مثل مشہور ہے کہ "جو قوم اپنی
تاریخ بھول جاتی ہے اس کا جغرافیہ اسے بھلا دیتا ہے" 1838 میں لارڈ میکالے
نے اردو کی جگہ انگریزی کو ہندوستان کی سرکاری زبان بنا دیا۔ اس وقت لارڈ
میکالے نے ایک نوٹ لکھا جس کا اقتباس یہ ہے " We must , at present, do our
best to form a class of persons, Indians in blood and colour, but
English in taste, in opinions, in morals and in intellect"
" اس وقت ہمیں انتہائی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ایسے لوگ تیار کریں جو نسل
اور رنگ کے اعتبار سے ہندوستانی ہوں لیکن ذوق، خیالات، اخلاقیات اور جملہ
ذہنی میلانات کے لحاظ سے انگریز ہوں" کون نہیں جانتا کہ لارڈ میکالے کا یہ
فارمولہ کامیاب رہا جس نے کالے انگریزوں کی ایک ایسی نسل تیار کردی جو اب
تک انہی کی فرمانبرداری اور کاسہ لیسی کے سہارے بر سرِ اقتدار ہے۔ لارڈ
میکالے نے جو ذہنیت تیار کرنے کا نسخہء کیمیا انگریزوں کو دیا آج اسی کے
فیض سے پوری امّتِ میں ایک بے یقینی، خلفشار، نظامِ تعلیم کی خستہ حالی اور
دوسرے تمام جملہ مسائل ہیں۔ اس فلسفے کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اس قوم کا
ذریعہ تعلیم بدل دیا جائے جس سے لارڈ میکالے کے مذکورہ مقاصد حاصل ہو جائیں
گے۔ ایک طرف قوم کی بھاری اکثریت غیر ملکی زبان کے بوجھ سے گھبرا کر تعلیم
کو خیر باد کہہ جائے گی اور دوسری طرف باوسیلہ افراد جو ان مشکلات کو اپنے
وسائل کے زور سے دور کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں گے وہ انگریزوں کے محتاج
ہو جائیں گے۔ نوکریاں ان کو ملیں گی جو چند جملے انگریزی کے جانتے ہوں گے۔
انہیں درمیان کا واسطہ بنا کر ان پڑھ عوام پر حکومت کرنا آسان ہو جائے گی۔
صرف اس طبقے کو مراعات سے نواز کر انگریز اپنے مقصد میں کامیاب رہا اور
پہلے اس نے ہندوؤں کے باوسیلہ گروہوں کو اپنے دام میں پھنسایا تاکہ اردو
ہندی تنازعہ کھڑا کر کے انگریزی کی راہ ہموار کی جا سکے۔ چنانچہ 1861 میں
جب ہندوؤں نے اردو کے خلاف محاذ قائم کیا تو سر سید احمد خاں نے صاف اعلان
کر دیا کہ جو قوم اردو کو برداشت نہیں کر سکتی وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے
وجود کو کس طرح تسلیم کرے گی۔ سرسید نے فرمایا کہ یہ پہلا موقع تھا جب مجھے
یقین ہو گیا کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کا بطورِ ایک قوم ساتھ چلنا اور
رہنا مشکل ہے۔
پھر جنگِ آزادی، تقسیمِ ہند اور پاکستان اور ہندوستان کا وجود میں آنا یہ
سب مراحل طے ہوئے مگر لارڈ میکالے کے پیدا کیے ہوئے کالے انگریز اقتدار سے
الگ نہیں کیے جا سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لارڈ میکالے کے مذکورہ فلسفے
پر عملدرآمد ہوتا رہا اور انگریزوں کو ہمارے نظام ِ تعلیم اور دیگر
نظامہائے زندگی میں مداخلت کے مواقع ملتے رہے۔ آج کے پاکستان کے چپے چپے پر
لارڈ میکالے کے فلسفے کی عملداری کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہوا نظر آتا ہے۔
جب کوئی محبِ وطن قومی زبان کی عملداری کی بات کرتا ہے تو ہمیں آپس میں
لڑانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لیے مقامی زبانوں کا توت کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
کہیں سرائیکستان کا لسانی مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے تو کہیں سندھ اور
بلوچستان کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کی باتیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ سامراج
