مفلس کون، مشکل کی دعا
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم " الْمُفْلِسُ مِنْ أُمَّتِي
مَنْ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلاَتِهِ وَصِيَامِهِ وَزَكَاتِهِ
وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا وَقَذَفَ هَذَا وَأَكَلَ مَالَ هَذَا وَسَفَكَ
دَمَ هَذَا وَضَرَبَ هَذَا فَيَقْعُدُ فَيَقْتَصُّ هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ
وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْتَصَّ
مَا عَلَيْهِ مِنَ الْخَطَايَا أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَ عَلَيْهِ
ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ " . قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ
صَحِيحٌ
ترجمہ و مفہوم: میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن روزہ، نماز، زکوۃ
اس صورت میں لاۓ گا کسی کو برا کہا، کسی کو گالی دی، کسی کا مال کھایا ہوگا
اور کسی کو مارا ہوگا.. بدلے میں مظلموں کو اسکی نیکیاں دی جائیں گی اور
پھر بدلہ (ختم ہونے) سے بیشتر اسکی نیکیاں تمام ہو جائیں گی پھر مظلوموں کے
گناہ اس پر لے کر ڈال دیے جائیں گے اور اسے دوزخ میں ڈال دیا جاۓ گا
(حوالہ: سنن ترمذی، رقم الحدیث: 2418 وسندہ صحیح)
سنن ترمذی کی اس صحیح حدیث سے ھمیں پتا چلتا ہے کہ اسلام صرف نماز، روزے
زکوۃ کا نام نہیں ہے یہ اعمال تو اسلام کی بنیاد ہیں جو ضروری ہیں، مگر
اسلام تو نام ہے حقوق وفرائض کا، چاہے وہ صرف اللہ کے لیے عبادت، ربوبیت،
الوہیت و اسماء والصفات کے حقوق ہوں یا رب کی طرف سے فرض کیے گیے بندوں کے
حقوق وفرائض ہوں.اس لیے ہمیں حقوق وفرائض سے متعلق چھوٹے سے چھوٹے عنصر کو
معمولی نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ اس حدیث کی رو سے قیامت کے دن اس بارے
میں ضرور باز پرس ہو گی. مثلا اگر دودھ یا روٹی کی دکان پر 10 یا 12 بندے
کھڑے تھے اور ان کا حق آپ سے پہلے تھا مگر آپ نے اپنا ڈول یا دستر خوان ان
سے قبل ڈال دیا اور ان سب سے اس عمل کی اجازت نہ لی تو قیامت کے دن وہ اپنا
یہ حق طلب کریں گے. آج یہ بات معمولی لگتی ہیں مگر ایک دن حقوق و فرائض سے
متعلف ان باتوں کا بھی پوچھا جاۓ گا، اس لیے ہمیں ان کو چھوٹا نہیں سمجھنا
چاہیے.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم پر کوئ سخت کام آتا تو فرماتے:
یا حی یا قوم برحمتک استغیث
ترجمہ و مفہوم: اے زندہ قائم رکھنے والے میں تیری رحمت کے وسیلہ سے فریاد
کرتا ہوں. اور اسی اسناد سے مروی ہے کہ فرمایا:
"أَلِظُّوا بِيَا ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ " . قَالَ أَبُو
عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ . وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ
أَنَسٍ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ .
ترجمہ و مفہوم: لازم پکڑو تم ذوالجلال والاکرام یعنی بڑائ اور بزرگی والے
کو
(حوالہ: سنن الترمذی، رقم الحدیث: 3524 وسندہ حسن صحیح، السلسلہ الاحادیث
الصحیحۃ،رقم: 1536 |
|