کشمیر المیوں کی سر زمین ہے جہاں
کا ہر باسی ایک المناک کہانی کے ساتھ ’’لمحاتِ حیات‘‘گذار رہا ہے ۔دنیا
چلتے پھرتے ان لاکھوں انسانوں کے غم و الم سے ناواقف اور بے حس نظر آتی ہے
۔انھیں اس بات کا کوئی احساس تک نہیں ہے کہ یہ ایک نسل اور قوم کی موت و
حیات کا مسئلہ ہے جو قوم صرف آہوں ،آنسوں،گرفتاریوں ،جیلوں ،کریک ڈاؤنوں ،چھاپوں
،گمشدگیوں اور ماردھاڑ سے واقف ہے ۔انھیں ایک طرف آزاد قوموں کے ساتھ علوم
و فنون میں شرکت کا شوق ہے وہی دوسری طرف ان ارمانوں کا خون ہوتی غمناک
صورتحال کا بھی؟کشمیری مسلمان کا تعلق ایک ایسی قوم سے ہے جس کا ماضی
دردناک اور مستقبل مخدوش ہے ۔اس کے حسن اور وسائل کو دیکھ کر طاقتور قوموں
کی رال ٹپکنے لگتی ہے ۔یہ جس کو دوست سمجھتا ہے وہی اس کا دشمن ثابت ہوتا
ہے ۔یہ جس سے صلح چاہتا وہی اس کو مٹانے کے درپے ہوجاتا ہے ۔اس کو غیروں سے
زیادہ اپنوں نے ہی برباد کر ڈالا ہے ۔ 1990ء میں عسکریت کی ابتدا ہو تے ہی
اس کے آلام و آزمائشوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ۔پر امن زندگی اس کے لئے
ایک ناممکن خواب بن گیا ۔گھر سے بے گھر اور وطن سے بے وطنی اس کا مقدر
ٹھہرا ۔انٹراگیشن سینٹر اور جیل اس کی زندگی کا حصہ بن گئے اور جب یہ جرم
بے گناہی میں چھوٹ جاتا ہے تو پورا ہندوستان اس کی عدالتی رہائی پر بھی
آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے ۔
ان المناک اور رُلا دینے والی کہانیوں میں ہی ایک کہانی رقیہ کی ہے جو آ ج
بھی یعنی جب میں یہ مضمون تحریر کر رہا ہوں تہاڑ جیل کی آہنی دیواروں کے
سامنے لائین میں کھڑی اپنی قسمت پر رو رہی ہے ۔ویسے بھی تہاڑ جیل ہی وہ
منحوس جیل ہے جس کی چار دیواریوں کے اندر ہمارے دو جانباز گہری نیند سو رہے
ہیں۔ہزاروں کو اپنی زندگی کے قیمتی ایام یہاں گذارنے پر مجبور کردیا گیا
اور نہ معلوم کتنے گمشدہ نامعلوم مقامات پر تمام تر ارمانوں سمیت دفن ہو
چکے ۔رقیہ کی کہانی بھی عسکری تحریک کی پیداوار ہے ۔1990ء میں رقیہ کا باپ
سرحد عبور کرتے ہو ئے آزاد کشمیر پہنچ گیا ۔عسکری تربیت کے بعد کشمیر واپسی
کے دوران سرحد عبور کرتے ہو ئے کسی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی قافلہ تتر بتر ہو
گیا ،کسی کو کسی کا حال معلوم نہیں رہا ،کوئی سلامت گھر پہنچااور کوئی گم
ہوگیا ،انہی گمشدوں میں ایک رُقیہ کا باپ بھی تھا جو 1991ء میں گم ہوگیا
مگر ابھی تک گھر نہیں لوٹا یعنی رقیہ کو پورے پچیس برس سے اپنے باپ کی
واپسی کا انتظار ہے ۔
دونوں کشمیروں کے بیچ کی سرحد ہزاروں نوجوانوں کو نگل چکی ہے اور اہلیانِ
کشمیر نے انھیں نامعلوم کھاتے میں ڈالدیا ہے ۔مگر اسی نامعلوم کھاتے کا
کوئی ورق کبھی کبھار ایسے پلٹے جاتا ہے کہ تاریک راہوں کے گمشدہ مسافروں کی
