کھلتے راز(قسط دوم)

حالات بدلتے رہے، وقت تیزی سےگزرتا گیا، قدریں وہ نا رہیں، لوگ جن کے دل سچائی کے نور سے پُرنور رہتے تھےوہ کہیں کوچ کر گئے، کچے مکان پکے ہو گئے مگر مکین کچے ہوگئے، ٹوٹے پھوٹے ٹیڑھے راستے اب سیدھے ہو گئے مگر اُن پہ چلتے لوگ اب سیدھے نا رہے، اُن کی ذات دنیا جہاں کی بُرائیوں کی آماجگاہ بن گئی ، چاچا بشیر چاچے سے سفر کرتا کرتا اب بابا بشیر بن چکاتھا، زمانے کے اُتار چڑھاؤنے چاچے کی چھوٹی سی دکان کو بڑی سی دکان میں بدل دیا مگر اب دودھ کا رنگ پہلے جیسانہیں رہا، گاہک بھی اب اِکا دُکا ہی دکان پہ کھڑا ملتا ہے۔
"آ جاؤ شاہ جی۔۔۔۔ آجاؤ جلدی میں آپ کا ہی انتظار کر رہا ہوں"۔
"چاچا اگر آج مجھے لیٹ کیا نا تو میں نےکبھی تجھ سے ملنے نہیں آنا"۔
"او نہیں پتر آج تجھے لیٹ نہی کروں گا بلکہ روز لیٹ کرنے کی وجہ بتاؤں گا"۔
"ویسے تو جا کہاں رہا ہےجو مجھے ملنے نہیں آئے گا"؟
"اماں جی آئے ہیں مجھے لینے ، کہتے ہیں اب تو بڑاہو گیا ہےاس لیے چل گھر اپنے شہر، باقی کی پڑھائی اُدھر ہی پوری کرنا ۔ اسی لیےتو تجھے دھمکی دے رہا ہوں چاچا"۔
"اچھا پتر اللہ تجھےکامیاب کرے"۔
"بس تم دعاکرتے رہنا چاچا ۔ ہاں یاد آیا وہ لیٹ کرنے کی وجہ تو بتا دو"؟
"شاہ جی بات کچھ ایسے ہے ۔ آپ تھےہمارے پکے گاہک اورجو پکا ہوتا ہے نا وہ کسی دوسری دکان پہ سودا لینے نہیں جاتا چاہے اُسے سودا دیر سے ملے یا سویر سے وہ آتا اُسی دکان پہ ہے۔۔۔۔۔۔ یہ نئے گاہک راہ چلتے مسافر کی طرح ہیں یہ دکاندار کی اضافی کمائی ہوتے ہیں اگر ان کوہم جلدی سودا دیں گے تو ایک تو ان کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور ساتھ ہمارے گاہک بڑھ جائیں گے۔ اگر ہم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کریں گے ، ان کو بھی لیٹ کریں گےتو پھر یہ کبھی واپس نہیں آئیں گے اور کسی اور در پہ چلے جائیں گے"۔
"شاہ جی آپ کےتھوڑا نتظار کرنے سے میرا بھی فائد ہ ہوجاتا ہے اور نئے آنے والے گاہک کا بھی"۔
"واہ چاچا کیا تکنیک ہے تیری۔۔۔۔۔گاہک بڑھانے کی"۔
"ایک بات اور چاچا تیرے پھٹے پہ میں نے نیند بہت پوری کی ہے اور مکھیاں مارنے میں تو اب استا د ہوچکا ہوں ۔ کیامجال کسی مکھی کی جو تیرےکونڈے کے آس پاس نظر آئے"۔
میں ڈول اُٹھائے گھر کا راستہ ناپتاہوں اور پیچھے چاچا یہ کہتے ہوئے مسکرا رہا ہے:
"شاہ جی تم کبھی نہیں بدلو گے"۔

یوں ہماری قید کے دن ختم ہوئے اور ہم آبراجمان ہوئے اپنے گھر جہاں ہم راجا اور باقی گھر والےہماری رعایا ، کبھی سمجھے جاتے تھے اب تو مساوات کا راج تھا یہاں بھی۔ ورنہ یہاں تو ہر بڑے کو حکمرانی وراثت میں ملتی تھی سعودی حکمرانوں کی مثل۔

اگر گاؤں میں تجربے کیے تھے تو یہاں بھی کچھ کم نہیں کیے ۔ کوئی بھی کام ہو اچھا یا بُرا اگر ایک بار انسان کو اس کی لت لگ جائے توپھر اُسے جان چُھڑانے میں بھی اتنا ہی وقت لگتا ہے جتنا اُسے اپنانےمیں لگا۔ عادت پڑنے کے بعد اُس کام کو چھوڑنابڑے دل گردے کا کام ہے اکثر لوگ تو اسی عادت کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔
یہ کوئی چھٹی ساتو یں کی بات ہے جب سکول میں آدھی چُھٹی ہوتی تو اُس میں نماز کا وقت بھی آتا تھا۔ تھے تو ہم شروع سے ہی نالائق پڑھنے پڑھانے سے تو ہمارا دوردور تک کوئی ناطہ نہیں تھا اسی لیے ہر وقت ماسٹرجی کے ساتھ ساتھ رہتے ، پڑھنے کے علاوہ اُن کا ہر حکم بجا لاتے ، کوئی بھی کام پڑتا تو استا دجی کو ایک ہی نام یاد آتا اور وہ نام ہمارا ہوتا۔ استاد جی کو نام یاد کروانا ہی تو ہمارا مقصد تھا چاہےوہ ہمیں سبق یاد نا کرواپائے مگر ہم نے نام یاد کروانے والا کام فرض اولین سمجھتے ہوئے کیا۔

اس سے یہ ہوتا کہ پیپر چیک کرتے وقت ماسٹرجی کو ہم پہ رہم آجاتا ۔ یہ رحم گھر میں بھی ہماری نجات کا سبب بن جاتا۔ اس طرح ہمیں سکول میں رہنے کا ایک اور موقع مل جاتا۔

تو ہم بات کر رہے تھےآدھی چُھٹی کی جس میں نماز کاوقت بھی آتا تھا۔ ماسٹر جی نماز پڑھنے جاتے تھے اور ہم وزیر مشیر کے چیلوں کی طرح ماسٹر جی کے پیچھے پیچھےمسجد پہنچ جاتے۔

ایسے ہی تین سال گزر گئے۔ چیلے بننے کی خواہش کے ساتھ ساتھ ہمیں مسجد جانے کی عادت پڑگئی اسی بہانے ہم نمازبھی پڑھ لیتے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کی عادت اس قدر پکی ہو گئی کہ اسے چھوڑنا مشکل ہو گیا۔

یوں سمجھ لیں کہ ہماری مثال اُس نشئی کی تھی جسے اگر بروقت نشہ نا ملے تو اُس کی جان پہ بن جاتی ہے ، وہ مرنے والا ہو جاتا ہےاور مرتے انسان کو کچھ اچھا نہیں لگتا۔ جب نماز کا وقت ہو جاتا تو ہمارابھی نشئی جیسا حال ہو جاتا کچھ اچھا نہیں لگتا تھا جب تک مسجد کا چکر نا لگا لیتا۔
 
Shah Faisal Naeem
About the Author: Shah Faisal Naeem Read More Articles by Shah Faisal Naeem: 36 Articles with 34015 views Student of BBA (Honors)
Institute of Business Administration (IBA), University of the Punjab, Lahore.
Blogger at:
http://www.express.pk/blog/
http
.. View More