب نظر آتے ہیں کسی اورمیں جو اچھائی ہے وہ بھی ہمیں کہا ں نظر آتی ہے۔ہمارے معاشرے میں ہمیشہ الزام لڑکیوں کو ہی کیوں دی جاتی ہے۔اگر کوئی لڑکی رات کو گھر سے باہر نکلے اور خدانخواستہ اگر اس کے ساتھ ہوجائے تو ہم صرف لڑکی کو ہی قصور وار ٹھرادیتے ہیں ، یہاں یعنی زیادتی کرنے والے کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے۔ہم نے معاشرہ میں لڑکوں کو ہر گنا ہ کرنے کے باوجود بھی کوئی سزا نہیں دینے ہوتی ۔ ہاں اگر یہی کام کوئی لڑکی کردے تو شاید ہم اس کا سر اس وقت ہی قلم کردیں۔ہمیں چاہئے کہ الزام ہمیشہ لڑکی کو نہیں بلکہ غلطی کرنے والے کودیں ۔

جس طرح آج تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل جو کہ کئی غلط کاموں میں، غلط رستوں پہ چل پڑی ہے اور وہ اب تک آنے والے جدید ٹیکنالوجی کے دور سے وقف نہیں۔ہم آج بھی اس پرانے دور میں ہی رہ رہے ہیں اور یہ دنیا آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے۔اور ہم اپنے گھر کے مسئلے مسائل ، ساس بہو کے جھگڑے ، حل کرنے میں لگے ہیں وہ بھی کبھی حل نہیں ہوتے ہیں ۔

پتا نہیں ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جس کے پاس پیسے ہوں پڑھنے کے لئے ان میں کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تعلیم کی اہمیت اب تک نہیں سمجھے اور جس شخص کے پاس اپنی تعلیم کے لئے پیسے نہیں وہ اپنے دن رات ایک کرنے میں لگا ہوتا ہے کہ بس کسی بھی طرح وہ تعلیم کے لئے پیسے حاصل کرلے تا کہ وہ بہتر تعلیم حاصل کر سکے۔

جس طرح ہما رے معاشرے میں طلاق کی شرح بہت بڑھ گئی ہے۔ہمارے لوگو ں میں تعلیم کی وجہ سی وہ بہت سی جگاہوں پہ اچھے اور بُرے کا فیصلہ نہیں کر پاتے ہیں۔میرے دوستوں عزیزوں یہ شادی کرنا کوئی گڈا گڑیا کی کھیل نہیں جو ہم جوانی کی جوش میں شادی کرتو لیتے ہیں پر ہم بیوی کے حقوق سے واقف نہیں ہوتے اوراکثر لوگ ہمارے معاشرے میں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بیوی کو نوکرانی بنا کرلاتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ساس کی خدمت ، سسر کی خدمت بہو کا فرص ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ کہیں بھی کسی بھی جگہ ایسانہیں لکھا کے وہ ساس اور سسر کی بھی خدمت کرے ۔ہاں اگر وہ ان کی خدمت کرتی ہے تو وہ اس کا حُسن اخلاق ہے لیکن اگر نہیں کرتی تو ہم اُس پہ کوئی زور زبر دستی نہیں کرسکتے ہیں اس کے ساتھ ۔اکثر کے گھروں میں اس بات کو لے کر طلاق ہو جاتی ہے، اور اس کام کو سرانجام دینے میں ہمارے کچھ رشتہ دار بھی پیچھے نہیں ہوتے وہ بھی اس کام میں بہت اہم کردار ادا کر جاتے ہیں۔اپنے تجربے میں میں نے کچھ ایسی مثال بھی دیکھی ہیں کہ آج بھی لوگ شادی تو کرلیتے ہیں لیکن کچھ عورتوں کو اپنے خاوند پہ بھروسہ نہیں ہوتا ہے اور نا ہی خاوند کو اپنی بیوی پہ۔کہ وہ دوسروں کی باتوں کو سن کر آپس میں لڑ لیتے ہیں۔ لیکن ان کا بھروسہ ایک دوسرے پہ نہیں ہوتا، لیکن پتا نہیں اُن لوگوں کو کیسی خوشی ملتی ہے کہ دوسروں کے گھر کے سکون کو برباد کرکے۔ ایک عجب ہی ڈہنگ نکالا ہے ایسے لوگوں نے اپنی انجوائیمنٹ کا ۔

لیکن ہمارے معاشرے میں جب تعلیم نہیں ہوگی تو یہ سب تو ہونا ہی ہے۔پر ہم اس آرٹیکل کو پڑھ کے کم از کم اپنے زہن سے اس بات کو نکال سکتے ہیں کہ ہمیں لڑکیوں کو ان کے حقوق دینے چاہئے ۔ ہمارے اسلام ہمارا دین ہمیں اس چیز کی ہی ہمیشہ درس دیتا ہے۔جس دن ہم نے یہ عہد کرلیا کہ ہر زیادتی کرنے والے کو سزا دملے گی تو یقین کریں پھر اس کے بعد کسی کی ہمت نہیں کے وہ ایسا کام کرے۔اور نا ہی کوئی پھر لڑکیوں پہ انگلی اٹھائے گا۔
Kunwar Daniyal Moin
About the Author: Kunwar Daniyal Moin Read More Articles by Kunwar Daniyal Moin : 6 Articles with 7380 views i'm nothing, but i want to be famous in all over the World. that is my dream, that is my passion... View More