حیات دنیاوی پر یقین ہو نے لگتا ہے ایسی ہی درد ناک کہانی رقیہ کے باپ کی
ہے ۔رقیہ تب ایک برس کی تھی جب ان کا باپ پاکستان چلا گیا ۔انھوں نے جب
واپسی کا ارادہ کیا تو وہ دو برس کی تھی ۔وہ سرحد پر گم ہو کر کہاں گئے
؟کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں ہے البتہ رقیہ کو یقین ہے کہ میرا باپ زندہ ہے
اور کسی جیل میں ہے ۔رقیہ کو میں نے کئی اور گمشدہ افراد کی کہانی سنا کر
یہ یقین دلانے کی کوشش کی یہ صرف افواہیں ہوتی ہیں ،مگر وہ بضد ہے کہ نہیں
میرے ابو زندہ ہیں ! وہ یہ دعویٰ ایک مضبوط دلیل کی بنیاد پر کرتی ہے کہ
جتنے بھی شوپیان ضلع سے تعلق رکھنے والے گمشدہ افراد ہیں ان میں صرف میرے
ہی ابو کے متعلق افواہ باربار پھیل جاتی ہے آخر کیوں؟
رقیہ کا کہنا ہے کہ میرے ابو محمد منظور وگے ولد غلام رسول وگے ساکنہ حرمین
شوپیان کے اُن ’’مجاہد ساتھیوں‘‘کا بھی ان کے متعلق زندہ ہونے کا یقین ہے
جوآزاد کشمیر میں ابو کے ساتھ رہے ہیں وہ ساتھی کئی سال تک میدانِ جنگ میں
دادِ شجاعت دیتے رہے اور بعد میں جب کئی مجاہدین گرفتار ہو کر جیلوں میں
پہنچے تو انھیں اس بات سے سخت حیرت ہو ئی کہ جن لوگوں کے متعلق اس بات کا
یقین ہو چکا تھا کہ وہ سرحدوں پر شہید ہو چکے ہیں وہ زندہ سلامت جیلوں میں
بند ہیں انہی میں ایک نام عبدالرشید لون ساکنہ حرمین کا ہے جن کا دعویٰ ہے
کہ میں نے جموں کے جیلوں میں کئی ایسے نوجوانوں کو بچشمِ سر خود دیکھ لیا
ہے جنہیں’’ سرحدی شہداء‘‘میں شمار کیاجاتا تھا ۔رقیہ کا نیا اصرار یہ ہے کہ
ابو تہاڑ جیل میں ہے میں نے اس اصرار کی وجہ پوچھی تو اس کا کہنا تھا کہ
تہاڑ جیل میں قید کسی کشمیری قیدی کے رشتہ دار حال ہی میں ملاقات کر کے
واپس لوٹ رہے تھے تو شوپیان کے سومو ڈرائیور کی سومو گاڑی میں جموں سے اپنے
گھر(کشمیر) لوٹنے والے ملاقاتیوں سے ملے رشتہ دار قیدی نے ان سے بصد اصرار
کہا کہ کسی طرح محمد منظور وگے کے گھر والوں تک یہ اطلاع پہنچا دی جائے کہ
وہ تہاڑ جیل میں گذشتہ پچیس برس سے مقید ہے برائے کرم یہاں آکر ان کی رہائی
کی کوئی سبیل نکالیں ۔منظور احمد کے اس پیغام میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں کہ
میرے گھر والے میری تلاش نہیں کرتے ہیں لہذا میں سب کی نگاہوں میں گم ہوں
۔۔۔۔
رقیہ جو اب چھبیس (26) برس کی ہو چکی ہے کی نیندیں یہ خبر سنتے ہی اڑ چکی
ہے حالانکہ ’’گمشدہ منظور احمد‘‘کی دنیا میں کافی تبدیلیاں آچکی ہیں مگر
ایک رقیہ ہے کہ اپنے باپ کو بھول جانے پر تیار نہیں ہے یہ کہانی ایک رقیہ
کی ہی نہیں کشمیر کے مظلوم دس ہزار افراد کی ہے جو گزشتہ پچیس برس میں
گرفتاریوں کے بعد لاپتہ کئے جا چکے ہیں ۔رقیہ کے ساتھ کئی سانحات اور
حادثات پیش آچکے ہیں ۔ان کے نانا نے رقیہ کی جوان ماں کا نیا رشتہ تلاش
