23 مارچ اور میچ کے مارچ
(sumaira qureshi, karachi)
کچھ سالوں پہلے جب مسلمانوں نے
اپنے جذبات اور احسا ست کی ترجمانی کے لئے ایک رہنما کی رہنمائی میں ایک
منظم جماعت کی شکل میں ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کو منٹو پارک لاہور میں قا یدا عظم کی
زیر صدارت مسلم لیگ کے عظیم الشان اجتماع میں قرا داد لاہور منظور کر کے دو
قومی نظریے پر قیام پاکستان کی بنیاد رکھی.حضرت علامہ اقبال نے یہ ہی قرار
داد منظور کروانے کے لئے ١٩٣٠ کو الہ با د میں تقریب منعقد کی،،،آلانڈیا
مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنا صدارتی خطبہ دیتے ہویے پیش کی تھی جس
میں انہوں نے صا ف صا ف فرمایا تھا انگریز تسلط کے اندر مسلمانوں کے لئے
الگ خطّے کا قیام عمل میں لا یا جائے. جسکا مقصد یہ تھا کے ہمیں ہمیں الگ
زمین کا ٹکڑا چاہیے ،،جہاں ہر رنگ،ہر نسل ،،سے تعلق رکھنے والےمسلمان اپنے
اپنے عقاید آزادی کے ساتھ نبھا سکیں ..علامہ اقبال کا خواب بھی اسی سا رے
منظر کی عکاسی کرتا تھا..یہی وجہ ہے کہ وو ہماری یادوں میں قیامت تک مفکر
اور مصورے پاکستان کی حیثیت سے زندہ رہیں گے ،،،،اس جدوجہد نے جنوں کی شکل
اختیار کی تھی ،،جنون نے تحریک کو ہوا دی ،مسلمانوں نے تین،میں،دھن،جذبوں
کی قربانی دی ....
دراصل مسلمانوں نے جیسے ہی ہندستا ن میں قدم رکھا انکے وجود کو خطرہ لاحق
ہوگیا تھا ہندو یہ کوشش کرنے لگے کے مسلمان انکا مذھب قبول کرلیں لیکن
برصغیر کے مسلمان اپنے اندر زبردست قوت مدافعت لیکر آے تھے مسلمانوں میں
زبردستی ایسے عناصر شامل کرنے کی کوشش کی گئی ،،لیکن مسلمان اس بات سے
بخوبی اچھی طرح واقف ہوچکے تھے کہ اب انکا طرز زندگی ، ہندووں کے مختلف طرز
زندگی سے بیحد مختلف ہے .اسی طرح مسلم لیگ کے وجود میں آ نے سے لیکر ایک
طرف کانگریس کے دور تک مسلمانوں جما عتیں موجود تھیں جو ان تمام کوششوں کو
ناکام بناتیں رہیں ....اگر کانگریس کا رویہ سخت نہ ہوتا تو مسلمان بھی
علیحدگی کی تحریک نہ چلاتے اور یوں یہ دور دس سالہ دور تک ١٩٣٠ سے ١٩٤٠ تک
رہا اور اس دوران ہندو مسلم کشیدگی میں شدت نظر آئی ...
