Provincial Administered Tribal
Areas PATA
صوبائی زیرانتظام قبائلی علاقہ جات ڈیرہ غازیخان و راجن پور کی تیز ترین
ترقی کے منصوبے کا جائزہ
صوبائی زیرانتظام قبائلی علاقہ جات ڈیرہ غازیخان و راجن پور، جسے پاٹا بھی
کہا جاتا ہے۔ میں چھ یونین کونسلیں شامل ہے۔ ضلع ڈیرہ غازیخان میں پانچ اور
ایک ضلع راجن پور میں ہے۔ نیشنل اسمبلی کے حلقہ جات کے مطابق این اے 171 ڈی
جی خان میں چار اور این اے 172 میں ایک جبکہ این اے 175 راجن پور میں بھی
ایک یونین کونسل ہے۔ ان میں ڈی جی خان کی پانچ یونین کونسلوں میں فورٹ
منرو، مبارکی ، تمن قیصرانی ، فاضلہ کچھ اور بارتھی جبکہ راجن پور کی یونین
کونسل لعل گڑھ ہے۔ دونوں اضلاع کی چھ یونین کونسلیں جو کہ انتہائی پسماندہ
ہیں کی تیز ترین ترقی کے لیے موجودہ حکومت نے الگ سے ایک ترقیاتی ادارہ
قائم کیا ہے جس کو Project Tribal Area Development کا نام دیا گیا ہے۔
پانچ لاکھ سے زائد کی آبادی کے حامل یہ علاقے جوکہ رقبہ کے لحاظ سے،900
2.مربع میل سے بھی بڑا علاقہ ہے۔ بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے
پاکستان بھر میں سب سے نیچے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کی ترقی اور
دیرینہ محرومی کے خاتمہ کے لیے حکومت نے توجہ کرتے ہوئے پہلی باراس طرح کا
ادراہ قائم کیا ۔
دونوں اضلاع کے پہاڑی علاقے جسے ٹرائبل ایریاز کہا جاتا ہے۔ کے بڑے مسائل
میں صحت عامہ کی سہولیات کی کمی، زرائع امد ورفت کا نہ ہونا ،محدود پیمانے
پر بجلی کی سہولت،تعلیم کی سہولیات کا خراب نظام غربت ،بے روزگاری کی حد سے
زیادہ شرح اورسرداری نظام جسے تمن داری کہا جاتا ہے۔ شامل ہیں۔ قبائلی
علاقہ جات برائے ڈی جی خان اور راجن پور کی چھ یونین کونسلوں میں صرف ایک
ہائی سکول ہے۔ ایک دیہی مرکز صحت، اورایک سول اسپتال ہے۔ ان علاقوں کی
سیاسی سماجی اور معاشی صورت حال کا جائزہ کے لیے راقم ایک اور آرٹیکل لکھ
رہا ہے۔ساتھ ہی راقم قارئین کے علم میں یہ بھی دے رہا ہے کہ پنجاب کے صحت
افزاءمقام مری کے بعد صحت افزاءمقام بھی انہی علاقہ جات میں ہیں فورٹ منرو
ڈی جی خان میں اور ماڑی راجن پور میں واقع ہے۔ جن ک،ی بھی ترقی کی اشد
ضرورت ہے۔ ابھی جو موضوع منتخب کیا گیا ہے۔ اسے ہی فوکس رکھیں گے۔
جیکٹ ڈائریکٹر طاہر خورشید جوکہ حکومت پنجاب نے ڈیرہ غازی خان اور راجن پور
اضلاع کے قبائلی علاقوں میں 195کلو میٹر کی 10پختہ سڑکوں اور جیپ ایبل
راستوں کی تعمیر کی منظوری سینئرترین گورنمنٹ آفیسر ہیں اور وہ متعدد اضلاع
میں بطور ڈی سی او اور آشیانہ ہاؤسنگ سکیم میں بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں
سے اس سلسلے میں راقم نے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور ان سے ملنے والی
معلومات کے مطابق اس منصوبہ پر مجموعی طور پر دو ارب روپے خرچ ہونگے۔
ٹرائبل ایریاز ڈی جی خان اور راجن پور کی ترقی اور اس علاقہ کے لوگوں کو
ضروری بنیادی سہولیات کی فراہمی کے لیے کمیونٹی ڈویلپمنٹ کے نام سے الگ ایک
شعبہ قائم کیاگیا ہے ۔جن پرمجموعی طور پر 45 منصوبوں جن میں تعلیم و صحت کے
شعبوں اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ تحفظ اراضیات کے منصوبے بھی
شامل ہیںجن میں حفاظتی بندوں اور بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے
تالابوں کی تعمیر کی بھی شامل ہے ۔ جس پر 3کروڑ60لاکھ روپے لاگت آئے گی اسی
کمیونٹی ڈویلپمنٹ شعبہ کے پروگرام کے دونوں اضلاع کے قبائلی علاقوں پر
