لسانيات Linguistics ایک ایسا
مضمون ہے جس ميں انسانی زبانوں کا، زبانوں کی موجودہ صورت کا اور زبانوں
میں وقت کے ساتھ ساتھ ہونے والی تبدیلیوں کا مطالعہ کيا جاتا ہے۔ اس علم
میں مختلف زبانوں کی آپس میں مشابہت کے بارے ميں مطالعہ کے ساتھ ساتھ اس
چیز کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے کہ زبانوں کا اس دنيا کی ديگر چیزوں کے ساتھ
کيا تعلق ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق بھارت کی دو سو
زبانیں جبکہ پاکستان کی 27 زبانیں صفحہ ہستی سے معدوم ہونے کے خدشے سے
دوچار ہیں، جبکہ زبان کوئی بھی ہو اسکی افادیت اپنی جگہ ایک خاص اہمیت
رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں لاتعداد زبانیں بولی جاتی ہیں۔
لسان (زبان) (language) ایک ایسا نظام ہے جس میں مختلف آوازوں اور اشاروں
کی مدد سے ایک دوسرے سے رابطہ کیا جاتا ہے یا معلومات کا تبادلہ کیا جاتا
ہے۔ اگرچہ انسانوں کے علاوہ مختلف جاندار آپس میں ترسیلِ معلومات کرتے ہیں
مگر زبان سے عموماً وہ نظام لیا جاتا ہے جس کے ذریعے انسان ایک دوسرے سے
تبادلہ معلومات و خیالات کرتے ہیں۔ دنیا میں اس وقت بھی ہزاروں مختلف
زبانوں کا وجود ہے جو بڑی تیزی سے ناپید ہو رہی ہیں۔ مختلف زبانوں کی تخلیق
و ترقی کا تجزیہ لسانیات کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ زبانیں مصنوعی بھی ہوتی
ہیں مثلاً وہ زبانیں جو شمارندہ (Computers) میں استعمال ہوتی ہیں۔چیکو
سلواکیہ کی ایک مثل ہے کہ" ایک نئی زبان سیکھو اور ایک نئی روح حاصل کرو"
Learn a new language and get a new soul. ؛ یہ ایک حقیقت ہے کہ زبان کا
بہت گہرا تعلق انسان کے ذہنی ارتقاء سے ہے۔ اگرچہ زیادہ زبان جاننا بذات
خود انسانی ارتقاء کے لئے کافی نہیں لیکن انسانی ارتقاء کا تجربہ وہی لوگ
کرتے ہیں جو ایک سے زیادہ زبانیں جانتے ہوں۔ مصر کے مشہور ادیب ڈاکٹر احمد
امین نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں لکھا ہے کہ پہلے میں صرف اپنی مادری
زبان (عربی) جانتا تھا۔ اس کے بعد میں نے انگریزی سیکھنا شروع کیا۔ غیر
معمولی محنت کے بعد میں نے یہ استعداد پیدا کرلی کہ میں انگریزی کتب پڑھ کر
سمجھ سکوں۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب میں انگریزی سیکھ چکا تو مجھے ایسا محسوس
ہوا گویا پہلے میں صرف ایک آنکھ رکھتا تھا اور اب میں دو آنکھ والا ہوگیا۔
یہ اللہ کا فضل ہے کہ میں اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانیں سیکھنے کا
موقع پاسکا۔ میں کم وبیش 5 زبانیں جانتا ہوں ؛ اردو،عربی،فارسی،انگریزی،ہ
ندی،اگر میں صرف اپنی مادری زبان (اردو) جانتا تو یقینا معرفت کے بہت سے
دروازے مجھ پر بند رہتے۔
سن 2001ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں ایک اعشاریہ سولہ بلین افراد
آباد ہیں، جو مختلف لہجوں والی چھ ہزار پانچ سو زبانیں بولتے اور سمجھتے
ہیں۔ مغربی بھارت میں قائم ادیواسی اکیڈمی میں ابھی بھی ایسی زبانیں گونجتی
