لوگ کہتے ھیں جب وہ چھوٹا سا
تھا، بہت پیارہ بچہ تھا،تمیز والا بھی تھا۔ ذرا بڑا ھوا تو پڑھائی میں بھی
نمایاں تھا۔ جہاں جاتا سب کا پیارا بن جاتا۔ لیکن جوں جوں وہ بڑا ھوا، اس
کی عقل، اس کی سوچوں پر ایک خوف غالب ھوتا گیا وہ خوف تھا اس کے باپ کے
جنگلی پن کا۔ بچہ پہلا تھا اور بہت ذھین، سو اس کی حساسیت نے اس خوف کو
ایسے محسوس کیا کہ اس کی شخصیت تباہ ھوتی چلی گئی۔ جب وہ بلا وجہ اپنی ماں
کو مار پڑتے دیکھتا، خود بھی کھاتا تو وہ سہم سہم کر سہم ھی گیا،اسی طرح
بڑا ھو گیا۔ ماں کی چیخیں،ماں کے منہ سے نکلتے خون،نازک جسم پر باپ کے
تھپڑ،ٹھڈوں نے اس حساس ترین بچے کو ایک سہمی مخلوق بنا دیا۔ سولہ سال کی
عمر میں اس نے گھر سے باھر کی دنیا کو محسوس کرنا شروع کیا تو اسے پتہ چلا
کہ باپ کے وحشی پن کے علاوہ بھی دنیا میں کچھ ھے۔ حساس بچے ذھین ھوتے ھیں
لیکن کوئی راھنما چاھئے۔ ماموں خالہ نانا نانی تو تھے نہیں، باپ کی طرف سے
دادا دادی چچا پھوپھو تو پہلے بھی تھے اب بھی تھے،لیکن اتنی بڑی دنیا میں
کوئی دلجوئی،کوئی راھنمائی نہ ھو سکی۔ بچہ اپنی ماں سے بھی ذھنی طور پر
بچھڑ گیا،ذھن ھی مائوف تھا ۔کالج گیا،لیکن حساس، سہما،تنہا، پیار کے احساس
سے خالی ذھن لئے پڑھ نہ سکا، پڑھائی کیلئے اس کے پاس ایک نارمل ذھن ھی نہیں
تھا۔ زندگی کا سفر طے ھوتا گیا۔ سہم اور خوف میں پلا، ڈپریشن کا مریض باپ
کے ظلم اور جنگلی پن سے آزاد ھوا تو اس کی عقل نے کام شروع کر دیا۔ اسے
اپنے سہم، خوف،وجود کے اندر کی تنہائی،اپنی ناکامیاں اور ان کی وجوہات سمجھ
آنے لگیں۔ خود سے اپنے آپ کو سمجھا کر اپنا علاج کرنے لگا۔ سہم،
بداعتمادی،خوف کھرچ کھرچ کر اپنے دماغ سے صاف کر دیا۔ پھر اس کی نظر سے کوئ
ایسا بچہ،شخص چھپ نہ پایا جس کی شخصیت اس کے باپ کے ظلم نے تباہ کر دی تھی۔
اس نے متاثرہ بچَے، شخص کو اپنی عقل سے، اپنے پیار سے ایک نارمل انسان بنا
کرھی دم لیا۔ وہ کہتا ھے کہ جب بھی مجھے کسی نے کہا کہ آپ نے ھماری زندگی
بدل دی، ھمیں جینا سکھا دیا اسے عجیب سکون ملتا تھا۔ وہ کئ ظالم باپوں کے
بیچارے بچوں کو پڑھنے پر قائل کر کے خوش ھے۔ بے شمار بچوں کو خود اعتمادی
کی دولت سے مالا مال کر کے وہ بہت خوش ھے اور اب اس نے مجھ سے یہ عجیب
درخواست کی ھے کہ میں اس کا یہ پیغام لکھ کر نیٹ پر ڈال دوں، کہ بچوں کے
ساتھ بچپن میں سختی ان کی شخصیت کو تباہ کر دیتی ھے، بچے اپنی صلاحیتوں کو
استعمال کرنے کے قابل نہیں رھتے، ان سے پیار کیجئے، انھیں برداشت کیجئے،ان
کی تربیت،ان پر سختی پیار سے کیجئے۔ ان پر سختی کر کے ان پر ساری زندگی
کیلئے ناکامی کا ٹھپہ نہ لگا دیجئے۔ یہ بچے کل کا پاکستان ھیں۔ ان کو پیار
کر کے ایک اچھا پاکستان تخلیق کیجئے۔ سبق یہی ھے کہ آپ کے ارد گرد کوئی
ظالم باپ موجود ھے تو اس کے بچوں کی مدد کیجئے،ظالم باپ کو بچے کو پیار اور
بچے پرضرورتاً سختی کرنے کے اسلامی طور طریقے سکھا دیجئے۔ اسے بتائیے کہ کم
و بیش چودہ سو چھتیس سال پہلے اسلام نے بچوں پر ظلم کرنے کو انتہائی سنگین
گناہ اور ظالم کو سزا اور عذاب کا حقدار قرار دے دیا تھا۔ اس ظالم کو حکمت
عملی کے ساتھ اس ظلم سے روک دیجئے۔ یہ بچے پاکستان کا سرمایہ ھیں، اس
سرمائے کا تحفظ ھر پاکستانی کا فرض ھے۔ آپ بھی اپنی فرض ادا کیجئے۔ ایک
چھوٹی سی بات، ھمارے معاشرے میں میڈیا ھو یا کوئی عوامی محفل،ص مغرب کی
ترقی کا بہت چرچا رھتا ھے ۔ مغرب کے ترقی یافتی معاشرے کی ایک خوبی یہ بھی
ھے کہ وھاں ماں باپ کا بچوں کا مارنا انتہائی سنگین جرم ھے اور اگر بچے کو
کوئی مار بیٹھے تو وباں کا قانون انتہائی سختی سے فوراً حرکت میں آ جاتا ھے
اور ظالم ماں باپ کو فوری سزا بھی ملتی ھے۔ |