"مجھے اچھی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے، میں
کوشش کرتا ہوں کہ ہر مہینہ اپنی تنخواہ میں سے کچھ تھوڑی سی رقم خرچ کر کے
نئی اور معیاری کتب ضرور خریدوں،یا انٹرنیٹ پر دستیاب ای لائبریریز سے
استفادہ کروں لیکن ایک مسئلہ مجھے نہایت پریشان کرتا ہے، باوجود کوشش کہ
مجھے کتاب کے وہ حصے یاد نہیں ہو پاتے جنہیں میں مفید پا کر یاد رکھنے کی
کوشش کرتا ہوں تا کہ ان پر عمل کیا جا سکے اور دوسروں کو بھی ان سے آگاہ
کیا جا سکے،جب کہیں حوالہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے تو اکثر مجھے یاد ہی نہیں
رہتا اور کچھ ایسی ہی کیفیت ایم اے پرائیویٹ کے امتحانات کے دوران پیپر حل
کرتے وقت بھی ہوتی ہے"ایک ہی سانس میں فرحان یہ بات کہہ گیا اور اب وہ اپنے
دوست ثاقب کی جانب جواب طلب نظروں سے یوں دیکھ رہا تھا، گویا وہی اس کے
مسئلہ کو حل کرنے کا ذمہ دار ہو۔ ثاقب تو فرحان کو درپیش مشکل حل کر سکا ہو
یا نہیں ہم ضرور اس کی کوشش کرتے ہیں۔
کتابوں کا مطالعہ سب کی نہیں تاہم ہر ”پڑھے لکھے“ فرد کی خواہش ضرور ہوتی
ہے جس پر وہ گاہے بگاہے عمل کی کوشش بھی ضرور کرتا ہے۔لیکن اکثر اوقات ہمیں
یہ دیکھ کر مایوسی ہوتی ہے کہ جن کتابوں کو ہم پڑھنا چاہتے ہیں وہ یا ان کے
وہ حصے جو مفید لگیں یاد نہیں رہ پاتے، یہ مسئلہ صرف ایک فرحان کا نہیں
بلکہ ایک اندازے کے مطابق ہر 5میں سے3افراد اس مسئلے کا شکار رہتے
ہیں۔امتحان کا موقع ہو یا ٹیسٹ کی تیاری،ملازمت کے حصول کی خاطر انٹرویو کا
مرحلہ ہو یا معمول کا مطالعہ،بھول جانے یا عدم توجہی کی یہ مشکل کسی نا کسی
صورت ان مواقع پر یکسوئی کو متاثر ضرورکرتی ہے۔ چونکہ ہم اس معاشرے کا حصہ
ہیں جہاں دوسروں کے تجربات سے استفادہ کے بجائے وقتی حل کو ترجیح دینا نہ
چاہتے یا بغیر علم میں آئے ہماری عادت بن چکا ہوتا ہے اس لئے اس اہم مسئلے
کو بھی ہم نظر انداز کردیتے ہیں۔یا شاید زمانہ طالبعلمی سمیت ایام جوانی
میں اس کی سنگینی سے صحیح طرح آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے اسے مسئلہ نہ سمجھ کر
حل کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ہم کچھ بھی کہہ لیں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جو
پڑھ لیا جائے، اور دل کو اچھا بھی لگ جائے اسے بھلانے کو کوئی تیار نہیں
ہوتا۔
طبی اور نفسیاتی ماہرین اس حوالے سے کئی حل پیش کرتے ہیں جن پر آسانی سے
عمل کر کے، انہیں اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنا کر ہم اپنی یادداشت کو
مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ کم وقت میں بہتر نتائج بھی حاصل کر سکتے ہیں۔آج