اس دوران ١٩٣٠ میں الہ باد کے مقام پر علامہ اقبال نے مسلمان کے لےا لگ ملک
کا مطالبہ کیا اور ١٩٣٧ سے ١٩٣٠ میں ان دو سالوں میں کانگریس نے مسلموں کے
خلاف اپنی فرقہ پرستی کی نیت واضح کردی تھی ..َ٩٤٠ کو قا ید ا عظم نے
فرمایا کہ ہندو اور مسلم دو الگ الگ قومیں ہیں یہ اس وجہ سے ہوا کے وہ قا
ید ا عظم جو کبھی ہندو مسلم اتحاد چاہتے تھے اور اس ضمن میں انھیں اتحاد کا
سفیر بھی کہا جانے لگا تھا اب بلکل مایوس ہوگے اور یہ بیان جاری کردیا اس
تحریک میں دیگر زعما بھی ابھر کر سامنے آ نے لگے اور بار بار مسلموں کے لئے
الگ ملک کا مطالبہ کرنے لگے ،،جن میں جمال الدیں افغانی نے بھی اپنا نظریہ
پیش کر ڈالا انہوں نے کہا کہ بر صغیر کو ہندو اور مسلمز میں بانٹ دیا جائے،
انکا تصور جمہوریہ کا تصور تھا تو سمرقند بخارا،افغانستان اور شمال مغربی
بر صغیر ،پر مشتمل تھا ،اسی طرح عبدل حلیم شررنے مطالبہ پیش کیا کہ بر صغیر
میں پاک ہند کے مسلمانوں کی جداگانہ حثیت کو تسلیم کر کہ شمال مغرب کے
علاقوں پر مشتمل آزاد ریاست تشکیل دیکر ریاست کو پاکستان کا نام دیدیا جائے
،٧ اکتوبر ١٩٣٨ کو کراچی میں مسلم لیگ کانفرنس میں قا یدا عظم کی شمولیت
میں منقید کی گئی جس میں بر صغیر کو مسلم اور غیر مسلم وفاقوں میں تقسیم
کرنے کو کہا گیا ،،یہاں سے بر صغیر کے مسلمانوں کے مستقبل کے لئے امید کی
کرنیں بر صغیر کی سر زمین پر پڑنے لگیں ...... فروری ١٩٤٠ میں دہلی میں
مجلس عا ملہ کے اجلاس میں لاہور کے سالانہ اجلاس میں مسلمانوں کے لئے
علیحیددہ ملک کا مطالبہ کرنے کاطے کیا گیا ،اس کے ساتھ ہی ٢٣مارچ ١٩٤٠ کو
قا ید اعظم نے وائسرا ے ہند کو حکومت کو ، برصغیر کے مسلمانوں کے لئے کوئی
حل نکلنے میں ،ناکامی کی صورت میں ،مسلمانوں کی بقا کے لئےمسلمانوں کی
تعمیر کرنےکے لئے دو ٹوک الفاظ میں کہ دیا .لیکن ١٩ مارچ ١٩٤٠کو مسلم لیگ
کے سالانہ اجلاس سے ٤ دن قبل ،سالانہ اجلاس کی تیاریوں کے دوران حکو مت نے
اس اجلاس کو ملتوی کروانے کے لئے چا ل چلی،٣١٣ بیلچہ بردار خاکساروں ،اور
پولیس کے درمیاں تصادم کروا دیا ،اس تصادم میں نقصان بھی ہوا .اس اجلاس سے
پہلے ٢ خان اور قا یدا اعظم نے اپنے چند بیانات سے آخری کیل گاڑھ دی.پہلے
خان تہےلیا قت علی خان دوم خان تھے ظافر علی خان ،قراداد کے مترجم....
تقریر کا سہرا سجا قا ید ا عظم کے سر ،،فرمایا ،مسلمان اقلیت نہی ،ایک قوم
ہیں ،ہندو مسلم اتحاد نا ممکن ،دونوں علحیدہ علحیدہ منفرد ،،مختلف تہزیب و
ثقافت ،،لباس ،،،،،،،رہیں سہن ،،کھانے پینے ،زبان رکھنے والی قومیں ہیں ..انکو
غیر فطری طور پر مصنوعی طرز حکومت جیسی ہتھکڑیوں میں بندہ کر نہی رکھا