مشتمل چھ یونین کونسلوں میں قبائلی عوام کو 20شیئرز پر 50واٹ کے 2000سولر
سسٹم تقسیم کیے جائیں گے جس پر تقریباً 9کروڑخرچ ہونگے ۔ پراجیکٹ کی اچھی
بات یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور اضلاع کے قبائلی علاقوں کی ترقی
اور علاقہ کے عوام کی خوشحالی کے لیے 3ارب 18کروڑ روپے کے فنڈز کی منظوری
اور فراہمی کو یقینی بنا دیا گیا ہے ۔ اس وقت پراجیکٹ کو فنڈز کی عدم
دستیابی کا کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ خطیر رقم آئندہ تین سال کے دوران ان
علاقوں میںمفاد عامہ کے مختلف ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ قبائلی
علاقوں کو میدانی علاقوں کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے سڑکوں اور جیپ ایبل
ٹریکس کے منصوبوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے دونوں اضلاع کی تمام
یونین کونسلز جوکہ تعداد میں چھ ہیں کو بلا تفریق فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔
ایہاں 143کلو میٹر کی 7پختہ سڑکوں میں سے 4ڈیرہ غازی خان کے قبائلی علاقہ
رونگھن تا سور توخ براستہ مٹ چانڈیہ ، باتھی تا ٹھیکر ، رحیم کوٹھی تا کھڑ
بزدار براستہ مبارکی چوتی اور گگن تھل تا گجری تھوک میں جبکہ تین سڑکیں
راجن پور کے قبائلی علاقہ چتری سخی بور بخش تا کاہان خند ، سخی پور بخش تا
ہڑند اور شاہ داد گور تا در گل میں تعمیر کی جائیں گی اسی طرح 47کلو میٹر
جیب ایبل ٹریکس ڈیرہ میں سیمنٹ فیکٹری تا زندہ پیر دلانہ تا لاکھا جبکہ
راجن پور میں ماڑی تا چمبری تعمیر کیے جائیں گے۔
نوجونوں کی تربیت اور انہیں روزگار کے مواقع کے حصول کے لیے پنجاب سکل
ڈویلپمنٹ کے ذریعے بھی ایک الگ شعبہ قائم کیا گیا ہے ۔ اس پراجیکٹ سے
فنڈزکی فراہمی کی جائے گی اور قبائلی علاقوں کے 1000نوجوانوں کو روزگار کے
قابل بنانے کے لیے مختلف ٹریڈز میں فنی تربیت دینے کا پروگرام شروع کیا گیا
جارہاہے۔ اس پروگرام پر 6کروڑ روپے خرچ ہونگے اس حوالے سے قبائلی علاقہ کے
نوجوانوں کو ٹریننگ کے لیے مختلف ا نسٹیٹوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی
کالجز میں بھیجاجائے گا ہے۔
یہاں تک تو یہ صیح اور شاندار ہے، مگر اس اہم پراجیکٹ کی کامیابی کا اصل
دارومدار مقامی کمیونٹی کی اس پروگرام میں براہ راست شراکت اور شمولیت ہے۔
ضروری ہے کہ سیاسی مداخلت کو ختم کیا جائے اور مقامی لوگوں کے خدشات پر خاص
توجہ دی جائے۔ سیاسی وسماجی بندربانٹ نہیں بلکہ علاقائی ضرورت اور میرٹ کو
مد نظر رکھتے ہوئے اس پروگرام کو چلایا جائے۔ لوکل سطح سے لے کر منتخب
نمائندگان اور اعلی حکومتی سطحی کمیٹیاں بنائی جائیں جو اس منصوبے کی
نگرانی بھی کریں۔ پورے منصوبے میں عورتوں کی شمولیت کی بھی یقینی بنایا
جائے۔ ایسا کوئی منصوبہ نہ تو منظور ہو اور نہ ہی بنے جس میں خواتین کی
ضرورت اور ان کی رائے کو شامل نہ کیا گیا ہو۔ ملنے والی معلومات کے مطابق
اس پراجیکٹ کے عملدرآمد کے پارٹنرزمیں نیشنل ہائی وے۔ اور NRSP شامل ہیں
جوکہ دونوں حکومتی ادارے ہیں۔ ضروری ہے کہ تھرڈ پارٹی کو اس میں شامل کیا
جائے ۔ منصوبوں کی نشاندہی اور ان کے قابل عمل ہونے کے حوالے بھی علاقے کے
عوام کی رائے کوبراہ راست شامل کیا جائے کمیونٹی میں جاکر اس کا جائزہ لیا
جائے اور سب سے بڑی بات یہ کہ لوگوں کو ان منصوبوں کے حوالے سے اونرشپ کا
زیادہ سے زیادہ احساس پیدا کیا جائے۔ |