انسان کی ذندگی میں مقصد چاہے
بڑا ہو یا چھوٹا اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے سخت محنت کرنا، سکون کی
قربانی دینا اور تکلیفیں اٹھانا لازم وملزوم ہے۔ بنا محنت کے کوئی بھی
انسان کبھی اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتاکیونکہ اپنے خیالات کو عملی
شکل دینا کوئی اتنا آسان فعل نہیں ہوتا۔انسان صرف پہلی کلاس کے ایک بچے کی
ہی مثال لے کہ اگر وہ ارداہ کرتا ہے کہ اسے امتحان میں فرسٹ آنا ہے ۔تو اس
کے لیے بھی اسے سخت محنت کرنا پڑتی ہے حتیٰ کہ بعض اوقات اسے اپنی تفریح کا
وقت بھی پڑھائی ہی کو دینا پڑتا ہے اور ان سارے مراحل سے گزر کر پھر جا کر
کہیں وہ اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے۔تو اب جہاں اگر
کوئی شحص یہ ارادہ کر لے کہ اسے ایک ملک بنانا ہے تواس مقصد کے لئے محنت
اور قربانی کا عالم کیا ہوگا۔
19مارچ 1940ء کو لاہورمیں ایک المناک حادثہ پیش آیا جس میں پولیس اور
خاکساروں کا تصادم ہوگیا اور اس میں مسلمانوں کی بہت سی قیمتی جانیں ضائع
ہو گئیں ۔حکومت نے اس وقت خاکسارو ں کے جلوس پر پابندی لگا رکھی تھی اور
پھر جب جلوس نکلا تو وہ ا یک ا فسوسناک حادثہ میں بدل گیا۔ 21مارچ کی صبح
کو قائداعظم لاہور تشریف لائے ۔اور پھر بالآخر 23 مارچ1940ء کو لاہور کے
وسیع میدان منٹو پارک میں ایک لاکھ انسانوں کے سامنے قائداعظم کی صدارت میں
آل انڈیا مسلم لیگ نے تقسیم ہند کی ایک مشہور قرارداد منظور کی جسے قرارداد
پاکستان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ قائد اعظم نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے
فرمایا کہ ـــ’’ لفظ قوم کی ہر تعریف کی رو سے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں
اور اس لحاظ سے ان کا اپنا علیحدہ وطن ،اپنا علاقہ اور اپنی مملکت ہونی
چاہیے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ایک آزاد اور خود مختار قوم کی حیثیت سے اپنے
ہمسایوں کے ساتھ امن اور ہم آہنگی کے ساتھ ذندگی بسر کریں اور اپنی روحانی
،ثقافتی ،معاشی ،معاشرتی اور سیاسی ذندگی کو اس طریق پرزیادہ سے زیادہ ترقی
دیں جو ہمارے نزدیک بہترین ہو اور ہمارے نصب العین سے ہم آہنگ ہو‘‘ ۔ اس
قرار داد پاکستان کے بعد قائداعظم دہلی روانہ ہونے لگے تو اسٹیشن پر انہیں
الوداع کہنے کے لئے ایک بہت بڑا مجمع تھا ۔وہاں کھڑے ایک شخص نے قائد اعظم
سے سوال کیا کہ ـ ’ کیوں حضور اب ہماری آزاد مملکت کب بنے گی؟ تو قائداعظم
نے مسکرا کر جواب دیا ـ ’ سب کچھ آپ کی کوشیش پر منحصر ہے ‘۔ یوں لاہور میں
ہونے والی ایک تاریخی یادگار جسے قرار داد لاہور یا قرارداد پاکستان کے نام
سے بھی یاد کیا جاتا ہے بالآخر اسی کی بنیاد پر سات سال بعد پاکستان معرض
وجود میں آیا۔
اب ایک مملکت تو بن گئی لیکن کیا اسی مملکت میں بسنے والی آبادی آج تک ایک
قوم بھی بن سکی ہے۔؟ کیا ہم قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق اور اپنے قائد
کے منشور کے مطابق ذندگی گزار رہے ہیں ۔اگر غور کریں نہ تو آج ہم کوئی ایک
قوم ہیں اور نہ ہی کوئی ذندہ قوم بلکہ صرف و صرف ایک ذندہ ہجوم ہیں بلکہ
یوں کہیے کہ بس انسانوں کی ایک بھیڑ ہیں وہ بھی مردہ ضمیر والے۔ آج ہر شخص
اپنے اظہار کی آزادی تو چاہتا ہے لیکن اپنے مخالف کی نہیں۔ اپنی ذات تک نفع
دینے والے تمام حقوق کی ادئیگی دوسروں کا فرض سمجھتے ہیں لیکن کسی دوسرے کا
جو حق ہم پر بنتا ہے اس سے راہ فرار اختیار کرتے ہیں۔
ہم اگر کسی کو کچھ دے نہیں سکتے تو کم از کم کسی کا کچھ چھینے بھی تو نہ
۔ہم خود تو خوشحال ترین ہونا چاہتے ہیں لیکن کسی دوسرے کی خوشحالی کو
برداشت نہیں کر سکتے۔ حسد اور خودغرضی کو اپنی ذاتوں میں سمو کر کیسے ہم
