کولمبیا: سب کچھ بھول جانے والوں کا گاؤں

اگر کسی کو یہ تو معلوم ہو کہ اس کے ہاتھ میں جو شے ہے اسے ’’قلم‘‘ کہتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جائے کہ اس سے لکھا جاتا ہے تو اس کی کیا کیفیت ہوگی۔ یادداشت کی کم زوری اور پھر رفتہ رفتہ دماغ کو گُھن کی طرح کھا جانے والی بیماری الزائمر کے شکار افراد کو ایسی ہی اذیت ناک صورت حال سے گزرنا پڑتا ہے۔ الزائمر ایک دماغی مرض ہے۔ ابھی تک اس مرض کا علاج دریافت نہیں ہو سکا۔ یہ انسان کو آہستہ آہستہ موت کے منہ کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ یہ مرض سب سے پہلے جرمن ماہر نفسیات اور عصبی ماہر امراضیات الوئیس الزائمر (Alois Alzheimer) نے 1906ء میں دریافت کیا اور اسی مناسبت سے اس مرض کا نام الزائمر مشہور ہو گیا۔اکثر اوقات، الزائمر 65 برس سے زائد عمر کے افراد پر حملہ آور ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ بیماری اس عمر سے پہلے بھی ہو سکتی ہے۔ 2006 میں اس مرض میں 26.6 ملین افراد مبتلا تھے۔ ایک جائزے کے مطابق پوری دنیا میں 2050 تک ہر آٹھ افراد میں سے ایک فرد اس مرض میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ یہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ عام ہے۔
 

image


جنوبی امریکا کے ملک کولمبیا کے شمال مغرب میں ایک خوب صورت وادی انٹیوکیوا ہے۔ جنت ارضی کا منظر پیش کرنے والی اس وادی میں ایسے افراد کی غیر معمولی تعداد بستی ہے جو الزائمر کے مرض کا شکار ہیں اور ان میں ساٹھ سال سے کم افراد کی بڑی تعداد شامل ہے۔ انٹیوکیوا میں رہنے والوں کی اکثریت الزائمر کی مختلف اسٹیجز کا شکار ہیں جن میں ابتدائی علامات سے مکمل ڈیمنشیا شامل ہے۔

الزائمر کے اسباب کے بارے میں ایک بات پر سبھی ماہرین متفق ہیں کہ یہ زہریلے پروٹینز کی وجہ سے ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ دماغی خلیے کو تباہ کردیتے ہیں جس کے نتیجے میں یادداشت زائل ہونے لگتی ہے اور آخر کار مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ بعض افراد میں اس مرض کی علامات چالیس برس کی عمر سے بھی قبل ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ اس کی ابتدا چھوٹی موٹی باتیں بھولنے سے ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ بیماری تخیل کی صلاحیت ہی ختم کردیتی ہے۔

دنیا میگزین اپنی شائع کردہ اس رپورٹ میں لکھتا ہے کہ انٹیوکیوا میں بسنے والے الزائمر کے شکار افراد میں زیادہ تر اس بیماری کے شدت 35 سے چالیس برس کے درمیان ہی ظاہر ہونے لگتی ہے۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ بیان کی جاتی ہے ’’جین‘‘۔ گذشتہ تین سو سال سے اس علاقے میں رہنے والے اپنے خاندان اور علاقوں سے باہر شادیاں نہیں کرتے۔ اس کی وجہ سے متاثرہ جین دوسرے متاثرہ جین سے مل کر اس بیماری کے امکانات کو بڑھاتے رہے۔ مختلف رشتے ناتوں سے ایک ہی خاندان کے افراد شمار ہونے والے ایسے افراد کی تعداد 5ہزار تک جا پہنچی ہے۔ اسی وجہ سے انٹیوکیوا دنیا میں الزائمر سے متاثرہ افراد کی سب سے بڑی بستی بن چکا ہے۔
 

image

ان افراد کے جین میں آنے والے اس نقص کو ’’پیسا‘‘ کہا جاتا ہے، یہ کروموزوم 14میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے واقع ہوتے ہیں اور اس نقص کے شکار ہونے والوں کو کولمبو ’’پیساز‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انٹیوکیوا میں بسنے والے کئی ادھیڑ عمر افراد کی دیکھ بھال ان کے بوڑھے والدین کو کرنا پڑتی ہے۔ اسی وادی میں یرومال نامی ایک گاؤں میں 82 سالہ مسز کیوارٹاز رہتی ہیں جو اپنے تین ’’بچوں‘‘ کی دیکھ بھال کرتی ہیں یہ تینوں الزائمر کا شکار ہیں۔ ان کی عمریں بالترتیب48 ،50 اور 61ہیں۔ اس عمر میں آکر ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ایسے ہیں جو یہ بھی بھول چکے ہیں کہ جرابیں پاؤں میں پہنی جاتی ہیں اور ٹوپی سر پر۔ مسز کیوارٹاز کا کہنا ہے ’’اپنے بچوں کو اس اذیت میں مبتلا دیکھنا دنیا کی سب سے دردناک بات ہے۔ میرے خیال میں یہ دنیا کی سب سے بُری بیماری ہے۔‘‘

