سانحہ یو حنا آباد اور زندہ انسانوں کو جلانا بدترین دہشت گردی

پاکستان اس وقت سانحات کی زد میں ہے آئے روز انسانیت کو لرزہ دینے والے واقعات سننے دیکھنے کو مل رہے ہیں قوم غم زدہ ہے پاکستان دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہے کوئی یہاں محفوظ نہیں ہر ایک کا اﷲ ہی حافظ ہے ۔نائن الیون کے بعد جبرا امریکہ نے پاکستان میں اپنی جنگ دھکیلی جس کے باعث پاکستان میدان جنگ بن گیا جب کہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کا نائن الیون سے کوئی تعلق نہیں پھر بھی پاکستان میدان جنگ کیوں؟ یہ سوال آج کل عام لوگ نہیں ہمارے ارباب اقتدار امریکہ کے اہم پروگرامز میں کرچکے ہیں مگر بہت دیر سے۔ کیونکہ ہر طر ف سانحات ہی سانحات ہیں کوئی غمگین ہے کوئی آنسو صاف کرنے والا نہیں بچا ،گذشتہ روز یوحنا آباد کے دوچرچوں میں خودکش حملے ہوئے جن میں 17سے زائد افرادلقمہ ٔاجل اور 75 زخمی ہو گئے یہ حملے اس وقت ہوئے جب مسیحی برادری اتوار کے روز اپنی عبادت میں مصروف تھی عوام سے بھرے ہوئے چرچوں کو نشانہ بنایا گیا بے گناہوں کے قتل عام کے بعد پاکستان بھر سے کرسچن برادری سڑکوں پر نکل آئی سڑکیں بلاک ہو گئیں اس واقعہ کی ذمہ داری کی ایک کالعدم تنظیم نے قبول کی ہے لاہور پولیس نے دو مشتبہ افراد کو پکڑا تومشتعل مظاہرین نے پولیس سے ان مشتبہ افراد کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ اس قدر بنایا کہ وہ چیختے چلاتے رہے کہ ہم بے گناہ ہیں ،ہم پر ظلم نہ کرو مگر بہادر پولیس کی موجودگی میں کرسچن مظاہرین نے بے دردی سے ماورائے عدالت پاکستان کا قانون پامال کرتے ہوئے دو انسانوں کوزندہ جلا دیا لاہور کی بہادر پولیس خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی ۔سوال یہ ہے کہ پولیس نے مظاہرین سے ان مشکوک افراد کو چھوڑایا کیوں نہیں؟کیا حکومت نے مظاہرین کو اس قدرفری ہینڈ دے رکھا تھا کہ جسے چاہیں موت کی نیند سلا دیں؟۔میرے نزدیک جس طرح چرچوں پر حملے اسلام اورپاکستان پر حملے ہیں بالکل اسی طرح ماروائے عدالت پاکستان کے قانون کو لاہور کی سڑکوں پر پامال کرتے ہوئے انسانوں کو صر ف شک کی بنیاد پر زندہ جلادینا بھی دہشت گردی ،اسلام اور پاکستان پر حملہ ہے ، خود کش حملے کرنے والے تو پا کستان کے آئین وقانون،نظم کو تسلیم ہی نہیں کرتے وہ تو ایسے گھناؤنے واقعات کرکے اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں جن کا اسلام،پاکستان،انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ان کے خلاف تو ساری قوم ایک پیج پر کھڑی ہے دکھ افسوس تو ان پر ہے جو پاکستان کے قانون،آئین،نظم کو مانتے ہیں اپنے آپ کو محب وطن،پاکستان کو اپنا ملک اس سے وفاداری کا اظہار کرتے ہیں ان کی طرف سے ملکی املاک کا نقصان،جلاؤ گھیراؤ،انسانوں کو زندہ جلا دینے کو کیا کہا جائے میرے نزدیک یہ بھی دہشت گردی ہے جولوگ اس گھناؤنے فعل میں ملوث تھے ان بھی عبرت ناک سزا ملنی چائیے تاکہ کوئی ریونڈیوس بننے کی کوشش نہ کرے جس کا پنجاب حکومت نے دیر سے نوٹس لیا ہے اور مقدمہ درج کرکے ملزمان کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔لاہور کی سڑکوں پر کرسچن مظاہرین نے حضرت عیسیٰ ؑ کی تعلیمات سے سرعام اعلان بغاوت کرکے انسانوں کو زندہ جلایا ہے جو کسی بھی کرسچن کیلئے باعث شرم،قابل گرفت ہے۔ ساری پاکستانی قیادت نے سانحہ یوحنا آباد کی مذمت کی کرسچن برادری سے اظہار تعزیت کیا، راقم بھی دلی طور پر کرسچن برادری کے غم میں برابر کا شریک ہے بلکہ اب مذمت سے بڑھ کر عمل کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی مگر افسوس تو ملک قائدین پر ہے کہ جنہوں نے صرف چرچ پر حملوں کی مذمت توکی مگر زندہ انسانوں کو جلا دینے کے عمل کا نوٹس لینا تو دور کی بات ہے مذمت تک نہیں کی آخر کیوں؟