کاوشِ فکر: اشتیاق احمد منتظم و مہتمم
ادارہ تحقیق و تخلیق 105/10-R تحصیل جہانیاں ضلع کانیوال پنجاب پاکستان۔
پسِ منظر: گزشتہ آٹھ سالوں سے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کا جو پہلی جماعت سے
جماعت دہم تک سائنسی مضامین کا نصاب چل رہا ہے وہ اس قدر فطرت گریز اور
نصابی اصول و ضوابط کے خلاف ہے کہ اسے پڑھانا ناممکن ہے۔ طلباء و طالبات
فقط رٹہ ہی لگانے پر مجبور ہیں۔ اردو کے عام فہم الفاظ کو ختم کر کے
انگریزی الفاظ کو اردو رسم الخط میں لکھ کر طلباء و طالبات کے ابلاغ و فہم
کے آگے کوہِ گراں ڈال دیا گیا ہے۔ مثلاً لفظ"توازن" کتنا عام فہم ہے اسے
نکال کر اس کی جگہ انگریزی لفظ کو اردو رسم لخط میں"ایکوی لبریم" لکھ دیا
گیا ہے۔ " طولی موجیں" کس قدر عام فہم اور اپنے معنی خود دینے والا لفظ ہے
جسے نکال کر اس کی جگہ انگریزی لفظ"لانگیٹیوڈینل" لکھا گیا ہے۔ ان الفاظ کی
اگر پارلیمنٹ کے ممبران کو املا لکھوائی جائے تو کوئی بھی نہیں لکھ سکے گا
مگر سفاک ضمیر فروشوں نے پورے نصاب میں اس طرح کی حماقتیں کی ہیں کہ نصاب
سازی کے تمام اصول ان نصاب سازوں کی جہالت اور بے اصولی پر منہ چھپاتے نظر
آتے ہیں۔ ناچیز کی اس نظم میں یہی نوحہ پیش کیا گیا ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
اب " سبزی خور" کی جگہ لکھا ہے "ہربی وور"
اس طرح نونہالوں پہ کرتے ہیں ظلم و جور
کس طرح سمجھ پائیں گے کرتے نہیں غور
کٹ جائیں علم و فن سے یہ دشمن کا خواب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
"حرکت"سے ہیں گریزاں اب "موشن"پہ زور ہے
"جڑ" کو لکھیں یہ "روٹ" کہو کیسا جور ہے ؟
تبدیلی نصاب کا ہر طرف شور ہے
سمجھو کہ فہمِ سائنس کا خانہ خراب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
"حجم" کو "والیوم" "کمیت" کو لکھیں "ماس"
نظمِ نصاب کا کوئی کرتے نہیں ہیں پاس
قومی زباں کا لفظ انہیں آتا نہیں ہے راس
صورت میں ان کی قوم پہ آیا عذاب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
پورا کیا ہے جس نے ترقی کے خواب کو
قومی زباں میں ڈھالا ہے اس نے نصاب کو
کیوں پھر بھی سمجھ آتی نہیں ہے جناب کو
منزل جسے سمجھتے ہو وہ اک سراب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
"عنصر" کو "ایلیمنٹ" اور "پتے" کو لکھیں"لیف"
اردو کو سمجھ رکھا ہے کیوں اس قدر نحیف؟
کر ڈالا اس نصاب کو کیوں اس قدر کثیف؟
کس نے ہے دی صلاح ، کس کا یہ خواب ہے؟
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
اخراج کے نظام کو " ایکسکریٹری سسٹم"
لکھیں" دورانِ خوں" کو "سرکولیٹری سسٹم"
اور سانس کے نظام کو " ریسپائیریٹری سسٹم"
ابلاغ و فہم چھن گیا، معنی حجاب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
انگلش کو لکھ رہے ہیں یہ اردو کے روپ میں
املا لکھ سکیں نہ یہ خود ان حروف میں
بچے بیچارے جلتے ہیں مشکل کی دھوپ میں
لکھا کہاں اصول یہ کس کی کتاب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
ہے کس قدر آسان فہم لفظ " توازن"
"ایکوی لبریم" لکھ کے کریں قوم کو بد ظن
مسدود کر رہے ہیں یہ کس طرح علم و فن؟
کس بات کی الجھن ہے کیا اضطراب ہے ؟
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
تبدیلی نصاب کی رکھتے نہیں دلیل
کیوں کر رہے قوم کے بچوں کو یہ ذلیل
سائنس کا فہم روکنے کی ہے یہ اک سبیل
سازش کا چہرہ اب کہ ہوا بے نقاب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
معروف کی جگہ لکھیں الفاظ اجنبی
بچوں سے کر رہے ہیں یہ کس طرح دشمنی
نظمِ نصابیات سے نابلد ہیں سبھی
کس طرح ان کا ہو گیا یاں انتخاب ہے؟
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
کیوں ہو رہی ہیں ایسی نصابی حماقتیں ؟
کمزور ہم کو کرنے کی ہیں ساری سازشیں
رٹے کو ہو فروغ یہ ہیں ان کی حکمتیں
ٹیوشن کو ملے خوب ہوا، ان کا خواب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
اللہ نے ہے بنائی ترقی کی ہر زباں
ہم نے بنا لیا ہے پر انگلش کو حرزِ جاں
اپنے ہی ہاتھوں اپنا جلاتے ہیں آشیاں
اردو عظیم تر بنے یہ اپنا خواب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
اردو میں گر نصاب ہو یاں سب علوم کا
ہو جائے بند راستہ بادِ سموم کا
ہو نہ کَسا شکنجہ قیود و رسوم کا
قوموں کی زندگی کا یہ عنوان و باب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتا ب ہے
یہ زندگی ہے کیا کہ لفظ مانگتے پھریں
تریاق چھوڑ کر جو زہر مانگتے پھریں
کہیں دوا تو کہیں اثر مانگتے پھریں
یہ زندگی نہیں ہے خدا کا عذاب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
انسان سوچتا ہے فقط اپنی زباں میں
ابلاغ و فہم ہوتا ہے تو اپنی زباں میں
قومیں ترقی کرتی ہیں سب اپنی زباں میں
فطرت کا یہ اصول ہے جو بے حجاب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
تحقیق سے کیوں دور ہے اب امّتِ مسلم؟
منزل سے اپنی دور ہے کیوں امّتِ مسلم؟
زخموں سے چور چور ہے کیوں امّتِ مسلم؟
اب سوچنے کی دوستو بس یہ ی بات ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
استاد کی، نصاب کی، بچے کی زباں ایک
ہو جائے تو پھر ہوتے ہیں منزل کے نشاں ایک
کھلتے ہیں ذہن، سوچ کو لگتی نہیں بریک
پھر سے غلام قوم پہ آتا شباب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
سب سے برا ہے مرض یہی ذہنی غلامی
عقل و خرد ماؤف، یہ ہے اس کی نشانی
سوچوں پہ چڑھے قفل، مرے آنکھ کا پانی
تحقیق و جستجو کا بھی مر جاتا خواب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے
اللہ نے مبعوث کیے جو نبی یہاں
ان کی زباں وہی تھی جو تھی قوم کی زباں
مقصد تھا کہ ابلاغ و فہم ہو جائے آساں
ابلاغ کا اصول یہی کامیاب ہے
سائنس کا اشتیاق بڑھے اپنی نظم سے
اردو کی بزمِ ناز سجے اپنی نظم سے
باطل کے دل پہ چوٹ لگے اپنی نظم سے
دشمن کا دل بھی ہو گیا جل کر کباب ہے
اردو ہے جس کا نام وہ زیرِ عتاب ہے |