کیااور ان کی دوسری شادی1997ء میں ہو گئی ،مگر رقیہ بدستور اپنے دادا کے
پاس رہی وہی اس کی پرورش ہوئی اور وہی اس نے تعلیم حاصل کی اور وہی وہ جوان
ہوئی کہ 2007ء میں دادا کی نیت میں فتور آگیا اور انھوں نے رقیہ کو2007ء
میں اپنے گھر سے بالجبر باہر نکال دیا ۔رقیہ کا کہنا ہے کہ یہ ظلم میرے
دادا نے صرف اس لئے کیا کہ وہ ان کے ابو محمد منظور کی پراپرٹی بھی ہڑپ
کرنا چاہتے تھے اور اس نے بالکل ویسا ہی کیا ،بے یار و مدد گار سترہ برس
کی’’ نوجوان لڑکی رقیہ‘‘ کا ہاتھ پکڑکر اسے گھر سے باہر نکال دیا گیا۔بے
چاری رقیہ یہ نہیں سمجھ پائی کہ آخر اس کا جرم کیا ہے ؟بحیثیت لڑکی جنم
لینا یا گمشدہ باپ کی بیٹی ہونا؟
ٹوٹی رقیہ ماں کے پاس پہنچی ،جس کو اپنوں نے گھر سے نکال باہر کیا تھا ۔مگر
یہ اس کا گھر تو نہیں تھا !یہ اس کی والدہ کے نئے شوہر کا گھر تھا جہاں
گمانوں اور اندیشوں کا ایک سیلاب اس کو بے قرار کردیتا تھا مگروالدہ کا
دوسرا شوہر نیک اور صالح تھا اس نے دکھی لڑکی کو اپنی بیٹی سمجھ لیا ،حوصلہ
دیکر غم کم کر دیا کہ اچانک جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے ایک نیک نام
’’رکن‘‘ نے رقیہ کا رشتہ اپنے بیٹے کے لئے مانگ لیا ،دکھی رقیہ ذہنی طور پر
اپنے گھر سے نکالے جانے پر بہت منتشر تھی اور شادی کے بجائے اعلیٰ تعلیم
حاصل کر کے کسی صالح نوجوان سے شادی کرنا چاہتی تھی ،مگر جماعت اسلامی کے
رکن نے سخت اصرار کیا اور تعلیم میں رکاوٹ نہ ڈالنے کا بھی وعدہ کیا ۔رقیہ
کی شادی شریف اور دیندارگھر انے کے صالح نوجوان سے ہوئی ۔رقیہ پورے گھرانے
اور اس کے ایک ایک فرد کے اخلاق اور حسن سلوک متاثر ہے ۔مگر باپ کے غم کے
ساتھ ساتھ اس کو دادا کی بے مروتی ،بد اخلاقی اور ظلم آ ج بھی بے چین کرتا
ہے ۔
کشمیر کی تحریک کا یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بسااوقات ظلم کے لئے بھی دین کا
سہارا لیا جاتاہے یہی رقیہ کے جیسے کئی مسائل میری نوٹس میں آئے کہ بعض
’’وارثانِ شہداء‘‘یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلامی شریعت دادا کی موجودگی میں
اس پوتے کو وراثت سے محروم کردیتا ہے جس کا باپ وفات پا چکا ہو۔یہ ایک
اصولی بات بے شک ہے مگر کیا ایک دادا اپنے یتیم پوتے کو کچھ بھی نہیں دے
سکتا ہے ؟وہ چاہئے تو چھٹے حصے کے لئے وصیت کرسکتا ہے اور اپنی زندگی میں
جتنا چاہیے غریبوں اور مفلسوں میں تقسیم کرسکتا ہے تو آخردینے کے لئے
سینکڑوں دروازے جو اسلامی شریعت نے کھلے رکھے ہیں کو بند رکھ کر ایک بند
دروازے کی حکیمانہ بندش کو ہی بنیاد بنا کر نہ دینے کا بے رحمانہ رویہ کیوں
اپنایا جاتا ہے ؟حیلہ باز کے لئے بہانوں کو تلاشنا اور تراشنا کوئی مشکل
نہیں ہوتا ہے مگر اسلامی شریعت کو بد نام کر کے آخر لوگ کیا حاصل کرنا
چاہتے ہیں ۔ |