مولوی نامہ

ایک گاؤں کا قصہ ہے، ایک مولوی صاحب قصائی کی دکان سے گوشت لے کر گھر آ رہے تھے، راستے میں کوّے نے ان کا گوشت اچک لیا۔ مولوی صاحب فوراً چلائے، اے کوّے، اگر اپنی خیریت نیک مطلوب ہے تو فوراً گوشت واپس کر دے ورنہ مسجد میں اعلان کر دوں گا کہ کوّا حلال ہے۔ اب اس بارے میں کوئی روایت موجود نہیں ہے کہ اس کوے نے گوشت کا کیا کیا۔ چونکہ اب تک کوا حرام ہے اس لیے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس شریف النفس کوے نے گوشت واپس کر دیا ہو گا ورنہ کوّے:
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
کی عملی تفسیر بنے ہوئے ہوتے۔

مولویوں کے کارناموں کی فہرستیں زبان زدِ عام ہیں۔ ان کے لطیفے، حماقتیں، بیچارگی، غربت، کم مائیگی، جہالت ہر چیز کو عیاں کرنا ہماری محفلوں کا ایک لازمی جزو بنتا جا رہا ہے، معاشرے کے لیے غیر موزوں، کفر کے فتوے لگانے والا، غیر اہم اور دہشت گردی کے فروغ کا ذریعہ کہلانے والے یہ مولوی مسلمان معاشرے کا چارلی چپلن اور مسٹر بین ہے۔ جس کا کسی پر بس نہ چلے، اس کا مولوی پر چلتا ہے۔ مولوی پر رائے دینا سب سے آسان ہے۔ اس پر طعنہ زنی سب سے دلچسپ لگتی ہے۔ یہ ایک کھلونا ہے، جس سے ہر کوئی کھیل سکتا ہے، ایک بچہ اپنے قاری صاحب کی نقل اتارنے سے یہ سلسلہ شروع کرتا ہے، باپ اس کی ادا پر مسکراتا ہے اور ماں صدقے واری جاتی ہے اور یوں مولوی فٹبال بن جاتا ہے اور مختلف عمروں کے ڈیوڈ بیکھیم اس کو کھیلتے رہتے ہیں۔ سویڈن کے عارف کسانہ نے کچھ عرصہ قبل مسلم معاشرے کے اس رجحان سے متاثر ہو کر اس قومی کھیل کو کھیلا اور علمائے سو کی اصطلاح کو استعمال کرتے ہوئے دل کے جلے پھپھولے خوب پھوڑے۔ کسانہ صاحب کے قلم کی کسک سے راقم کے دل میں یہ خیال جاگا کہ اس مولوی فوبیا معاشرے کو مولوی کی ایک اور تصویر دکھائی جائے۔ خدانخواستہ مولوی کی شان میں قصیدہ خوانی کا ارادہ نہیں ہے کہ آپ حضرات کے قلوب پر گراں گزرے۔ بس یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ مضحکہ خیز اور معاشرے کا غیر موزوں طبقہ تمام تر تیر و نشتر سہنے کے باوجود کتنا مضبوط ہے۔

سلطنت عثمانیہ کے زوال کے ساتھ ہی مولوی نامہ کھل گیا تھا۔ پہلے پہل تو چند لوگوں کو بنیاد بنا کر سب کی تحقیر کی جاتی تھی، پھر علما کی تضحیک کی جانے لگی اور اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ جس نے ڈاڑھی رکھ لی، وہ مولوی ہے اور اس کا تمسخر اڑانا لازمی۔۔۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صدی بیت گئی، مولوی کی ہجو میں کیا کیا نہیں کہا گیا؟ مولوی آج بھی اسی شان سے مسجد میں آذان دیتا ہے، اسی آن بان سے جمعے کا خطبہ دیتا ہے، نہ اس کے معمول میں فرق آیا ہے اور نہ انداز میں۔۔۔بقول قدرت اللہ شہاب: ’’یہ مولوی ہی ہے جس نے گاؤں کی ٹوٹی مسجد میں بیٹھ کر چند ٹکڑوں کے عوض عوام کا رشتہ اسلام سے جوڑا ہوا ہے۔ اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم ہے، نہ کوئی فنڈ ہے اور نہ کوئی تحریک۔ اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا۔ اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ ملّا نے ہی اس کی راکھ کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا۔۔ دن ہو یا رات، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملّا کے دم سے آباد ہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑا رہتا ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کر بیٹھا ہے۔ کوئی شخص وفات پا جاتا ہے، تو یہ اسکا جنازہ پڑھا دیتا ہے، نوزائیدہ بچوں کے کان میں اذان دے دیتا ہے، کوئی شادی طے ہوتی ہے تو نکاح پڑھوا دیتا ہے۔ اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی اسے جمعراتی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی اور فاتحہ درودی کہتا ہے۔ یہ ملّا ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں۔ برِّصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اس احسانِ عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔

اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ لُو سے جھلسی ہوئی گرم دوپہر میں محلے کی تنگ مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟ نکاح اور جنازے کا مسئلہ ہو تو تمسخر اڑانے والوں کے لہجوں کا سارا جھاگ بیٹھ جاتا ہے، انگلیاں ٹیڑھی کر کر کے مذاق اڑانے والے منہ جھکا کر مولوی صاب مولوی صاب کر رہے ہوتے ہیں اور یہ مولوی کا ظرف ہے کہ اس نے معاشرے کے ان نابالغوں کی نادانیوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا ہے کیونکہ اس کو پتہ ہے کہ اس کا نعم البدل کوئی نہیں، وہ انمول ہے‘‘ ۔

عارف کسانہ صاحب نے اپنی تحریر میں لکھا ہے کہ مولویوں کے کفر کے فتووں کی وجہ سے مسلمانوں کا خون سب سے زیادہ بہا ہے۔ کسانہ صاحب نے کسی تاریخی واقعے کی جانب اشارہ نہیں کیا اور تیر بھی چلا دیا۔ شاید ہٹلر کے مشیرِ خاص گوئبلز نے اسی اندازِ گفتگو کو پروپیگنڈے سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم پر مولویوں نے کفر کے فتوے لگائے مگر کوئی ان کفر کے فتوے لگانے والے مولویوں کے نام بھی جانتا ہے؟ لوگ تو اشرف علی تھانوی کو جانتے ہیں، سلیمان ندوی کو جانتے ہیں، شبیر احمد عثمانی کو جانتے ہیں جنہوں نے تحریکِ پاکستان میں قائدِ اعظم کا ساتھ دیا۔ اگر کوئی شعبدے باز، مفاد پرست، چال باز، دشمن ایجنٹ مولوی کے روپ میں کوئی ایسا کام کرے جو مسلم امہ کے مفاد میں نہ ہو تو بجائے یہ کے اس کام پر تنقید کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی نشان دہی کر کے صفوں سے باہر کیا جائے، اپنے ہی علما پر تنقید نابالغی اور مضحکہ خیزی کے زمرے میں آتی ہے۔ مولویوں کا تشخص استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کرنا اسلام دشمن قوتوں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے۔ ہم لارنس آف عریبیہ جیسے کرداروں کو کیسے بھول سکتے ہیں، اگر کوئی استاد کرپشن کرے تو پورے نظامِ تعلیم کو ہی کیوں داغدار نہیں کیا جاتا؟ ایک فوجی کرپشن کر کے خود کرپٹ ہے، ایک سرکاری افسر مال ہڑپ کرنے میں خود اکیلا مجرم ہے مگر یہ کیسا معاشرہ ہے جو ایک مولوی کے جرم کی سزا پورے نظام کو دینا شروع کر دیتا ہے؟ علماء میں اختلافات ہیں، فرقے موجود ہیں مگر سیاسی اختلاف کی موجودگی کے باوجود سیاسی جماعتوں کی موجودگی قابلِ اعتراض نہیں تو مختلف مذاہب میں مختلف مکاتبِ فکر پر اعتراض کیوں؟ کیا رائے کا اختلاف بھی مولویوں کا حق نہیں ہے؟ اگر شیعہ سنی اختلاف ہے تو اس میں بہت سے تاریخی اور علمی مسائل ہیں اور ان مسائل پر اختلاف ایک فطری تقاضہ ہے۔ دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث علمی بنیادوں پر ایک دوسرے سے ا ختلاف کرتے ہیں، ان کی کوئی ذاتی دشمنی نہیں اور علمی اختلاف ہونا تو باعثِ رحمت ہے، جاہلوں کی طرح ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے تو اچھا ہے کہ خلافت و امامت، حاضر ناظر اور تقلید جیسے مسائل پر اختلاف کر لیا جائے، کم از کم یہ اختلاف فکر ی ترقی کا باعث تو بنتا ہے۔ انسان کی ذہنی نشونما اور تحقیق و جستجو کی تو نمو کرتا ہے اور ایسے میں اگر کوئی انتہا پسندی پر اتر آئے تو یہ اس کا اسی طرح ذاتی فعل ہے جیسے ستونت سنگھ نے اندرا گاندھی کو گولی مار دی تھی۔ اس کے گولی مار دینے سے پوری ہندوستانی فوج قاتل قرار نہیں دی گئی تھی۔

ہمارے یہاں ایک اصطلاحِ عام ہے، علمائے سو کی۔۔۔علمائے سو کے فریم میں فٹ کر کے مولویوں کو جو بولنا ہے بول ڈالیے، کوئی پوچھے تو کہہ دیں گے کہ علمائے حق الگ ہیں، یہ بہانے بازیاں دراصل ہمارے احساسِ کمتری کی نشانیاں ہیں، ایک فوجی ہی عسکری معاملات میں رائے دینے کا اہل ہوتا ہے، علماء کے بارے میں بھی رائے دینا اہلِ علم کا کام ہے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا درانتی اٹھائے مولویوں کی جانب دوڑا چلا آ رہا ہے۔ جناب اپنی علمی حیثیت تو جانچیں۔۔چار الفاظ لکھنے کا علم کسی کو ارسطو نہیں بنا دیتا!
حافظ محمد احمد حسنین
About the Author: حافظ محمد احمد حسنین Read More Articles by حافظ محمد احمد حسنین: 2 Articles with 1975 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.