جنریشن گیپ ۔۔۔۔والدین اور اولاد میں اختلافات کا باعث

تحریر : راجہ شہزاد خورشید راٹھور
موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور کہلاتا ہے۔ہمارا طرزِ زندگی ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے تبدیلیوں نے ہماری زندگی کے بارے میں ہمارے نقطہِ نظر کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔مگر ہمارے رویوں میں کوئی خاطر خواہ مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ تعلیم کی وجہ سے معاشرے میں کسی حد تک بدلا ؤ دیکھنے میں تو آتا ہے مگر معاشرتی سوچ اور رویے اب تک محدود ہیں۔ انا ء پرستی اور دین سے دوری نے آج کی نوجوان نسل اور والدین میں کبھی نہ پر ہونے والے خلا ء کو جنم دیا ہے اور اس خلا ء نے کئی گھروں کو تباہ کر کے رکھ دیا ۔ جنر یشن گیپ جو کہ (بوڑھوں) والدین اور اولاد میں رویوں، ترجیحات اور خیالات پر اختلاف اور غلط فہمیوں کا باعث بنتا ہے ، وہیں اس سے کئی گھرانے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں اور یہ دوریاں(تقسیم) کئی اور معاشرتی برایوں کو بھی جنم دیتی ہیں۔جنریشن گیپ والدین اور اولادکے درمیان تفریق کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ گیپ دونوں کو تقسیم کردیتا ہے۔ عام طور پر یہ گیپ اٹھارہ سے چالیس سال کی عمریا اس سے زائد کے افراد کے درمیان پایا جاتا ہے ،جہاں دونوں اپنی اپنی جگہ الگ الگ زاویے سے سوچتے ہیں۔ دونوں نسلیں ایک ہی چیز کو مختلف زاویوں سے تولتی ہیں۔ یہ باہمی فرق کام کرنے کے انداز سے لیکر ٹیکنالوجی کے استعمال تک واضح طور پرنظر آتا ہے۔ نوجوان نسل اپنے تئیں کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن پرانی عمر کے لوگ اسے اہمیت نہیں دیتے، اولاد کی خود اعتمادی کو ختم کرتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے بڑے فاصلے پیدا کرتی ہیں جس کا نتیجہ سوائے دوری کے کچھ اور نہیں ہوتا۔

والدین کی اپنی اولاد سے بے لوث محبت غیر مشروط ہوتی ہے۔ والدین اپنا سکھ چین، آرام و سکون ، پیسہ ، وقت غرض ہر راحت کو اپنے بچوں پر قربان کر دیتے ہیں۔ اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرتے ہیں ان کی ہر طرح سے مدد کرتے ہوئے پالتے پوستے ہیں، تعلیم دلواتے اور پھراپنے قدموں پر کھڑا کرنے کی کوشش میں اپنی تمام تر زندگی صرف کر دیتے ہیں ۔ اس تمام تر جدوجہد کے باوجود بچوں کا رویہ مثبت نہیں ہوتااور والدین کو مایوسی کی کوفت اٹھانا پڑتی ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ جنریشن گیپ ہے۔ والدین اپنے بچوں کو سمجھ نہیں پاتے اور بچے ان سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ یہ دوری اولاد کو برباد کر دیتی ہے۔ہمارا معاشرہ آج بھی دور دورِ جاہلیت کی عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے جہاں اولاد پر بے جا روک ٹوک، والدین کی من مانیاں، کم عمری میں رشتے اور شادیاں، اولادپر ان کی مرضی کے خلاف فیصلے ٹھونسنا۔اس طرح والدین اپنی اولاد کے مجرم بن کر ان کی زندگی سے کھیلتے ہیں۔والدین اور اولاد میں محبت اور اختلاف کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں مگر میری نظر میں چند اہم اسباب میں قا رئین کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔

خلیل جبران لکھتے ہیں کہ’’ ہم اپنی اولادکو بے پناہ محبت تو دے سکتے ہیں لیکن خیالات نہیں۔ اس لئے کہ خیالات ہر ایک کے اپنے اپنے ہوتے ہیں۔‘‘ اولاد اور والدین میں پہلی دوری کی وجہ بھی یہی ہے کہ اولاد پر محبت کے ساتھ ساتھ خیالات تھونپنے کی کوشش کی جاتی ہے جسے والدین اپنا حق سمجھتے ہیں اور یہی بات اس بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ یہ درست ہے کہ والدین کا تجربہ اور زمانہ سازی بچوں سے کہیں زیادہ اور مضبوط ہوتا ہے لیکن اس حقیقت کے باوجود بچے ان کے تجربے اور زمانہ سازی کی رمز سے مستفید ہونا نہیں چاہتے۔ اس کے علاوہ دوسری وجہ یہ ہے کہ والدین اپنی زندگی میں رہ جانے والی کمی کو اپنے بچوں میں پورا کرنا چاہتے ہیں مثلاً اگر کوئی ڈاکٹر نہیں بن سکا تو وہ اپنے بیٹے یا بیٹی کو ڈاکٹر بناناچاہیں گے حالانکہ بچوں کی دلچسپی کسی اور شعبے میں ہوگی۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں پرمرضی نہ تھوپی جائے۔اولاد اسے انا کا مسئلہ بنا کر یہ سوچتے ہیں،جیسے ان پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں اور ان کی مرضی سے سانس لینے نہیں دیا جا رہا۔ یہ پہنو ،یہ نہ پہنو، یہ کھاؤ، اس سے اجتناب کرو ،ادھر جاؤ، ادھرنہیں جاؤ وغیرہ وغیرہ ۔یہ غیر معمولی باتیں فاصلوں کی وجہ بنتی ہے۔ لڑائیاں جھگڑے والدین اپنے بچوں کو لڑائی جھگڑوں سے دور رہنے کادرس تو دیتے ہیں لیکن عملاً خود اس خوبصورت طرز عمل کو نہیں اپناتے اور خود آپس میں لڑائی جھگڑے ہی ختم نہیں ہوتے۔یہ لڑائیاں بچوں کے ذہنوں پر برے اثرات مرتب کرتی ہیں اور بچے ان لڑائیوں کی وجہ سے ایک ایسے فاصلے پر چلے جاتے ہیں جہاں سے واپسی بہت مشکل ہوتی ہے۔ اور عمر بھر یہ فاصلہ نہیں مٹتا۔مطالبات نہ ماننا بھی خرابی ہے اول تووالدین اپنے بچوں کے تمام مطالبات مان کر انہیں بدماغ، خودسر اور ضدی بنا دیتے ہیں اور دوسرا یہ کہ کسی بھی صورت میں تمام جائز مطالبات بھی مسترد کرنا بھی غلط ہے جوکہ منفی اثرات چھوڑتے ہیں اس پالیسی پر اکثر والدین غلط ہوتے ہیں۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ والدین بچوں کی برداشت سے بڑھ کر سختیاں کرتے ہیں۔ وہ مختلف اصول بنا کر بچوں کو ان میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان اصولوں کو نہ ماننے کی پاداش میں باقاعدہ سزائیں دی جاتی ہیں۔ یہ مارپیٹ ایسے اثرات چھوڑتی ہے کہ اس کا خمیازہ والدین کو بھگتنا پڑتا ہے اور اولاد بھی زہنی مریض بن جاتی ہے۔اولاد کی تعلیم و تربیت کے بعد ان کی شادی کا مرحلہ آتا ہے، جو کہ بہت اہم معاملہ ہے۔ عموماٌ والدین اپنے بچوں کے رشتوں اور شادیوں میں جلد بازی سے کام لیتے ہیں جو بعد میں والدین اور ان کی اولاد کے لیئے تباہی کا باعث بنتا ہے۔ زبردستی کی شادیاں اسلامی اور سماجی دونوں حوالوں سے نا قابل قبول ہیں۔ جن قدامت پسند معاشروں میں زبردستی کی شادیاں ہوتی ہیں انکے ہاں شوہر یا بیوی کسی کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے اور معاشرے میں بگاڑ کا بھی باعث بنتی ہیں،جیسا کہ گھر سے بھاگ کر شادی کرنا۔موجودہ دور میں ہزاروں بچے اور بچیوں نے شرعی لحاظ سے گھروں سے بھاگ کر شادیاں کی ہیں، جو کہ والدین کے لیئے لمحہ ِ فکریہ ہے۔ اس کے زمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جب شادی کروانا مقصد ہو تو اولاد سے اور والدین کی باہمی مشاورت اور رضامندی سے ہو۔ دینِ اسلام اور ملک کا قانون بھی اولاد کے اس حق ہو تسلیم کرتا ہے اور انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ہمارے ہاں اولاد کو والدین کی طر ف سے زبردستی ، غیرت کے نام پر ، کسی دنیاوی مجبوری کی بناء پریا خاندانی رسم و رواج جیسے ہتھکنڈوں سے بلیک میل کیا جاتا ہے۔ ایسی شادیاں پہلے تو ہو نہیں پاتیں، ہو بھی جائیں تو مکمل تباہی کا باعث بنتی ہیں۔ عموماٌ بچے حالات سے تنگ آ کر انتہائی قدم اٹھاتے ہیں اور خودکشی تک کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس جنر یشن گیپ کو ختم کرنے کے لیے والدین کو چاہیئے کہ وہ اپنی اولادکی بہتر راہنمائی کریں، ان میں خود اعتمادی پیدا کریں اور زبردستی کے فیصلے مصلط کرنے سے اجتناب برتیں، اپنے بچوں کو ایسا ماحول فراہم کریں جہاں ان کی شخصیت میں نکھار پیدا ہو تا کہ وہ پر اعتماد فضا ء میں سا نس لیں اور اپنے آپ کو قید نہ سمجھیں۔ والدین کو اپنی زمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اولاد کی بہتر تربیت کرنی چاہئے اور ان کو اپنی زندگی کے اہم فیصلوں میں اپنی معاونت کے ساتھ آزادی دینی چاہئے۔کیوں کہ زندگی ایک بار ملتی ہے ، اس کی قدر کریں، اپنی اولاد کی زندگی کو بچائیں اور ایک صحت مند معاشرے کی بنیاد رکھیں۔
Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 66155 views Columnist/Writer.. View More