اس تحریر میں ہم ایسی 10عادات کا جائزہ لیں گے جن پر عمل سے ہم ہر اس اچھی
لگنے والی بات کو یاد رکھ سکتے ہیں جس کا یاد رکھنا ہمارے لئے زندگی کے کسی
بھی موڑ پر فاہدہ پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہو۔
ذرا ایک ایسی محفل کا تصور کریں جہاں آپ کے کئی ہم عمر افراد موجود ہوں،
باہمی دلچسپی کا کوئی موضوع زیر بحث ہو،ایسے وقت میں جب بحث اپنے پورے عروج
پر ہو گفتگو کرنے والا روانی میں ہی سہی یہ کہہ دے کہ ”پتہ نہیں ۔۔۔لیکن
ایسا ہی ہوا تھا،یا جو بات آپ کر رہے ہیں اس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے کہ
۔۔۔۔۔۔اور شعر یاد نہ آسکے، کسی کا قول نقل کرنا چاہیں لیکن وہ پورا یاد نہ
ہو۔۔۔۔اپنی بات کی دلیل کے طور پر گروپ میں مستند سمجھی جانے والی کسی کتاب
کا حوالہ دینا چاہیں لیکن پڑھی گئی بات پوری طرح یاد نہ آرہی ہو“اس وقت
ہونے والی شرمندگی اور خجالت کا عالم وہی جانتا ہے جس پر یہ گزری ہو۔اگر آپ
ذیل میں دی گئی عادات کو اپنانے کی کوشش کریں گے تو ہمیں امید ہے کہ ایسی
صورتوں میں آئندہ آپ کو کسی موقع پر یہ یا ان سے ملتے جلتے جملے ادا نہیں
کرنا پڑیں گے۔
بھولنے سے بچاﺅ کی 10عادات
٭پڑھائی کا وقت:عموماً یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ ہم نصابی و غیر نصابی ہر دو
طرح کی کتابوں کا مطالعہ اس وقت کرتے ہیں جب ذہنی طور پر مصروفیت یا تھکاوٹ
کا شکار ہوتے ہیں۔اس سے سب سے پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کسی بھی چیز کو یاد
رکھنے کے لئے درکار توجہ نہیں مل پاتی۔ تھکاوٹ کے سبب جب جسم کو آرام کی
ضرورت ہو تو ذہن بھی اسے یہی ہدایت دیتا ہے اس لئے وہ آنکھوں سے گزرنے والی
اشیاء کو یاد نہیں رکھ پاتا۔ہم نے اکثر اس بات کا مشاہدہ کیا ہو گا کہ رات
کو کسی انجان علاقے میں چلے جائیں تو باوجودیکہ وہاں لائٹیں روشن ہوتی ہیں،
دوبارہ اسی علاقے میں جانے کے لئے مطلوبہ جگہ کا بارہا پوچھنا پڑتا ہے۔اس
کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اندھیرے میں دیکھی گئی چیزیں ہم صحیح طرح سے نہیں
دیکھ پاتے اسی لئے ان کی بنیاد پر دوبارہ وہاں نہیں پہنچ پاتے۔ لہٰذا
مطالعے کے لئے سب سے پہلے کوشش کی جائے کہ پڑھنے کے لئے منتخب کیا گیا وقت
دماغی وجسمانی تھکن کا نہ ہو۔
٭کتب بینی یا مطالعہ:کسی بھی کتاب کو پڑھتے وقت ایک اور غلطی جو ہم میں سے
اکثر افراد کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ،کتاب کا مطالعہ کرنے کے بجائے اس پر
سرسری نظر دوڑائی جاتی ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے آپ کتاب خریدنے کے لئے کسی
