سانحے سے بڑا سانحہ ۔ ۔ ۔

اتوار کے روز زندہ دلان لوگوں کا شہر لاہور ایک بار پھر ظلم و بربریت کا نشانہ بنا اور اس کی فضاؤں میں ایک بار پھر بارود کی بو پھیل گئی ۔اس بار نشانہ مسیحی اکثریتی آبادی یو حنا آباد میں موجود کیتھڈرل چرچ اور کرائسٹ چرچ تھے ۔ ان چرچوں کو اس وقت خود کش حملوں کا نشانہ بنا یا گیا جب وہاں دعائیہ تقاریب جاری تھیں ۔ ان بزدلانہ حملوں کے باعث 14 افراد جان بحق اور 80 سے زیائد زخمی ہوئے ۔خبروں کے مطابق دن 11 بجے ایک مشکوک شخص نے کرائسٹ چرچ میں داخل ہونے کی کوشش کی سیکورٹی پر معمور گارڈز نے جب اس کی تلاشی لینے کی کوشش کی تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا ۔ ٹھیک 2 منٹ کے بعد قریب ہی واقع کیتھڈرل چرچ کے گیٹ پر بھی یہی مشق دہرائی گئی ۔ ان زور دار دھماکوں سے پورا یوحنا آباد لرز اٹھا۔دھماکے کے بعد پورے ملک میں سوگ کو سماں تھا ، ہر دل دکھی اور ہر آنکھ آشکبار تھی ۔ ابھی جائے وقوع پرامدادی کاروائیاں جاری تھیں کہ وہاں موجود لوگ مشتعل ہوگے اور انہوں نے توڑ پھوڑ شروع کردی ۔ اس کے بعد سانحے سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ حملے کے بعد مشتعل مظاہرین نے وہاں موجود دمعصوم شہریوں کو مشکوک سمجھ کر پکڑ کر پہلے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر زندہ جلا دیا گیا ۔ اُن دو زند ہ جلائے جانے والے نوجوانوں میں سے ایک کی شناخت نعیم کے نام سے ہوئی ہے ۔جو حافظ قرآن تھا اور8 سال سے یہیں یوحنا آباد میں ششے اور ایلومینیم کا کام کرتا تھا ۔ مشتعل افراد زندہ جلانے کے ساتھ ساتھ ان کی تصاویر اور ویڈیوز بناتے رہے ۔
ؔکھڑے تو تھے میرے چاروں طرف بہت سے لوگ
میں اور کیا آواز دیتا مدد کے لیے ۔ ۔

مشتعل مظاہرین نے نہ صرف دو معصوموں کو زندہ جلاڈالا بلکہ پرامن رکھنے کی کوشش کرنے والے تین پولیس اہلکاروں کو بھی تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دوکان میں بند کر لیا ۔جنہیں کھنٹوں بعد بازیاب کرایا جاسکا ۔ مسیحی عبادت گاہوں پر ہونے والے یہ المناک خودکش دھماکے بلا شبہ گھناؤنا جرم ہیں ۔اقلیتوں کو نشانہ بنانے والے انسان کہلانے کے مستحق نہیں ایسے عناصر اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں۔ اس واقعے میں ملوث افراد کسی طرح کی نرمی اور ہمدردی کے مستحق نہیں ہیں ۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلاواقعہ نہیں اس سے قبل بھی مسجدوں ، امام بارگاہوں ، سکولوں اور چرچوں کو بزدلانہ حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے لیکن اس سے قبل ایسا نہیں ہوا۔جیسی درندگی لاہور میں ہوئی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ۔ دہشتگرد معصوم لوگوں کو نشانہ بنا تے ہیں لیکن اگر یہی معصوم لوگ اٹھ کر نہتے اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا ئیں گے تو کیا فرق باقی رہ جائے گا ۔ جو لوگ خود مظلوم ہوں ، انصاف کے طلبگا ر ہوں وہ اگر معصوموں کو نشانہ بنانا شروع کردیں تو کون سی امید باقی رہ جائے گی ۔

