1947 میں نظریے کی بنیاد پر
پاکستان بنا اور اگلے سال یعنی مئی 1948 میں مغرب کے مکمل تعاون بلکہ
منصوبہ بندی کے نتیجے میں اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیااور ایک سال بعد
اسے تسلیم بھی کر لیا گیا۔ اس کا قیام بھی نظریے کی بنیاد پر عمل میں لایا
گیا قیام تو دونوں ریاستوں کا اپنے اپنے نظریے کی بنیاد پر کیا گیا لیکن
اِن کے نظریات میں اس قدر تفاوت تھا کہ نہ تو کبھی اِن کے تعلقات قائم ہو
سکے اور نہ ہی ایک دوسرے کے لیے کبھی خیر سگالی کے جذبات ہی محسوس کیے گئے۔
اس کی وجہ وہ بنیاد تھی جس پر اسرائیل کی عمارت اٹھائی گئی اور جس طرح
فلسطینیوں کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا اُس نے اسرائیل کے وجود کو شروع سے
متنازعہ بنائے رکھا۔ اسرائیل کا کردار نہ صرف فلسطین کے حوالے سے مجرمانہ
رہا ہے بلکہ پورے عالم اسلام کے خلاف اس کی سازشیں ہمیشہ جاری رہی ہیں اور
بحیثیت اہم ترین اسلامی ملک پاکستان کے خلاف اس کا رویہ شروع سے ہی صرف
معاندانہ رہا ہے بلکہ اُس نے ہر موقع پر پاکستان کے دشمنوں کے ساتھ مل کر
پاکستان کے خلاف سازش کی خاص کر اس کا ایٹمی پروگرام مسلسل اسرائیل کے
نشانے پر رہتا ہے اور بھارت اور اسرائیل ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اور
امریکہ کی مدد سے پاکستان کی جو ہری تنصیبات کے بارے میں سازشوں کا جال
بنتے رہتے ہیں ابھی حال ہی کی ایک خبر کے مطابق بھارت اور اسرائیل نے
راجھستان میں ایک مرکز قائم کیا ہے جہاں سے وہ پاکستانی جو ہری معاملات کی
مانٹرنگ کر سکیں یہ کوئی پہلا موقع یا پہلی سازش نہیں ہے جو بھارت اور
اسرائیل نے پاکستان کے خلاف مشترکہ طور پر کی ہو اور ان مشترکہ سازشوں کے
ثبوت اکثر ملتے رہتے ہیں۔ اس نے 1979 میں بھارت کی ہی اطلاع پر کہ پاکستان
ایٹمی دھماکہ کر سکتا ہے پاکستان کے ایٹمی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ بنایا
۔ اُس نے جرمنی میں ڈاکٹر اے کیو خان کے سیلائرز کو نہ صرف دھمکی دی بلکہ
اُس پر حملہ بھی کیا جس میں ایک سپلائیر ہینز کا کتا بھی مارا گیا اور اِن
کاروائیوں کے لیے اسے بھارت کی انٹیلیجنس سپورٹ حاصل رہی بلکہ یہ تمام
کاروائیاں یہ دونوں ممالک مل کر کرتے ہیں اور را، مو ساد،سی آئی اے تمام کی
تمام ایجنسیاں پاکستان کے ایٹمی تنصیبات پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں اور
کسی موقع کی تلاش میں ہیں کہ خدانخواستہ جو نہی موقع ملے وہ ان پر حملہ آور
ہو۔ یہ طاقتیں ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف جو زہر اُگلتی ہیں اس میں وقفہ
تو آتا ہے یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔ وہ کبھی طالبان کی طرف سے خطرے کااظہار
کرتے ہیں اور کبھی دہشت گردوں کی طرف سے کہ ان کے ہاتھ پاکستان کے ایٹمی