دکان میں موجود ہوں اور کتاب میں موجود مواد کا اندازہ کرنے کے لئے مختلف
ورق الٹ پلٹ دیکھ رہے ہوں۔یہ بات یقینی ہے کہ اس دوران پڑھی یا نظروں سے
گزاری گئی کوئی بات آپ کو یاد نہیں رہ سکتی لہٰذا یہ سوچنا کہ اس میں
یاداشت کا قصور ہے بالکل غلط بات ہو گی۔صحیح طرح سے کسی بھی جملے ،پیراگراف
یا پوری کتاب کا خلاصہ یاد رکھنے کے لئے لازم ہے کہ ہم محض کتب بینی نہ کر
رہے ہوں بلکہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ پڑھ رہے ہوں ۔
٭بوجھ یا ضرورت:کوئی بھی فرد جس کام میں مہارت رکھتا ہے اس کا ایک بڑا سبب
اس کام سے اس کی دلچسپی ہوتی ہے،دوسری جانب جن کاموں میں ہماری دلچسپی نہ
ہو بلکہ وہ بادل نخواستہ ہمیں کرنا پڑے ہوں تو ان کو کسی نا کسی طرح گزارنے
کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ برتاﺅ اس بات کی علامت ہوتا ہے کہ ہم مذکورہ معاملے
سے سنجیدہ نہیں اسے بوجھ سمجھتے ہیں لیکن کسی وقتی ضرورت یا مفاد کے تحت
اسے برت رہے ہیں اسی وجہ سے وہ ہمیں وقت گزرنے کے باعث اپیل نہیں کرتے
۔بالکل یہی معاملہ مطالعے کا بھی ہے کہ اگر آپ پڑھی گئی بات کو یاد رکھنا
چاہتے ہیں تو اسے بوجھ سمجھ کر نہیں بلکہ اس میں دلچسپی لے کر پڑھیں۔اپنی
علم کی پیاس بجھانے کے لئے ضرورت بنا کر جب آپ کتاب سے رجوع کریں گے تو وہ
آپ کو بوجھ نہیں لگے گی۔
٭کتاب کا ادب:ممکن ہے یہ اصطلاح ہم میں سے بہت سوں کے لئے نئی ہو یا کچھ
اجنبی سی لگے۔اس کا سبب یہ ہے کہ مادیت کی بنیاد پر بننے والی قدریں حضرت
انسان کو جن چیزوں سے محروم کر رہی ہیں ان میں ایک بہت بنیادی چیز ”ادب“ہے
خواہ وہ کسی انسان کا ہو یا کسی دوسرے جاندار کا۔ایک وقت تھا کہ جب مسلمان
دنیا بھر میں علم کا منبع سمجھے جاتے تھے ۔اہل مغرب اس وقت ہماری تہذیبی
اقداروروایات اپنانے میں اتنا ہی فخر محسوس کرتے تھے جتنا آج ہم ان کی
نقالی میں۔اس وقت کے واقعات ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ تعلیمی اداروں اورمعاشرے
میں اخلاقیات کو انتہائی اہمیت دی جاتی تھی ۔کسی بھی لمحے بد ادبی کے قریب
پھٹکنا گویا اپنے آپ کو نکو بنانے کے مترادف ہوا کرتا تھا۔کتاب کو پڑھنے کے
ساتھ اسے اٹھاتے،رکھتے یا مطالعے کے بعد کے وقفے میں یونہی پھینک نہیں دیا
جاتاتھا۔نتیجتا کتابیں اپنا سب کچھ پڑھنے والے کو دے دیا کرتی تھیں۔
تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کھانا پکاتے،کپڑے استری کرتے،اسکول یا کالج جاتے
ہوئے گاڑی میں سفر کے دوران،ایک کتاب کو پڑھنے کے لئے دوسری کو تکیہ بنا
کر،ایک لمحے کتاب سے کرکٹ کا بیٹ بنا لینے اور دوسرے لمحے اس کو مطالعہ کے