جاسکتا ،،،برصغیر کے اس بین الا قوامی مسلے کا حل ،حقیقی امن ،،مختلف اقوام
کا علحیدہ علحیدہ خودمختار ریاستوں کا قیام ہے ،اور یہ کہ ان قوموں کا مدغم
ہونا نہ ممکن ہے ٢٣ مارچ ١٩٤٠ کو بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل الحق کی
طرفسے پیش کی گئی ..امریکن اخبار ہیرلڈ ،ڈیلی ٹیلی گراف نے کوئی خبر شایع
نہ کر کے لندن ٹائمز نے مخالفت کی لیکن تھے دی نیچر نے ٨ کروڑ مسلمان اقلیت
کے،حقیقی ثقافت روایات کے زندہ مطالبے کی آواز کو سنا،محسوس کیا اور لفظوں
کو شکل دیکر اخبار کے سینے میں اتا ر دیا ...اس قراداد کے منظور ہوتے ہی
نہرو کو پریشانی میں مبتلا کر کہ ہندوستانی تقسیم کو ناگزیر بنانے کے لئے
قا یدا اعظکو وزارت عظمیٰ کے لئے مجبور کیا لیکن قا یدا عظیم کے انکار نے
انکی سیاسی بصیرت کو آشکار کردیا جوں ہی قراداد لاہور منظور ہوئی،ہندوؤں نے
اسے قرارداد پاکستان کہنا شروع کردیا .یہاں یہ بات قا بل غور ہے کے مسلم
لیگ نے اس نام کو عوا م تک نہی پھنچا یا ،اس لفظ کو یعنی پاکستان کا لفظ
استمال نہی کیا گیا لیکن چوھدری رحمت علی خان شمالی ہندوستان کے مسلمانوں
کے لئے علحیدہ مملکت کے قیام کی تجویز کو لفظ پاکستان کو استمال کر کے
بازگشت سنا چکے تھے ،اور آسان کام ہندو ،ہندو لیڈران ،نے ہر شہر،ہر گاؤں
پھنچا کر کردیا .قرار داد لاہور-قرارداد پاکستان کا پس منظر ، انقلاب فرانس
،سیکولرزم -لادینیت کی قوبولیت -عیسوی ١٧٨٩ (مذھب )،انقلاب روس ،١٩١٧ عیسوی
،پھر ١٩٢٤ کوخلافت اسلامیہ کو مصطفیٰ کمال کی طرف سے ختم کرنے تک ،ایک عظیم
انقلاب کی طرف لےگیا ...اس قرار داد نے لادینیت کے خلاف طبل جنگ بجا دیا
اورساتھ ہی حا کمیت ، کا اختیار صرف الله اور شر یعت کو دلوادیا ،،،،یہ طبل
جنگ پھر دیگر اسلامی ممالک نے ا سلامی نظام زندگی اور اسلامی حکومت کے حصول
کے لئے بجانا شروع کردیا .پاکستان لاکھوں انسان کی قربانیوں کے بعد حاصل
ہوگیا،،،
،یہ مسلمان مملکت آج بھی لادینیت کے پیروکاروں کی آنکھوں میں ایک کانٹے کی
طرح چبھ رہی ہے ،پاکستانی قوم مختلف محاذوں پر آج بھی لڑ رہی ہے ،صرف
قیادتوں میں،نظریوں میں،اہلیتوں میں فرق آ چکا ہے ایک محاذ آج کل ور لڈ کپ
٢٠١٥ ہے ،یہ محاذ علمی یوم محبّت پر شرو ع ہوا میدان ہے کرا یسٹ چرچ
،میلبرن ہے ،تاریخ ہے ١٥ مارچ ،،،، مہینہ مارچ کا ہے ،دنیا کی ١٤ ٹیموں نے
ایک دوسرے کو ٹف ٹائم دیا ہے اور دے رہیں ہیں..پاکستان کی ٹیم دنیا کی سب
سے زیادہ غیر متوقوع ٹیم ہے ،کرکٹ سے دلچسپی رکھنے والے،کرکٹ کے تجزیہ نگا
ر اور کھلاڑی حضرات یہ بات جانتے ہیں کے یہ ٹیم کسی سے بھی ہا ر سکتی ہے تو