ہتھیاروں تک پہنچ سکتے ہیں اور یہ بات ایسے کہی جاتی ہے کہ جسے یہ ہتھیار
سر راہ پڑے ہوئے ہوں ان ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت کا ایک مربوط نظام موجود
ہے لیکن دراصل انہیں خطرہ ان ممالک کی طرف سے ہے جو اس کے خلاف پروپیگنڈا
کرتے رہتے ہیں اور پاکستان میں امن و امان کی خراب صورت حال کا فائدہ
اٹھاتے ہیں۔ ایسے میں کچھ آوازیں ملک کے اندر سے بھی اِن کے ساتھ شامل ہو
جاتی ہیں اور اس پروپیگنڈے کو اور مضبوط کر دیا جاتا ہے جیسے پچھلے دنوں
ایک اخبار میں پرویز ہود بھائی کا مضمون شائع ہوا جو بظاہر ایٹمی توانائی
کے مقابلے میں شمسی توانائی کی زیادہ اہمیت و افادیت پر تھالیکن ساتھ ہی
پاکستان کے ایٹمی پلانٹس تک دہشت گردوں کی پہنچ کے امکانات بھی ظاہر کیے
گئے تھے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم گھر کے اندر کے ساتھ ساتھ اِن جانے
پہچانے اور معلوم دشمنوں پر بھی نظر رکھیں اور بین الاقوامی اور سفارتی سطح
پر ان کا توڑ کریں اور ہمارے یہ جینئس اگر اپنی کچھ توانائیاں بین الا
قوامی سطح کے اِن مجرموں کو بے نقا ب کرنے میں لگا دیں تو شاید ہمارے یہ
اثاثے زیادہ محفوظ بن سکیں اور نہ تو کوئی دہشت گردوں اور نہ ہی طالبان کی
آڑ لے سکے۔ یہ ممالک نہ صرف ہمارے ایٹمی اثاثوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں بلکہ
یہ ہر سطح پر پاکستان کے خلاف اکٹھ کیے ہوئے ہیں اور دہشت گردوں اور دہشت
گردی کے پشت پناہ بنے ہوئے ہیں۔ بھارت تو اب مشرقی سرحدوں سے اٹھ کر مغربی
اور شمالی سرحدوں تک پہنچ چکا ہے اور یہاں سے بھی اندر آرہا ہے۔ ایسا کرنے
کے لیے وہ اپنے نظریاتی دوستوں کے ساتھ مل کر سازش کرتا ہے اور اپنا کام
نکالتا ہے اُسے یہ دوست، ملک کے باہر اور اندر دونوں سے مل جاتے ہیں لیکن
صرف اس بات کا واویلا کرنے اور شور مچانے سے ہم دشمنوں سے اپنا بچاؤ نہیں
کر سکتے اور جب یہ وار کر لیں تو اُس کے بعد ان کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے
بھی کچھ حاصل نہیں۔ ہمیں دنیا کو اِن سازشوں سے پہلے ہی آگاہ کرنا ہوگا اور
یہ کام سفارتی سطح پر کرنا ہوگا۔ سفارتی کوششوں سے بین الا قوامی رائے عامہ
کو اپنے حق میں ہموار کرنا ہوگا اور ساتھ ہی اپنی طاقت، قوت اور مہارت نہ
صرف برقرار رکھنی ہوگی بلکہ اسے مزید بڑھانا ہوگا کیونکہ صرف شکایت کرنے سے
معاملات حل نہیں ہوتے بلکہ بہت دفعہ ان کا جو اب اِن سے بڑھ کر دینا پڑتا
ہے تاکہ نہ صرف اب کے دشمن کی سر کوبی کی جائے بلکہ آئندہ کے لیے بھی اس کی
قوت کو ختم کیا جائے اور دوسروں پر بھی اپنے خلاف کچھ سوچنے کچھ کرنے سے
پہلے ہی اپنی طاقت کا اظہار کر دیا جائے کیونکہ قوموں کی بقاء ان کی قوت
میں ہے اورکمزور قومیں نہ تو بقا ء حاصل کرتی ہیں نہ باعزت مقام۔ |