لئے استعمال کرنے،بلکہ اب بعض جگہوں پر تو کموڈ پر بیٹھے بیٹھے بھی مطالعہ
کر کے ہم وہ بننا چاہیں جو ہم کر ہی نہیں رہے ہوتے۔پس ثابت یہ ہوا کہ کتاب
سے کچھ بھی لینے کے لئے یا پڑھے ہوئے کو یاد رکھنے کے لئے اس کا ادب بھی
اتنا ہی ضروری ہے جتنا ہم اپنے بڑوں کا کرتے ہیں۔
٭نیند پوری کریں/ڈپریشن سے بچیں:نیند کی کمی کی وجہ سے اکثر انسومینیا نامی
بیماری یا اس کی کچھ ابتدائی علامات پیدا ہو جاتی ہیں جو کسی سطح پر ڈپریشن
پیدا کرنے کا سبب بھی بنتی ہیں ۔اس کے نتیجے میں ہم مطالعے کے لئے درکار
توجہ مہیا نہیں کر سکتے نتیجتاً پڑھی ہوئی بات یاد نہ رکھنے کی شکایت سر
اٹھا لیتی ہے ۔مطالعے کی اچھی عادت پیدا کرنے کے لئے ہمیں نیند پوری کرنے
کی متوازن عادت پیدا کرنے کی ضرورت پڑھتی ہے۔جو ناصرف ڈپریشن سے بچاﺅ کا
سبب نتی ہے بلکہ اس سے دماغ کو اپنا کام کرنے کے لئے مطلوب آرام مل جانے سے
پڑھائی کے بعد یا د رکھنے کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔چوبیس گھنٹوں میں کم از
کم چھ گھنٹے کی نیند کو اگر عادت بنا لیا جائے تویہ یاد رکھنے میں معاون
ثابت ہوتی ہے۔
٭گناہوں سے بچیں:فقہی قوانین کی تدوین کرنے والے مسلم اسکالرز میں سے ایک
بڑا نام امام شافعی کا ہے۔ان کی یادداشت حیرت انگیز ہونے کے متعلق تاریخ
میں کئی واقعات ملتے ہیں۔امام شافعی کے متعلق ایک واقعہ میں بتایا جاتا ہے
کہ انہوں نے اپنے استاد سے پوچھا کہ” شیخ نسیان(بھولنے)سے بچاﺅ کے لئے کیا
کروں ؟“تو ان کے استاد نے خاصا طویل جواب دیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ” اگر
اپنی یادداشت کو بہتر رکھنا چاہتے ہو تو گناہوں سے بچنے کی کوشش کرو یہ
یادداشت کو کھا جاتے ہیں“۔ہم اپنی معمول کی زندگی میں بھی اس بات کا مشاہدہ
کرتے ہیں کہ کلاس میں اچھی پوزیشن لینے کا معاملہ ہو یا انٹرویو میں بہتر
کارکردگی دکھانے کا ہر جگہ وہی امیدوار ذیادہ بہتر انداز میں کامیاب ہوتے
ہیں جو معاشرے میں مروج خرابیوں سے بچ کر زندگی گزارتے ہیں یا ان میں رہ کر
بھی ان کا حصہ نہیں بنتے۔
٭معاون غذائیں:کچھ عرصہ قبل بہت سارے گھروں میں دادیاں اور نانیاں اپنی
پوٹلیوں میں ایسی چیزیں ضرور رکھا کرتی اور انہیں گھر کے بچوں کو دیا کرتی
تھیں جو یادداشت کو بہتر بنانے میں معان ثابت ہوتی ہیں۔جب کہ کئی گھروں میں
بچوں کو روزمرہ غذاﺅں میں بادام ،کشمش،کھوپرا،دودھ یا اس سے ملتی جلتی
غذائیں فراہم کی جاتی تھیں۔گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی مصروفیت،مہنگائی اور
آگاہی کی کمی نے یہ نعمت بھی ہم سے چھین لی ہے۔حالانکہ پڑھی ہوئی باتوں کو