کیا حکمران اور سیاستدان،ملکی قیادت قوم کو یہ سبق دیناچاہتے ہیں کہ جذبات میں آکر غم کے موقعہ پر جو مرضی کر گزرویہ تمہارا بنیادی حق ہے ،اگر ایسا سلسلہ چل نکلا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا یہی کہ گلی گلی،محلہ محلہ لڑائیاں خانہ جنگی ہوگی اس لئے ساری قوم سے درد مندانہ اپیل ہے کہ خدارا غم کے وقت بھی ملکی وملی مفادات کو مقدم رکھا کریں ،اگر مشکوک افراد واقعہ ہی مجرموں کے ساتھی تھے تو پولیس نے ان کو گرفتار کرلیا تھا ان کو پولیس سے چھین کر زندہ جلادینے کی کسی قیمت پر حمایت نہیں کی جاسکتی پاکستان کی عدالتوں میں ان کو پیش کرکے نشانہ عبرت بنایا جا سکتا تھا اور اگر وہ مجرموں کے ساتھی نہ تھے تو ان کو زندہ جلا دینا مزید قابل جرم اور قابل گرفت ہے بے گناہ انسانوں کو جلا دینا کہاں کی انسانیت ہے؟ انسانوں کو زندہ جلا دینے والے واقعہ کی چند ایک اداروں کے سوا میڈیا نے کوریج بالکل نہیں کی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ارباب اقتدار کو چاہیے کہ سیکیورٹی کی صورتحال پر خصوصی توجہ دیں بلا تفریق تمام مذاہب کی عباد گاہوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے کرسچن برادری کی طرف سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دھمکیاں کافی روز سے دی جارہی تھیں مگر مناسب سیکیورٹی فراہم نہیں کی گئی ہم سمجھتے ہیں یہ حملہ خفیہ اداروں،سیکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے ہر واقعہ کی پیشگی اطلاع ہوتی ہے تو پھر مناسب انتظام کیوں نہیں کئے جاتے ؟عوام الناس سے بھی التماس ہے کہ سیکیورٹی اداروں پر مکمل انحصار کرنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحفظ مقامی تھانے کو اطلاع دے کر ذاتی سیکیورٹی کا انتظام بھی ضرور کریں اداروں کے ساتھ خود اپنی حفاظت کا انتظام کرنا ہر شہری کی بھی ذمہ داری ہے ۔ایک اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے اقلیتوں کی جان ومال،جائیداد،عزتوں،عبادت گاہوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داریوں میں سے اولین ذمہ داری ہے ایک بے گناہ انسان کا قتل ساری انسانیت کا قتل ہے آج پاکستان میں اقلیتیں ہی نہیں بلکہ ہر طبقہ غیر محفوظ ہے ۔حکومت کی رٹ زبانی کلامی تو بہت ہے مگر عملی طور پر صفر ۔۔۔ میڈیا پر شور برپا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کا قلع قمع کردیا اب وہ آخری سانس لے رہے ہیں مگر وہ پاکستان بھر کاروائیاں کرکے اپنے منظم ہونے،اپنی موجودگی کا عملی طور پر اظہار کررہے ہیں قوم کے بچے بچے کے اعصاب پر ان کی ہیبت،خوف سوار ہے پھر بھی شور ہے کہ ہم جیت گئے کیسے؟؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ضرب عضب آپریشن کے بعد دشمن اپنی حکمت عملی تبدیل کرکے سرد جنگ کا آغاز کرچکاہے۔ حالیہ حملے اسی سلسلے کی کڑی ہیں ضرب عضب کے بعد یہ جنگ ختم ہوجائے گی ایسا سوچناقطعی طور پر درست نہیں ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان کاروائیوں کا ماسٹر پلان بھارت میں طے ہوتا ہے اور بھارت کی پشت پناہی امریکہ ،اسرائیل کر رہے ہیں تاکہ پاکستان کو کسی طرح ناکام ریاست قراردیا جا سکے اور ایٹمی پاکستان کو عملی طورپر اپنی کالونی بنایا جائے جسے زندہ دلان پاکستان کسی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دیں،ان کی ناپاک سازشوں کوپاکستان کی دینی قوتیں پاکستان میں اﷲ تعالیٰ کانظام خلافت قائم کرکے ، ا ﷲ تعالیٰ کی مدد ونصرت اور ساری قوم وحدت کی طاقت سے ناکام بنائیں گی(انشاء اﷲ)۔پاکستانی حکمرانوں کو چاہیے کہ اب ہی تھوڑی سی غیرت کا عملی مظاہرہ کرکے اپنے اصل دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرلیں تاکہ بے گناہ انسانوں کا قتل عام کو روکا جا سکے جب تک ہمارے حکمران جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان سے ہر قسم کے تعلقات ختم نہیں کریں گے ہمارے ازلی دشمن ہمیں زچ پہنچانے کیلئے کرائے کے قاتلوں کو استعمال کرکے ایسی گھناؤنی حرکتیں کرتے رہیں گے۔
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 269368 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.