اپنے تیار کردہ کالے انگریزوں پر اپنی تجوریوں کے دروازے کھول دیتا ہے تاکہ
ان مسائل کو بیچ میں کھڑا کر کے قومی وحدت میں پرونے والے عوامل کو بے اثر
کیا جائے۔ حالانکہ انگریزی کی عملداری قومی اور علاقائی زبانوں اوران میں
موجود علمی، ادبی اور تہذیبی ورثے کے لیے مشترکہ خطرہ ہے۔قومی زبان اردو کی
عملداری میں یہ سب پھلتی پھولتی ہیں مگر انگریزی ان سب کے لیے مشترکہ خطرہ
پیدا کرتی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس مشترکہ خطرے کا مقابلہ مل کر کیا
جائے۔
زبان چونکہ علوم و فنون سیکھنے اور اس کے ابلاغ کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اسی لیے
اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر مبعوث فرمائے اور ہر ایک نے اس
قوم کو اس کی زبان میں تعلیم دی اور احکاماتِ الہٰی کی تبلیغ کی۔ یہ ایک
آفاقی، خدائی اور پیغمبری اصول ہے کہ تعلیم و تدریس لوگوں کی زبان میں ہی
دی جائے۔جب تعلیم و تدریس کے اس عالمگیر اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو لارڈ
میکالے کے مقاصد کی تکمیل شروع ہو جاتی ہے۔
لارڈ میکالے کے فلسفے کی رو شنی میں کالے انگریزوں کی پنیری تیار کرنے کے
لیے ایسے تعلیمی ادارے وجود میں لائے گئے جن کے ذریعےایک بااختیار نسل تیار
ہوتی رہے جو قومی اور تہذیبی آزادی کو انگریزوں کے ہاتھوں فروخت کرنے کا
کام انجام دیتی رہے۔حالیہ عشرے کے آغاز میں لارڈ میکالے کے فلسفے پر جو
سرعت رفتاری سے کام ہوا اس کی تاریخ میں مثال ملنا مشکل ہے۔ برصغیر میں تو
قبضہ کرنے کے بعد یہ کام ہوا مگر اب بغیر قبضہ کیے یہ کام ہوا اور ہو رہا
ہے۔ موجودہ دور میں بہترین حکمتِ عملی وہ تصور کی جاتی ہے جس میں جنگ کیے
بغیر کوئی مقصد حاصل کر لیا جائے۔اس مقصد کے حصول کے لیے تعلیم کے میدان سے
بہتر اور کون سا میدان ہو سکتا ہے؟ چنانچہ پاکستان میں سب سے پہلے انگریزی
پہلی جماعت سے رائج کی گئی، پھر سائنس کی اردو کتابوں سے اردو اصطلاحات کو
نکال کر انگریزی اصطلاحات کو اردو رسم الخط میں لکھا گیا جس کا نتیجہ یہ
نکلا کہ ایک بڑی تعداد تعلیم سے بدظن ہوگئی۔ اس دھچکے کی تباہی دیکھ کر
سامراج نے ہمارے کالے انگریزوں کے لیے مزید امداد کی پیشکش کی جسے قبول
کرکے اب سائنس اور ریاضی کو پہلی جماعت سے انگریزی میں نافذ کیا جا رہا
ہےجس سے یقیناً ایک ایسا بحران جنم لے رہا ہے جو جاہل اور ان پڑھ پاکستان
کی بنیادیں استوار کر رہا ہے۔ تہذیب، تعلیم اور رویوں کو غلامانہ سانچے میں
ڈھالنے کے اردو میں لکھے ہوئے بورڈوں کو مٹا کر انگریزی میں کر دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ سکول کی اسمبلی تین دن انگریزی اور تین دن اردو میں کرنے کے
احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔باون ارب روپے کی خطیر سامراجی خیرات سے انگلش
میڈیم دانش سکول بن رہے ہیں۔پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن پرائیویٹ سیکٹر سے
اردو میڈیم سکولوں کا غیر محسوس انداز سے سامراجی امداد کے ذریعے خاتمہ کر
رہی ہے۔ہماری وزارتِ تعلیم اور تعلیم پر کام کرنے والے تمام ادارے ایسٹ
انڈیا کمپنی کا نقشہ پیش کر ہے ہیں۔ پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سترہ
کروڑ آزاد لوگوں کا پاکستان ہے۔ یہ تو صرف ایک شخص کا پاکستان ہے جو اب اس
دنیا میں نہیں ہے مگر ہر کہیں ہے۔ جس کا نام ہے "لارڈ میکالے"۔اب اس ملک کے
لیے ایک اور جنگِ آزادی کی ضرورت ہے جو لارڈ میکالے کے پاکستان کو آزاد
پاکستان میں بدلنے کے لیے ہو۔ |