یاد رکھنے کے لئے ایک اہم چیز ہماری غذائیں بھی ہیں ہم دن بھر جو کچھ کھاتے
ہیں وہ صرف ہمارے معدے ہی پر اثر انداز نہیں ہوتا بلکہ اس کا نتیجہ جسم کے
دیگر اجزاءکی مانند ہماری یاد داشت پر بھی پڑھتا ہے۔
غذائی ماہرین یہ مشورہ دیتے ہیں کہ یادداشت کو بہتر بنانے کے لئے ایسی
غذائیں استعمال کی جائیں جن میں دماغ کو قوت فراہم کرنے والے اجزاء موجود
ہوں۔ پھل،سبزیاں اور خشک فروٹ ایسی اشیاءہیں جو استعمال کرنے والے کو یہ
فائدہ پہنچاتی ہیں کہ وہ کسی بھی بات کو یاد رکھنے کے قابل ہو سکے۔ان میں
موجود منرلز،وٹامن، نمکیات ،چکنائی اور دیگر اجزاء ہمارے دماغ کے لئے
انتہائی ضروری ہوتے ہیں۔جاپان میں کی گئی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق یادداشت
کی بحالی میں ہلکا بھنا ہوا پیاز،ادرک اورLeekنامی پیاز کی طرح کا پودا
ذیادہ مفید ثابت ہوتے ہیں۔دن بھر میں تین کپ کافی یا چائے کا استعمال بھی
یادداشت کے لئے ذیادہ بہتر ہوتا ہے خصوصاً خواتین میں اس کے استعمال سے
اچھے نتائج دیکھے گئے ہیں۔
٭نشہ آور اشیاء سے پرہیز:ہم پڑھی ہوئی چیز کو یاد رکھنا چاہتے ہیں،یہ بہت
ہی اچھی خواہش ہے جس کو پورا کرنے کے لئے بری عادات سے بچاﺅ لازم ہوتا
ہے۔اگر وہ موجود ہوں تو ان سے چھٹکارا ہی مسئلہ کا حل ہوتا ہے۔جس طرح صاف
ستھرے گھر میں کچرے کی کوئی جگہ نہیں ہوتی بالکل اسی طرح اچھی باتوں کو یاد
رکھنے والے ذہن میں کسی بیکار کام کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔نہ ہی دماغ
کے زیر اثر موجود جسم ایسے کاموں میں ملوث ہوتا ہے جو کسی بھی سطح پر صفائی
یا اچھائی کے معیار پر پورا نہ اترتے ہوں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم تمام
نشہ آور اشیاء سگریٹ،پان ،شراب،الکوحل ، حشیش،شیشہ ، وغیرہ سے بچیں۔کیونکہ
اگر ہم ان گندی اشیاء کو جگہ دیں گے تو یہ کتابوں سے ملنے والی اچھی باتوں
کو ہمارے ذہن کا حصہ بننے اور پھر ان پر عمل کا وقت آنے نہیں دیں گی۔
٭تذکیر /تکرار:کسی بھی نصابی اور غیر نصابی کتاب میں پڑھی گئی باتوں کو یاد
رکھنے کے لئے ایک بار کا پڑھنا یا سننا کافی نہ سمجھیں ۔یہ بات طے شدہ
قانون کی حیثیت رکھتی ہے کہ جو کام جتنا ذیادہ اہم ہو اسے اتنی ہی ذیادہ
بار سرانجام دیا جاتا ہے۔بالکل اسی طرح جو کتاب جتنی اہم ہو اسے اتنا ہی
ذیادہ پڑھا جانا چاہئے۔ہر مسلمان یہ بات جانتا ہے کہ قرآن اس کی زندگی کے
لئے ایک رہنما کتاب ہے اس لئے مسلمانوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اس کا
مطالعہ اپنا معمول بنائے رکھیں۔آج کے معاشرے میں خرابیوں کی موجودگی کا
جائزہ لیا جائے اور بعد ازاں اپنی زندگیوں کو ہم بغیر کسی دانشور کی عقل کا