یہ واقعہ چیخ چیخ کر گواہی دے رہا ہے کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی پستی کی حدوں کو چھو رہا ہے ۔اور اخلاقی قدروں میں زوال کی بنیادی وجہ جہالت ہے ۔ جہالت ہی ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے اور اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لئے کافی ہے ۔جس ملک کی نصف آبادی جاہلوں پر مشتمل ہو اس کے لیے اس سے بڑٖا خطرہ کیا ہوسکتا ہے۔باقی ماندہ پڑھی لکھی نصف آبادی کا حال بھی جاہلوں سے کسی طور اچھا نہیں ۔ انہوں نے نوکریاں حاصل کرنے اور دوسری کسی غرض سے ظاہری تعلیم تو حاصل کر لی لیکن اس کی روح تک نہیں پہنچے ۔ نتیجہ ایسا واقعہ پیش آنے کی صورت میں ان میں سے اکثریت کاردعمل جاہلوں سے بھی برا ہوتا ہے ۔یہ پڑھے لکھے جاہل ڈنڈہ برداروں کی صف میں سب سے آگے نظر آتے ہیں ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اشتعال کیوں بڑھ رہا ہے ؟ اس کی بہت سی وجوہات اور بہت سے ذمہ دار ہیں ۔ ایک اہم ذمہ داری میڈیا کی ہے ۔میرے خیال میں ملک میں اشتعال بڑھا نے میں میڈیا کا رول کسی سے کم نہیں رہا ۔ جس طرح اتوار کے روز لاہور میں ہجوم کے ہاتھوں جلائے جانے کے مناظر گھنٹوں ٹی وی سکرینوں کی زینت بنتے رہے ۔کیا میڈیا نے ایک لمحے کے لیے بھی خیال کیا کہ ان مناظر کو دیکھانے سے ملک میں کس قدر انتشار پھیل سکتا ہے؟یہ مناظر بلاشہ لوگوں کو غصہ اور اشتعال دلانے کے لئے کافی تھے ۔ صرف یہ نہیں ماضی میں بھی ایسے مناظر ٹی وی سکرینوں کی زینت بنے جس کے باعث لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور ان کے اندر انتقام کی آگ نے جنم لیا۔

سب سے بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے ۔ حکومت کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خود کش حملوں کو روکا نہیں جاسکتا اور حکومت نے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کررکھا ہے ۔ لیکن تمام تر حکومتی کوششوں کے باوجود ایسے واقعات کارونما ہونا ظاہر کرتا ہے کہ دہشتگردوں کے سہولتکا ر ابھی بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن کا قلع قمع ضروری ہے۔ یہاں پر صوبائی حکومت کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ دہشتگردی کے ان واقعات میں ملوث لوگوں کے خلاف موثر کا روائی کرے۔ ساتھ ہی ساتھ مذہبی منافرت پر مبنی واقعات کی روک تھام اور ان میں ملوث ملزموں کے خلاف قرار واقعی سزا دینا بھی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ ایک ایسی حکومت جو کوٹ رادھا کشن میں ہجوم کے ہاتھوں زندہ جلائے جانے والے جوڑے کے قتل کا نوٹس تو لیا لیکن صرف دو درجن افراد کے خلاف مقدمہ درج کرسکی ۔ پھر متاثرین کے اہل خانہ کو پچاس لاکھ روپے اور دس ایکڑ زمین دے کر خاموش ہو گئی ۔اگر اُس وقت قانون حرکت میں آتا اور مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے والے افراد کو قرار واقعی سزا دی جاتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا ۔ عوام نظام انصاف سے خوش نہیں اور قانون ہاتھ میں لینا چارہے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام طبقات تک انصاف کی آسان رسائی کو ممکن بنائے۔

اس تمام واقعے کے بعد پولیس کا کردار ایک بار پھر زیر بحث آرہا ہے ۔پولیس پر تنقید بجا سہی ۔ یہ بات درست ہے کہ ہماری پویس کے پاس ہجوم کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی وسائل ۔ساتھ ہی ساتھ یہ مصیبت بھی ہے کہ حکومت انہیں حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے فری ہینڈ دینے پر راضی نظر نہیں ۔خصوصاََ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بعد حکومت کچھ زیادہ ہی محتاد نظر آتی ہے ۔بڑے سے بڑے پر تشدد واقعے کی صورت میں بھی پولیس کو صرف لاٹھی اور ڈنڈے استعمال کی ہدایت جاری کی جاتی ہے ۔ایسی صورت میں پولیس کیا کر سکتی ہے ۔ دو چار ہوائی فائر اور بس ۔ پولیس کے بس میں جو تھا اس نے کیا ۔ پولیس کے باعث دہشتگرد چرچ کے اندر داخل ہونے میں ناکا م ہوئے ۔

ہمارا ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے ۔ دہشتگردوں کے خلاف کاروائی پوری قوت سے جاری ہے ۔ایسی صورت میں دہشتگردوں کی طرف سے ردعمل کے طور پر مختلف مقامات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی جائے گی ۔ تاکہ وہ ملک میں خوف و ہراس پھیلا سکیں ۔ ایسی صورتحال میں ہمیں اپنے حوصلے بلند رکھنے ہونگے ۔ اس جنگ کو ہر صورت جیتنے میں اپنی افواج کا ساتھ دینا ہوگا ۔ ایسے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا جس سے ملک اندرونی طور پر انتشار کا شکا ر ہواور دہشتگردوں کے عزائم کی تکمیل ہو ۔
Asghar Hayat
About the Author: Asghar Hayat Read More Articles by Asghar Hayat: 13 Articles with 23329 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.