کتنے افسوس اور تکلیف کی بات ہے
کہ لاہور کے علاقے یوحنا آباد میں دو بے گناہ مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا
۔ اس درندگی کامظاہرہ یوحنا آبادکے رہنے والے عیسائیوں نے اس وقت کیا جب ان
کے چرچ میں کسی دہشت گرد نے خود کش دھماکہ کیا ۔ ہر شخص یہ جانتا ہے کہ
گزشتہ پندرہ سالوں سے دہشت گرد ی کی لعنت سے پاکستان کا کوئی شہر محفوظ
نہیں ہے ۔وہ کونسا شہر ہے جہاں دہشت گردوں نے بم دھماکے اور خودکش دھماکے
نہ کیے ہوں ۔ کیا مسجدیں ان دہشت گردوں سے محفوظ ہیں کیا امام بارگاہوں پر
ان دہشت گردوں نے خود کش دھماکے نہیں کیے ۔کیا پاک فضائیہ ٗ پاک فوج اور
پاک بحریہ کے اہم ترین مقامات اور تنصیبات پر دہشت گردی کی وارداتیں نہیں
ہوئیں ۔ کیا کراچی کے ائیر بیس پر کھڑے ہوئے اربوں روپے مالیت طیارے ان
دہشت گردوں نے تباہ نہیں کیے ۔ پاکستان کا وہ کونسا شہر یا علاقہ ہے جہاں
دہشت گردی کی وارداتیں نہیں ہوئیں۔ لیکن جب بھی کسی گرجے میں بم یا خودکش
دھماکہ ہوتا ہے تو عیسائی ہاتھوں میں ڈنڈے لے کر نہ صرف سرکاری املاک کو
نقصان پہنچا تے ہیں بلکہ وہ نجی املاک ٗ گاڑیوں رکشاوں موٹرسائیکلوں کوبھی
آگ لگانے سے دریغ نہیں کر تے ۔اس مرتبہ یوحنا آباد میں خودکش دھماکے کے بعد
عیسائی غنڈوں نے اس میٹرو کی تنصیبات کو تبا ہ کردیا جس پر لاہور کے لاکھوں
شہر ی روزانہ سفر کرتے ہیں ۔بلکہ قصور سے لاہور اورلاہور سے قصور جانے والی
تمام ٹریفک پر زبردست پتھراؤ کرکے سڑک بلاک کردی ۔اس پر بھی اس کے کلیجے
میں ٹھنڈ نہیں پڑی یوحنا آباد کے قریب کاروبار کرنے والے دو مسلمانوں کو
پکڑکر پہلے انتہائی زودکوب کیا پھر شدید زخمی حالت میں ان پر پٹرول چھڑک کر
آگ لگا دی جب وہ تکلیف کی وجہ سے چیخ و پکار کررہے تھے اور تڑپ رہے تھے اس
وقت یہ عیسائی غنڈے خوشی کا اظہار کرکے اپنی خباثت اور درندگی کامظاہرہ
کررہے تھے ۔ پاکستان جو 9لاکھ مسلمانوں عورتوں بچوں اور مردوں کی جانی و
مالی قربانیوں سے بنا ہے کہ یہاں ان کی جان و مال محفوظ رہے گی لیکن مٹھی
بھر عیسائی غنڈوں نے پولیس کی موجودگی میں دو مسلمانوں کو زندہ آگ میں جلا
کر اپنے اندر چھپے ہوئی درندگی کو نکال باہر کیا ہے ۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ
بات اور کیاہوگی کہ جلتے ہوئے مسلمانوں کو دیکھ کر وہ نہ صر ف قہقہے لگاتے
رہے بلکہ اپنے موبائل پر تصویریں بھی بنا کر مسلمانوں کے سو ئی ہوئی غیرت
کو جگاتے رہے لیکن کسی بھی مسلمان کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ اپنے دینی
بھائیوں کی مدد کرکے ان کی جان بچا سکتے ۔ اس وقت سب کی غیر ت مر چکی تھی ۔
اس موقع پر پولیس یہ کہتے ہوئے خاموش تماشائی بنی رہی کہ اگر ہم بپھر ے
ہوئے عیسائیوں کو اس ظالمانہ حرکت سے روکتے ہیں تو کل حکومت ہمیں سزا کے
طور پر معطل کردے گی اوراگر ہم نہیں روکتے توحکومت پھر بھی ہمیں یہ کہتے
ہوئے سزا دے گی کہ تم نے روکا کیوں نہیں ہے ۔اس میں شک نہیں کہ ان وحشت ناک