کسی بھی ٹیم کو ہرا بھی سکتی ہے .جس وقت یہ آرٹیکل لکھا جارہا ہے ورلڈ کپ
کے ١١ معرکے جاری ہیں .ورلڈ کپ میں مسلسل دو مچوں میں شکست کے بعد پاکستانی
ٹیم نے کوارٹر فائنل کے لئے مشکل بنایا ،جس وقت یہ آرٹیکل لکھا جارہا ہے ١
مارچ ہے زمبابوے سے ٹیم مقا یلا کر رہی ہے اس وقت سکور ١٩٥/٨ ہے کالم کے
اختتام تک پاکستان کے کوارٹر فائنل تک رسائی کو ناممکن یا ممکن ہونا
،واضکردیگا اب تک کی ٢٠١٥ کے ورلڈ کپ میں پاکستان کی بولنگ لائن اکھڑ گئی
ہے ،سید اجمل اور محمّد حفیظ کے بوللنگ ایکشن مشکوک دے جانے سے قرار دینے
سے جنید خان کے انفٹ ہونے سےبولنگ اٹیک متاثر ہوا اور سہی کومبینیشں نہ بن
سکا بوللنگ کے ساتھ بتٹنگ کے مسایل نے بھی ٹیم کی کا رکردگی کو متاثر کیا
ہے نیز بلے بازوں کے دباؤ میں رہنے کی وجہ سے اب تک ٹیم میں ووننر نظر نہی
آرہے تھے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کالی اندھی کے ہاتھوں عبرتناک شکست
پر سابق کرکٹرز نے شدید رد عمل کا اظہا ر کرتے ہوئے آیندہ مچوں میں یونس
خان کو کرنے اور سرفراز احمد،یاسر شاہ کو مستقل کرنے کا مطالبہ کیا،اس
حوالے سے ہمارے سینئر کرکتورس نے بھی مستقل کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر
رکھی ہی ہے ،جیسا کہ کرککٹر سابق کپتان جاوید میانداد نے کہا کہ ورلڈ کپ کے
لیے ٹیم کے غیر انتخاب نے ٹیم کو منفی نتایج سے دوچار کردیا انہوں نے ٹیم
پلاننگ کو تنقید کا نشانہ بنایا ،سابقہ بھارتی کپتان سنیل گواسکر نے
پاکستانی ٹیم کو کمزور ترین ٹیم کہا ،سابق ٹیسٹ کرکٹر عمران فرحت نے چیف
سلیکٹر معین خان کو پاکستان کی ناقص کر کردگی کا زمیدار ٹھہرایا ،سابق ٹیسٹ
کرکٹر دانش کنیریا اور کامران اکمل نے سرفراز احمد کو ڈراپ کرنے کا جواز ما
نگا ،سبق آل راؤنڈر اظہر محمود نے مموجدہ پرفارمنس کو دیکھتے ہوے پاکستان
کی جیت کو یو اے ایی سے یقینی اور باقی ٹیموں سے غیر یقینی قرا ر دیا .سا
بق ٹیسٹ کرککٹر نے ٹیم کی کارکردگی کو محلے کی ٹیم کا کھیل قرار دیا اور
افسوسناک اور شرمناک قرار دیا .پاکستان ٹیم کے سابِق کپتان عا مرسہیل نے
پیسی بی میں مافیا راج کا الزام لگا دیا ،جب تک مافیا ہے پاکستانی عوا م
آنسو بہا تے رہیں گے اور انہوں نے ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے بر با ھر نکا
لنے کو کہ دیا ،انہوں نے بورڈ میں کمیشن کھانے کا انکشاف کیا اور بورڈ میں
فوری کلیں ا پ کی پیش گوئی کردی .انہوں نے مزید کہا کے ٹیم کی کارکردگی
،بورڈ کے حا لیہ اعمال کا نتیجہہے .پاکستانی کرکٹ کی ٹیم کی تباہی ١٨ سال
سے پہلے بورڈ میں بیٹھے مافیا نے کی ہے . کرایسٹ چرچ میں میں آف دی میچ کا