استعمال کئے کھنگالیںتو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہت ساری خرابیوں کا ایک سبب
ان سے بچاﺅ کے راستہ کا علم نہ ہونا ہے۔جب زندگی کے لئے راہنما کتاب کو ہم
نے اپنی زندگی سے بے دخل کرنے کی کوشش کی تو نتیجہ یہ نکلا جو ہم آج اپنے
چاروں طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اس گفتگو سے حاصل یہ ہوا کہ کسی بھی یاد رکھنے
کی قابل بات کو ایک بار پڑھ لینا کافی نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً اس کا تکرار
بھی ضروری ہوتا ہے۔
٭خود اعتمادی:انٹرنیٹ،کتاب،پوسٹر،ہورڈنگ،نوٹس بورڈ،خط ،ای میل یا کسی بھی
صورت میں موجود وہ لوازمہ جسے ہم یاد رکھنا چاہتے ہوں ،اپنی زندگی کا حصہ
بنا کر اس پرعمل اور اسے دوسروں تک پہنچا کر بھلائی میں اضافے کے خواہاں ہو
،وہ ہم سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے آپ کو اس کا اہل
تسلیم کریں۔
ہم نے یہ بات ضرور سنی یا مشاہدہ کی ہو گی کہ ایک جیسی زمین پر برسنے والے
ایک ہی جیسے بارش کے قطرے مختلف صورتوں میں ردعمل ظاہر کرنے کا سبب بن جاتے
ہیں۔زمین کا ایک حصہ بارش کے قطروں کو اپنے اوپر سے بہا دیتا ہے،دوسرا حصہ
انہیں روک کر کیچڑ بن جاتا ہے،تیسرا حصہ اپنی سختی کے ساتھ ساتھ گہرائی کی
وجہ سے اسے روک کر دوسروں کے استعمال کے لئے محفوظ کر دیتا ہے چوتھا حصہ اس
پانی کو جذب کر کے سبزا اگنے کی جگہ بن جاتا ہے۔ہر ایک اپنے ظرف کے مطابق
وہ کام کرتا ہے جس کا وہ اپنے آپ کو اہل ثابت کرتا ہے لیکن قدر زمین کے اس
ٹکڑے کی ہوتی ہے جو اس پانی کو جذب کر کے سبزا اگنے کا باعث بنتا ہے۔بالکل
اسی طرح جب تک ہم اپنے متعلق یہ طے نہ کر لیں کہ جو کام کرنا چاہتے ہیں ہم
اس کے اہل بھی ہیں، تب تک وہ کام پورا نہیں ہو سکتا۔یاد رکھنے کی باتوں کو
محفوظ کر لینے سے قبل کا ایک انتہائی اہم مرحلہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے اوپر اس
بات کا اعتماد ہو کہ ہم جو کچھ پڑھ رہے ہیں اسے یاد بھی رکھ سکتے ہیں ۔یہ
کوئی مشکل کام نہیں بس اس کے لئے جذبہ اور خوداعتمادی کی ضرورت ہوتی ہے جو
ہر بڑی مشکل کو یہ کہہ سکے کہ”میں یہ کر سکتا ہوں/ہم یہ کر سکتے ہیں“۔
ان10عادات پر عمل کر کے ہم سب فرحان کی طرح اس مشکل سے بچ سکتے ہیں جس کی
شکایت و ہ اپنے دوست ثاقب سے کر رہا تھا۔لیکن یہ کام کوئی اور نہیں کر
سکتا، ہر اچھے کام کی طرح اسے بھی پورا کرنے کے لئے ہمیں خود ہی کوشش کرنا
ہو گی۔مستقل مزاجی،تسلسل اور نیک نیتی کے ساتھ۔یقین کریں ایسا کرنے کے بعد
آپ کبھی کسی بات کو کسی جملے کو یا کتاب کے کسی حصہ کو بھولنے کی شکایت
نہیں کریں گے۔ |