اور ڈنڈا بردار عیسائیوں نے دو مسلمانوں کوزندہ جلا کر ہماری غیرت کو للکار
ا ہے ۔ لیکن افسوس کہ حکومت ان درندوں کو فوری طور پر سزا دینے کی بجائے
عیسائیوں کی چاپلوسی میں مصروف نظر آتی ہے ۔ رانا ثنا اﷲ کس حیثیت سے ان
درندوں کے ساتھ مذاکرات کرنے گئے تھے اور مذاکرات کامیاب ہونے کی جو رٹ
لگائی جارہی تھی اس کا پس منظر کیا تھاکیا یہ دھماکہ حکومت نے خود کیا تھا
حکومت اپنے نمائندے کے ذریعے جس کی معذرت یوحنا آباد گئی تھی ۔ دہشت گردی
سب جگہ ہوتی ہے کیا مسلمانوں نے بھی کہیں عیسائیوں کو زندہ جلایا ۔ اگر
توہین رسالت کے ارتکاب پر کہیں عیسائیوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو پاکستان
کے تمام مسلمان عیسائیوں کی حمایت کرتے ہوئے ذمہ داران کے خلاف کاروائی کی
حمایت کرتے ہیں کئی تو اس حد تک گر جاتے ہیں کہ آئین کی اس شق کو ہی ختم
کرنے کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں ۔ سب سے بڑی بات توہے پاکستانی حکمران رات دن
عیسائیوں کے آنسو پوچھنے سے مصروف رہتے ہیں ۔امریکی صدر کا بیان بھی نشر
ہوجاتا ہے پاکستانی ٹی وی چینلز اتنی بے تابی دکھاتے ہیں جیسے پاکستان کا
سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ ہے۔ان حرکتوں کو دیکھ کریوں معلوم ہوتا ہے جیسے یہ
ملک عیسائیوں کا ہے وہ چاہیں تو نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کریں وہ
چاہیں توکسی بھی بہانے سرکاری املاک کو نقصان پہنچائیں وہ چاہیں تو بے گناہ
مسلمانوں کو پکڑکر آگ لگادیں ۔ حکومت اور پولیس خاموش تماشائی بنی دیکھتی
رہے گی ۔ یوحنا آبادکے خود کش دھماکے میں سات مسلمان بھی شہید ہوئے ہیں ان
کے لیے تو کوئی آنسو نہیں بہا رہا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں شایدی مسلمانوں
کوانسان بھی نہیں سمجھتیں ۔یہ دھماکے دہشت گردوں نے کیے ہیں جن کا کوئی بھی
مذہب نہیں ہے ۔ بھارت میں انتہاء پسند ہندو جب مسلمانوں کی املاک کو نقصان
پہنچاتے ہیں یا مسلمانوں کو زندہ جلاتے ہیں تو اس وقت کسی پوپ کا بیان
اخبارات میں شائع نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی مسلمان کو بھارت کا پرچم جلانے
کی جرات ہوتی ہے ۔ اس درندگی پر انتہاء پسند ہندووں کے خلاف کاروائی کرنے
کی بجائے بھارتی حکومت اور پولیس مسلمانوں کو ہی جیلوں میں بند کر دیتی ہیں
۔ اس کے باوجود کہ 18 کروڑ مسلمان بھارت میں رہتے ہیں لیکن آج تک کسی
مسلمان کو یہ ہمت نہیں ہوسکی کہ بھارت میں کسی ہندو کو زندہ جلا سکے جبکہ
ہزاروں مسلمانوں کو زندہ جلایا جاچکا ہے ۔ لیکن پاکستان میں اکثریت میں
ہونے کے باوجوداس وحشت ناک واقعے کا رونما ہونا سخت تکلیف دہ بات ہے ۔ اس
پر اور بھی یہ ظلم کیاگیا ہے کہ پاکستان کے قومی پرچم کو بھی عیسائی درندوں
نے آگ لگانے کی جستجو کی ہے ۔ میں سمجھتا ہوں اگر ان کا بس چلتا تو شاید
لاہور شہر کے تمام مسلمانوں کوہی صفحہ ہستی سے مٹا دیتے ۔ |