ایوارڈ حاصل کرنے والے رسل نے تبصرے سے انکار کرتے ہوے کہا کہ پاکستان نے
ٹاس جیت کر پہلے فیلڈنگ کیوں کی؟ کیوں کہ پاکستان کی لائن اپ مضبوط تھی اس
لئے ہم کسی بھی لمحے ریلکس نہی کر رہے تھے -
صرف ١رن کے گواے جانے پر پاکستانی بتنگ لائن تہس نہس ہوگی .اب ذرا بات
ہوجاے ویسٹ انڈیز کے تبصرے کی سا بق فاسٹ بولر یو این بشپ نے پاکستانی ٹیم
کی بولنگ اور فیلڈ نگ کے میدان کو مضبوط کرنے کو کہا ،انہوں نے کہا کے وسیم
اکرم اور وقار یونس کی موجودگی میں پاکستان کے پاس بہترین اٹیک تھا اور وہ
دونوں کے پاس یار کر کی صور ت میں ایسا ہتھیار تھا جو مخالف ٹیموں کو بےبس
کر گیا تھا ویسٹ انڈیز کے سا بق بولر نے موجودہ کرکٹ ٹیم کو ، محمّد عرفان
کو سہیل خان کو وسیم اور وقار کی تکنیک اپنانے کو کہا .ورلڈ کپ میں پاکستان
کی بدترین شکست پر شا یقین کریکٹ نے قومی ٹیم اور ٹیم انتظامیہ میں آپریشن
کلینپ کا مطالبہ کیا .شکست کے بعد شایقین مشتعل تھے اور کرکٹ کو برا بھلا
کہہ رہے تھے . یہی نہی بلکے بعض علاقوں میں شایقین کرکٹ نے اپنے اپنے ٹی وی
سیٹس کو زمین پر دے ما را ہاں البتہ بڑی بڑی سکرینیں نہ اٹھیں گئیں نہ
توڑیں گئیں .. علاقوں میں کرکٹ کے دیوانے رو بھی پڑے ..کرکٹ کی دنیا جذباتی
دل رکھنے والوں کی ہے اور یہ دل زیادہ ا تر جنوبی ایشیا والوں کے ہوسکتے
ہیں ..لوگ جنونی حد تک کرکٹ کو پسند کرتے ہیں .پاکستان نے ١٩٩٢ کا عا لمی
کپ ،پاکستان تحریک انصاف کے اس وقت کے پاکستانی کپتان عمران خان کی قیادت
میں جیتا تھا ،،،،،،،،،،،،
مارچ کا مہینہ پاکستان کے قیام اور وجود کے لئے بہت اہمیت کا حا مل ہے بلکل
اسی طرح سے یہ مہینہ کرکٹ کے لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے ،١ مارچ کو
پاکستان کا مقابلہ انگلینڈ سے ہوا پاکستان نے ٧٤ رنز کاہدف دیا لیکن قدرت
نے بارش کر کے ایک ایک پوا ئنٹ ٹیم کو دلوایا اس طرح بارش نے میچ مکمل ہونے
نہ دیا ....عمران خان کی عدم شمولیت کی وجہ سے پاکستانی ٹیم کے لئے کوالیفا
یی کیا .٤مارچ کو میچ نمبر ٤ ہوا پاکستان کا مقابلہ حریف بھارت سے ہوا
بھارت نے ٢١٧ رنز کا ہدف دیا پاکستانی بلے باز بھا رتی بلے بازوں کا مقابلہ
نہ کرسکے اور ١٧٣ کے مجموعے پر ڈھیر ہوگئے ...
٥ واں میچ ٨ مارچ کو جنوبی افریقہ سے ہوا جنوبی افریقہ نے ٢١١ رنز کا ہدف
دیا لیکن اپکیستانی ٹیم مقابلہ نہ کرسکی ،چھٹا میچ ١١ مارچ کو پاکستان اور
آ سٹریلیا سے ہوا پاکستان نے بڑی فتح کے ساتھ آ سٹریلیا کی ٹیم کو ٢٢١ کا
ہدف دیکر ١٧٢ پر ڈھیر کردیا اس میچ میں عمران خان، وسیم اکرم،عا قب جاوید
،مشتاق احمد ،کامیاب بولرز تھے ،جب کے عا مر سہیل نے ٧٦،جاوید میانداد نے
٤٦ رنز کی باری کھیلی ......