الزائمر کے بارے میں آئے روز نئی تحقیقات سامنے آتی رہتی ہیں۔ اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے کئی ادویہ متعارف ہوچکی ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی اس مرض سے مقابلے میں مددگار ثابت نہیں ہوسکی۔ سائنس داں دن رات اس مرض کا علاج تلاش کرنے میں جُٹے ہیں۔ ان کوششوں میں جلد کام یابی کے لیے سب سے زیادہ خواہش مند یرومال کے رہنے والے ہیں۔ واشنگٹن یونیورسٹی میں اس مرض پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر جوہن سی موریسن کا کہنا ہے کہ اس مرض کے علاج کے لیے کی جانے والی مختلف تھیراپیز اس لیے مؤثر ثابت نہیں ہورہیں کہ ہم ان کا اطلاق کرنے کا درست وقت معلوم نہیں کرپاتے۔ اس مرض سے بچاؤ کے لیے بنائی جانے والی ادویہ کے سائیڈ افیکٹ اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان کا استعمال کسی غیر متاثرہ فرد کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوسکتا ہے۔

تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ کولمبیا کی یہ وادی سائنسی ڈیٹا جمع کرنے اور تحقیق کے لیے موزوں ترین جگہ ہے۔ فرانسیسو لوپیرا ایک نیورولوجسٹ ہیں اور یرومال میں تجربات کرکے اس مرض کے اثرات کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’’ہماری حکمت عملی ہے کہ مرض کو دماغ مکمل تباہ ہونے سے پہلے ہی روک دیا جائے۔‘‘ وہ کئی ماہ سے تجرباتی بنیادوں پر کچھ دوائیں استعمال کروا رہے ہیں۔ اس کے لیے انھوں نے 3سو افراد پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا ہے جس میں تیس سے ساٹھ برس کے افراد شامل ہیں اور یہ تمام افراد ہی جنیاتی نقص ’’پیسا‘‘ کے بھی شکارہیں۔
 

image

فرانسیسو کی تحقیق کے نتائج 2020تک برآمد ہونے کی توقع کی جارہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ الزائمر کے اسباب کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے لیکن اس مرض میں مبتلا افراد کی ایک فی صد تعداد میں یقینی طور پر یہ موروثی ہوتا ہے۔ فرانسیسو نے اس علاقے میں ایک ’’برین بینک‘‘ بھی قائم کررکھا ہے جس میں انٹیوکیوا کے رہنے والے افراد مرنے سے پہلے اپنے اعضا عطیہ کردیتے ہیں۔ متاثرہ افراد کے دماغوں کا تجزیہ کرکے مرض کے مختلف اسباب پر تحقیق کی جاتی ہے۔ انھیں اس علاقے میں کام کرتے ہوئے کئی مسائل کا بھی سامنا ہے۔

کچھ عرصہ قبل ان کے ساتھ کام کرنے والی ایک نرس کو اس وقت اغوا کرلیا گیا جب وہ ایک دور دراز گاؤں میں سیمپلز جمع کرنے گئی ہوئی تھی۔ اس علاقے میں کام کرنے والے ایک گوریلا گروپ نے اسے اغوا کیا تھا اور آٹھ دن بعد رہا کیا تھا۔ اسی وجہ سے فرانسیسو لوپرا کئی دور دراز دیہات تک رسائی حاصل کرنے میں کام یاب نہیں ہوپارہے ہیں۔ فرانسیسو کا کہنا ہے کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک ہی چھت تلے الزائمر کے تین یا اس سے زیادہ مریض بستے ہوں۔ ’’جب ایک مریض اس مرض کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلا جاتا ہے تو اگلی باری اس ہی خاندان کے کسی دوسرے فرد کی ہوتی ہے۔ ہم اس وقت 14افراد پر مشتمل ایک ایسے خاندان پر کام کررہے ہیں جس کے سات افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں اہل خانہ پر اس کے انتہائی منفی جذباتی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘
 

image

الزائمر کے مریضوں کی بحالی کے لیے کام کرنے والے یہ گروپ زیادہ تر ایسے افراد کی مدد کرتے ہیں جو انزائٹی اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس مرض اور اس کے دیگر اثرات کی وجہ سے اس علاقے میں منشیات کے استعمال اور خود کشی کی شرح انتہائی بلند ہے۔ اس کی ایک وجہ الزائمر کے مرض کا خوف بھی ہے۔ فرانسیسو کا کہنا ہے ’’یہاں رہنے والے افراد اگر تیس برس کی عمر میں چھوٹی موٹی باتیں بھولنے لگ جائیں، جو معمول کا حصہ ہوتی ہیں تو انھیں اس بات کا خوف لاحق ہوجاتا ہے کہ وہ الزائمر کا شکار ہوچکے ہیں۔ نوجوان بھی اس تشویش کا شکار رہتے ہیں کہ اگر وہ اس مرض کا شکار ہوگئے تو کون ان کی دیکھ بھال کرے گا۔ اسی خوف کی وجہ سے کئی نوجوان شادی کرنے سے بھی ڈرتے ہیں اور ان میں سے کئی افراد اس شدید ذہنی دباؤ کی وجہ سے خود کشی کے بارے میں سوچنا شروع ہوجاتے ہیں۔جب ان میں سے کوئی واقعی اس مرض کا شکار ہوجاتا ہے تو وہ خود کشی کرنے کا اپنا فیصلہ بھی بھول چکا ہوتا ہے۔‘‘
YOU MAY ALSO LIKE:

In a picturesque village in the Andes mountains, an 82-year-old woman is putting her middle aged children into nappies. Mrs Cuartas, who lives in a small village called Yarumal, in Colombia, is forced to take care of her three children despite being an old woman herself.