آتھر میں زندگی زبوں حالی کا شکار

تحریر: کرن ناز (نیوز ریڈر ایف ایم 105 کراچی)

ایک معلوماتی دورے کے دوران ضلع ٹھٹھہ میں ماہی گیروں کے گاؤں آتھرکی جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ میری زندگی کا پہلا موقع تھا جب میں نے زندگی کا ایک الگ روپ دیکھا ۔ پاکستان فشر فوک فورم اور پاکستان کونسل آف میڈیا ویمن کے زیر اہتمام اس دورہ میں میرے سامنے دھوپ اور غربت سے کملائے چہرے، اپنی زبوں حالی پر مگن بچے اور زندگی کے آلام و مصائب کے باعث وقت سے پہلے بوڑھے ہونے والے لوگ تھے ۔ یہ کسمپرسی کی حالت اور انسانیت کی اتنی تذلیل میں نے کبھی اس سے قبل زندگی میں نہ دیکھی تھی۔ میرا ذہن انتہائی افسوس اور اذیت ناک احساس کے ساتھ بار بار شہری اور دیہی زندگی کا موازنہ کرتا رہا، ایک طرف شہروں کی پر آسائش زندگی تو دوسری جانب پینے کے صاف پانی کا بھی فقدان ۔

آتھرکی گاؤں شاہ بندر کا ایک جزیرہ ہے جس کی آبادی ہزار نفوس پر مشتمل ہے ۔ یہاں کی آبادی کا واحد ذریعہ معاش ماہی گیری ہے ۔ سمندر کے گرد گھرا ہونے کی وجہ سے یہاں کے مکانات مٹی کے گارے اور لکڑی سے بنے ہوتے ہیں ۔ بجلی اور گیس کی عدم فراہمی تو ایک جانب ، پینے کا صاف میٹھا پانی بھی یہاں کے مکینوں کے لئے ایک خواب سے کم نہیں۔ یہاں پانی کا ایک مصنوعی ذخیرہ دیکھا جہاں سے انسان اور حیوان بیک وقت سیراب ہوتے ہیں۔ ایک مقامی باشندے کے مطابق الیکشن کے دنوں میں اویس مظفر اور موجودہ ایم پی ے نے آر او پلانٹ کا وعدہ کیا تھا جس کی تکمیل دو سال بعد بھی نہ ہو سکی۔ شاید متعلقہ وزراء اور سیاستدان اب اگلے الیکشن میں ہی علاقے کا دورہ کر نے کی زحمت کریں ۔

علاقے میں سرکاری اسکول ہے لیکن کوئی استاد نہیں ، اسپتال موجود نہ ہونے کی وجہ سے زچگی کے دوران خواتین کو کشتی کے ذریعے گھارو لے جانا پڑتا ہے لیکن فوری میڈیکل ایڈ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ عورتیں راستے میں ہی زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں ۔ کم عمری کی شادیاں بھی یہاں کا اہم ایشو ہے جس سے صحت اور آبادی کے مسائل پیدا ہوتے ہیں لیکن جب بچوں کو تعلیم و تربیت کے مواقع میسّر نہیں ہونگے تو کم عمری کی شادیوں کا رجحان ہی بڑھے گا ۔ قصوروار ہمارے حکمرانوں کی کرپشن ،ان کی غفلت اور معاشرے کی بے حسی ہے۔

جب ہم آتھرکی پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے بڑے تپاک سے ہماارا استقبال کیا ،صحافیوں کو تو وہ جیسے اپنے دکھوں کا مسیحا سمجھ رہے تھے انہیں ایسا لگ رہا تھا کہ ہم ہی ہیں جو ان کی آواز ارباب اختیار تک پہنچا سکتے ہیں ۔ خواتین کی بھیگی آنکھیں اور مردوں کے چہروں پر آس و یاس کی کیفیات میں کبھی نہیں بھول سکتی ۔ بنیادی ضروریات سے محرومی ایک طرف ، ان لوگوں کے پیارے بھی کئی سالوں سے ان سے دور ہیں۔ پیاروں سے دوری کسی سوہان روح سے کم نہیں ۔ اس بستی کے پینتالیس ماہی گیر تین سال سے بھارتی جیلوں میں قید ہیں جن میں کم عمر بچے بھی شامل ہیں۔ جن گھروں کے واحد کفیل بھارتی جیلوں میں نا کردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہوں ان لوگو ں کی معاشی حالت اور جذباتی کیفیت کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔

پاکستان کے سیکڑوں ماہی گیر اس وقت بھارتی جیلوں میں قید ہیں جو سمندر میں سرحدی نشان نہ ہونے کے باعث آگے نکل جاتے ہیں اور سرحد کے دس کلو میٹر کے اندر ہی بھارتی نیوی کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتے ہیں ۔ کم و بیش کچھ ایسی ہی صورتحال سے بھارتی ماہی گیر بھی دو چار ہیں ۔ سر کریک بھارتی گجرات کو سندھ سے الگ کرنے والا متنازعہ سمندری علاقہ ہے ۔سر کریک سے قبل ایک اور کریک ہے جو آچر کریک کہلاتی ہے، جہاں تازہ مچھلیاں مقدار میں پائی جاتی ہیں ۔ ہمارے ماہی گیر کوئی نشان حد مقرر نہ ہونے کے باعث آ چر کریک سے متنازع علاقے میں نکل جاتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ ان سمندری علاقوں سے دستبردار ہو جائیں گے تو کھائیں گے کہاں سے ؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ممالک کے حکام سر کریک کے تنازعہ کو باضابطہ مذاکرات کے ذریعے جلد از جلد حل کریں کیوں کہ دونوں ممالک کے ماہی گیروں کا روزگار اسی سمندر سے وابستہ ہے ۔ آتھرکی کے مکین عبد الغنی کا کہنا ہے کہ ' میری خواہش ہے کہ دونوں ممالک کے ماہی گیروں سے مجرموں کی طرح سلوک کرنے کے بجے قوانین میں نرمی برتی جائے اور ضروری تحقیقات کے بعد جلد رہا کر دیا جائے ـ'۔ ایک اہم مسلہ جس کی جانب میں توجہ دلانا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ بھارتی نیوی ماہی گیروں کو رہا کرنے کے بعد قبضے میں لی گئی لانچز کو واپس نہیں کرتی جب کہ یہ لانچز ان غریب ماہی گیروں کی ذاتی ملکیت ہوتی ہیں ۔ اس کے بر عکس بھارتی ماہی گیروں کو ان کی گورنمنٹ خود کشتیاں فراہم کرتی ہے ۔ اس ضمن میں بھی پاکستانی حکومت کو اقدامات اٹھانے اور بھارت سے معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے ۔

میں آپکو شاہ بندر کا تھوڑا سا پس منظر بتانا چاہوں گی کہ حال میں نظرانداز ہونے والا یہ پسماندہ علاقہ ماضی کا خوش حال ترین خطہ اور ایک اہم تجارتی مرکز تھا ۔ سومرو اور کلہوڑو بادشاہت کے ادوار میں شاہ بندر کو سندھ کے ایک اہم تجارتی بندرگاہ کی حیثیت حاصل تھی ۔ کلہوڑوں کے دور حکومت میں 1758 ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے شاہ بندر میں ہی اپنی تجارتی کمپنی قائم کی تھی۔ یہاں کلماتی قبائل رہائش پذیر ہیں ، ہندو اقلیت میں ہیں اور یہاں کی چھیانوے فیصد آبادی سندھی بولتی ہے ۔ شاہ بندر وہ مقام ہے جہاں دریائے سندھ ڈیلٹا بناتا ہے لیکن ڈیموں کی تعمیر اور بڑے پیمانے پر نہری نظام کے باعث بہت کم پانی اب ڈیلٹا میں شامل ہو رہا ہے ، سمندر تیزی سے خشکی کو کھا رہا ہے جو نہ صرف ماحولیات اورفصلوں کے لیے خطرہ ہے بلکہ مقامی آبادی بھی اس سے بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ اس خطے کی اراضی میں دلچسپی لینے کے بجائے یہاں کے باشندوں کی فلاح و بہبود اور بنیادی ضروریات کی فراہمی پر توجہ دیں تا کہ یہ لوگ عزت اور سکون سے اپنے پیشے کو جاری رکھ سکیں اور ان کے بچوں کو تعلیم و صحت کی سہولیات میسّر آسکیں ۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142667 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.