اب ہوا ٧واں میچ تاریخ ١٥ مارچ پھر ٹا کرا ہوا سری لنکا سے ،فتححاصل کی
پاکستان نے،،سوال تھا ٢١٢ رنز کا جواب دیا جا وید میاں داد نے ٥٧ اور سلیم
ملک نے ٥١ کے رنز کے ساتھ..
Mar 20 at 6:46 PM
واں میچ١٨ مارچ کو ،پاکستانی شاہینوں نے کیویز پر حملہ کیا ١٦٦ رنز پر وسیم
اکرم نے پویلین کے بل میں دوبارہ دھکیل دیا رمیز نے ١١٩٩ رنز اور جاوید نے
٣٠ رنز کے ساتھ جارحانہ مقابلہ کیا ،،،،،٩واں میچ ٢١ مارچ کو پہلا سیمی
فائنل پاکستان کے سامنے زخمی کیویز پھر تھے،،زخمی شیروں نے ٢٦٢ رنز کا ہدف
دیکر شاہینوں پر حملہ کیا .قومی ٹیم نے متحد ہوکر بھرپور یلغار سے ١ اوور
پہلے رمیز راجہ اور کپتان عمران خان کے ٤٤ ،جاوید میاں داد کے ٥٧،انضمام کے
٦٠ کے ساتھ مل کر جاندار ساتہ سے جیت لیا ،اور پہلی بار سیمی فائنل تک
رسائی حاصل کی ،،،
١٠واں میچ ٢٥ مارچ معرکے کی صورت لےگیا ،پاکستان نے ٢٤٩ کا ٹارگیٹ دیا گو
کہ رمیز راجہ اور عامر نے اچھی شروعات نہی کی زمیداری لی جود اور عمران نے
دونوں نے ٥٨ اور ٧٢ رنز بناے ،،انگلینڈ کی بلے بازی تک پاکستان بولرز وا
رمپ ہوچکے تھے انضمام نے وسیم کے ساتھ مل کر سکور کوآ گے بڑھایا گاہے بگاہے
انگلینڈ کی وکتیں لیں،مگر نیل اور لیمب نے مزحمت ہوئی آخری وکٹ عمران خان
نے اینگرتھ نے میڈ آ ،رمیز نے دبوچا ،،اور ساتھ ہی سجدہ شکر ادا کیا
،،،پاکستان ورلڈ چیمپئن بن گیا ،،
ورلڈ کپ کا ١١ واں مرحلہ کر ا یسٹ چرچ کا میدان تھا ٢٠١٥ تھا پاکستانی ٹیم
زمبابوے کے خلاف پہلی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی مضمون کی ابتدا
میں میچ چل رہا تھا لیکن پھر اسکی جیت نے میں بہت توانائی دی آج بھی کرکٹ
ٹیم ویسی کموبیش ٹیم تھی جیسی ١٩٩٢ میں تھی ،عمران خان کی جگا میانوالی سے
مصباح تھے،جود کی جگہ یونس خان،مشتاق اور اقبال سکندر کی جگہ شاہد آفریدی
اور اور یاسر شاہ تھے .جب کے انضمام کی جگہ ملتان سے ہی تعلق رکھنے والے
سہیب مقصود تھے،،معن خان ور سرفراز سویپ شاٹ کے ماہر ،ساؤتھ افریقہ کو
ہرانے کے بعد پاکستان کے سیمی فائنل میں جانے کی امید بڑھ گئی تھی،،مارچ
میں بارہا ڈ و اینڈ ڈ ا ی کی صو رت حال ای لیکن کامیابی نہی ملی ،ٹیم کی
سلیکشن میں کھلاڑیوں کے چناؤ میں نا انصافی ،ٹیم کو کوارٹر فائنل تک تو لگی
لیکن ہار سیمی فائنل سے دور کر گئی اور یوں ٹیم واپس آرہی ہے ،
اس مضمون کامقصد کرکٹ کے دیوانوں کو غم میں ڈوبنے کی بجاے ٹیم ک کوارٹر
فائنل میں جانے کی خصی کو ٢٣ مارچ ک ساتھ ماننا چاہیے ،اس عزم کے ساتھ کے
شاید اگلا ورلڈ کپ ہمارا ہوگا. |
|