ایک زندہ قوم بن سکتے ہیں؟ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ لینا دینا تو الگ
بات اگر انسان کے بس میں ہو تو وہ دوسروں کے دماغ سے اچھی سوچ یا اچھا خیال
بھی نوچ لے یعنی کسی دوسرے کو اچھا سوچنے کی آزادی یااجازت بھی نہ دے۔ ہم
میں یہ احساس ہونا چاہیے کہ ہمارے اعمال کا دوسروں پر کیا اثر ہوتا ہے۔ اب
اس کے علاوہ کسی بھی معاشرے میں انصاف کی موجودگی انسان کو ایک تحفظ کا
احساس دلاتی ہے بلکہ جہاں جتنا ذیادہ انصاف ہوتا ہے وہاں ظلم و ذیادتی اور
جرائم کی شرح اتنی ہی کم ہوتی ہے۔میرے نزدیک جب تک کسی مظلوم شخص کو انصاف
اتنی آسانی سے نہ ملے کہ جس طرح بازار سے کھانے پینے کی اشیاء ملتی ہیں تب
تک اس ملک میں امن و امان آ ہی نہیں سکتااور یہ ریاست کی اہم ذمہ داری ہے
کہ وہ عوام کے لئے انصاف کو عام کرے۔
معاشرے میں انسانی ذندگی کی قدر ہونی چاہیے لیکن یہاں تو قتل و غارت کا
ایسا بازار سرگرم ہے کہ انسانیت بھی شرما جاتی ہے۔ اب 15مارچ کولاہور کے
علاقے یوحنا آباد میں پیش آنے والے افسوسناک سانحہ پر ہی نظر ڈالیں تو اس
واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے اتنی ہی کم ہے لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ یہ
کہ اس کے اگلے ہی لمحے اسی مقام پر ایک اور شرمناک سانحہ بھی پیش آ یا۔ جب
شائد انسانیت دم توڑ چکی تھی اور انسان ہی انسان کو ذندہ جلا ئے جارہا تھا۔
کیونکہ وہاں خودکش حملہ آوروں کے دھماکے کے بعدمظاہرین نے وہاں موجود دو بے
گناہ افراد کو مشکوک کہہ کر ان پر بہیمانہ تشدد کیا اور پھر انہیں ذندہ جلا
ڈالا۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب کبھی بھی برائی کی اجازت نہیں دیتا اب ان
جلانے والوں سے پوچھیں کہ ان دو معصوم انسانوں کوجلا کر کیا انہوں نے چرچ
میں مرنے والوں کی روحوں کو ثواب پہنچایا ہے یا کہ اپنا نفس مطمئن کیا ہے۔
اگر انہوں نے یہ سمجھ کر ایسا کیا ہے کہ خودکش حملہ آور مسلمان تھے تو یاد
رکھیں کہ دہشت گرد کبھی مسلمان ہو ہی نہیں سکتاچاہے اس کے چہرے پر داڑھی یا
ماتھے پر مہراب کا نشان ہی کیوں نہ ہو۔دیکھیں مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ وہ
تو خودد ہشت گردی کا شکار ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں کی عبادت
گاہیں بھی تو دہشت گردی کا نشانہ بنتی ہیں اور اب تک دہشتگردی کی اس جنگ
میں سب سے ذیادہ مسلمان ہی شہید ہوئے ہیں۔ ان دوبے گناہ افراد کو جلا کر ان
کی ویڈیو بنانے والے افراد اگر مذہبی تفریق سے بالاتر ہو صرف پاکستانی یا
کم از کم ایک انسان بن کر ہی سوچ لیتے تو یقینا دو قیمتی جانیں بچ جانی
تھیں۔ دہشت گردی کا شکار تو کسی بھی مذہب والا ہو سکتا ہے یہ اکثریت والے
بھی ہو سکتے ہیں اور اقلیت والے بھی آخر جب جنگیں لگتی ہیں تب اقلیتوں پر
بھی تو بم گرتے ہیں اور اقلیتیں قربانی بھی دیتی ہیں اور اس طرح اب
دہشتگردی کے خلاف اس جنگ میں انہیں بھی مقابلہ کرکے محب وطن اور سچے
پاکستانی ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ہم سب کو یکجا ہو کر اور ایک قوم بن کر اس
دہشتگردی اور دیگر مسائل سے نمٹنا ہو گالیکن یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب
ہم سب میں اتحاد ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں اگر کسی شے کی اشد ضرورت
ہے تو صرف و صرف نظام کی درستگی کی کیونکہ جب ملک میں نظام درست ہوتا ہے تو
معاشرے میں ایک نظم و نسق آتا ہے اور جب ایک منظم معاشرہ تشکیل پاتا ہے تو
ایک ا چھی قوم خود بخود وجود میں آ جاتی ہے۔ ہماری یہ مملکت دنیا میں ایک
مثالی مملکت اور ہماری قوم ایک مثالی قوم بن سکتی ہے۔زراسوچئیے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|