ہیں، جن کی اہمیت شائد جلد ہی بے ہنگم شور سے زیادہ نہ رہے۔ کوکنا، پانچ
محالی اور راٹھوری وہ تین زبانیں ہیں جو ابھی تک اس اکیڈمی میں پڑھائی جاتی
ہیں۔ ادیواسی اکیڈمی کا آغازانیس سو چھیانوے میں ہوا تھا۔ اس کا مقصد یہ
تھا کہ معدوم ہوتی بھارتی زبانوں کے ورثے کو آئندہ نسلوں تک منتقل کیا جا
سکے۔
اس اکیڈمی کے 29 سالہ ٹیچرجتیندر واساوا کا کہنا ہے کہ اگر نئی نسل نے یہ
زبانیں نہ سیکھیں تو یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھلا دی جائیں گی۔ یہ زبانیں
بولنے والے افراد آئندہ 30 برسوں میں بوڑھے ہو جائیں گے، جس سے یہ زبانیں
بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گی۔جتیندراپنی مادری زبان وساوی کے ساتھ ساتھ
مزید دس زبانیں بول سکتے ہیں۔ وساوی زبان تقریبا 80 ہزار افراد بولتے ہیں۔
یہ افراد گجرات اور مغربی ریاست مہاراشٹر میں آباد ہیں۔ بھارت کی وہ زبانیں
جو معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں زیادہ تر ہمالیہ، شمال مشرقی علاقوں،
چین اور بھوٹان کی سرحدوں پر واقع دوردرازعلاقوں میں بولی جاتی ہیں۔ ماہرین
کا کہنا ہے کہ یونیسکو کی جانب سے خاتمے کے خطرے سے دوچار زبانوں کے بارے
میں تیار کردہ فہرست تفصیلی نہیں ہے۔ ان کے مطابق درجنوں کئی دوسری زبانیں
بھی ہیں، جن کو اس لسٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔یونیسکو اٹلاس کے ایڈیٹر
ایدھے نارائن سنگھ کا کہنا ہے کہ بڑی زبانیں اس وجہ سے زندہ رہتی ہیں کہ
لوگوں کی شناخت ان زبانوں سے جڑی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اردو اور پنجابی
زبان کو مذہبی اور سیاسی سہارا حاصل ہے، جس وجہ سے ان زبانوں کے زندہ رہنے
کے امکانات زیادہ ہیں۔ یہ زبانیں مسلمانوں اور سکھوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔
بھارت کی 22 دفتری زبانیں ہیں، جن میں انگریزی بھی شامل ہے۔
دنیا میں بقا کے خطرے سے دوچار زبانوں میں پاکستان کی ستائیس زبانیں بھی
شامل ہیں، جن میں براہوی، بلتی، مائیا(مائين)، پھلور، کلاشہ، خووار
بہادرواہی، چلیسو، دامیلی، ڈوماکی، گاورو، جاد، کاٹی، خو وار، کنڈل شاہی
اور مری، پھلورا، سوی، سپٹی، طور والی، اوشوجو، واکھی، یدیغا اور زنگسکاری
شامل ہیں۔لسانیات نے جہاں زمانے کی دوڑ کا ساتھ دیا ہے وہاں ناپید ہونے
والی زبانوں کیطرف کوئی خاص توجہ نہیں دی حالانکہ انسانی ارتقائی عمل صرف
اور صرف مختلف زبانوں کے مرہون منت ہے۔ البتہ ایک جدت ضرور دیکھنے میں آئی
ہے کہ اس وقت جو سائنسی انداز میں سٹڈی ہو رہی ہے اس میں انسانی آواز کی
بجائے اسکے حرکات و سکنات سے جو نتائج اخذ کئیے جا رہے ہیں جو کہ پہلے
وقتوں میں "باڈی لینگویج " کہلاتا تھا اور اب "لینگویسٹکس" کے زمرے میں آتا
ہے ۔
یار لوگ تو بغیر پڑھے ہی لینگویسٹیکس کے ماہر ہوتے ہیں٬ محبوب کی گفتار و
چال سے ہر بات کا اندازہ لگا لیتے ہیں، اور تو اور آنکھوں آنکھوں سے جو جوت
جگاتے ہیں اسکی تو کوئی مثال نہیں ؛
کون کہتا ہے کہ محبت کی زباں ہوتی ہے
یہ حقیقت تو نگاہوں سے عیاں ہوتی ہے |