1992میں یہ تو نہیں ہوا تھا
(Abdul Rehman, Doha Qatar)
’دیکھ لینا بھائی اس بار پاکستان
ہی ورلڈکپ جیتے گا‘‘
یقیناً آپ سب نے یہ جملہ کئی لوگوں سے سنا ہوگا، وجہ پوچھیں تو جواب سامنے
آتا ہے کہ ’’کیونکہ ایونٹ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ میں ہو رہا ہے، 1992میں
بھی ہم وہاں فاتح رہے تھے، اس کے علاوہ بھی کئی معاملات میں مماثلت موجود
ہے‘‘ اور پھر وہ مختلف باتیں بتاتے رہے ہوں گے، میرے ساتھ بھی ایسا کئی بار
ہوا مگر اس وقت میں نے حوصلہ شکنی سے گریز کیا اور سوچنے لگا کہ ہماری قوم
کتنی سادہ ہے، بغیر کسی منطق کے خواہشات کے محل کھڑے کر دیتی ہے۔
یہ ہماری نادانی ہے کہ رینکنگ میں ساتویں نمبر کی ٹیم کو ساتویں آسمان پر
چڑھا کر چیمپئن بننے کی توقع کر رہے تھے،اس اسکواڈ سے خود چیئرمین بورڈ،
کپتان اور کوچ کو زیادہ امیدیں نہیں تھیں اور وہ کئی ماہ سے اپنے بیانات کے
ذریعے ہمیں ذہنی طور پر تیار کرتے رہے، مگر ورلڈکپ کے دوران اچانک سامنے
آنے والے ’’مبصرین‘‘ نے قوم کو بس یقین دلا دیا کہ مصباح کا تعلق میانوالی
سے ہے۔
عمران خان کا بھی تھا لہذا ہم ورلڈکپ جیتیں گے،1992میں بھی کئی پلیئرز کو
انجریز ہوئیں اب بھی ایسا ہوا لہذا ہم جیتیں گے، اسی طرح کی اور کئی فضول
باتیں کی گئیں، بھائی ذرا یہ بھی بتا دیتے کہ کیسے جیتیں گے؟ کیا آپ کے
پاس عمران خان جیسا کرشمہ ساز کپتان یا جاوید میانداد جیسا فائٹر کھلاڑی ہے؟
کیا ٹیم کو وسیم اکرم جیسے عظیم فاسٹ بولر کی خدمات حاصل ہیں؟ کیا عاقب
جاوید، مشتاق احمد، انضمام الحق جیسے نوجوان اسکواڈ کا حصہ تھے۔
نہیں ناں تو پھر قوم کو سہانے خواب دکھانے کا کام سیاستدانوں پر ہی چھوڑ
دینا چاہیے تھا۔ اس ورلڈکپ میں ٹیم نے سوائے جنوبی افریقہ کو ہرانے کے اور
کون سا تیر مارا؟ بھارت اور ویسٹ انڈیز کے خلاف بدترین شکستیں ہوئیں، ایک
رن پر چار بیٹسمینوں کی رخصتی کا شرمناک ریکارڈ ملا، ’’بچوں‘‘ کو ہرا کر
بمشکل کوارٹر فائنل میں رسائی پائی،7نمبر کی ٹیم کا 8ٹیموں میں شامل ہونا
کوئی کارنامہ نہیں، یہ ٹھیک ہے کہ انجریز یا دیگر مسائل کے سبب کئی اہم
بولرز کا ساتھ حاصل نہ تھا مگر بولنگ لائن نے ہمیں مایوس نہیں کیا، خصوصاً
وہاب ریاض نے کینگروز کیخلاف جو بولنگ کی اسے برسوں یاد رکھا جائے گا۔
ہمیشہ کی طرح مسئلہ اس بار بھی بیٹنگ میں سامنے آیا، اگر سرفراز احمد
2میچز میں فتح گر اننگز نہ کھیلتے تو شائد ملک میں انڈوں اور ٹماٹروں کی
کمی پیش آجاتی، ان جیسے کھلاڑی کو ابتدائی میچز میں نہ کھلا کر کوچ وقار
یونس نے اپنی انا کی بھینٹ چڑھایا، پھر سب نے حد سے زیادہ توقعات وابستہ کر
لیں، جس کی وجہ سے جب کوارٹر فائنل میں جلد آئوٹ ہوئے تو دیگر بیٹسمین بھی
دبائو کا شکار ہو گئے، مصباح الحق نے اپنے آخری ایونٹ میں بطور بیٹسمین
اچھا کھیل پیش کیا۔
البتہ ان کی کپتانی کے حوالے سے کئی سوال اٹھے، شاہد آفریدی اور یونس خان
کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی، عمر اکمل، صہیب مقصود اور حارث سہیل
جیسے نوجوان بھی توقعات پر پورا نہ اتر سکے، آسٹریلیا کیخلاف بیٹسمینوں کو
نجانے کیا جلدی تھی کہ اونچے شاٹس کھیل کر وکٹیں گنواتے رہے، مصباح جو خاصے
ٹھنڈے دماغ سے کھیلتے ہیں ان سے بھی صبر نہ ہوا، اگر اسکوربورڈ پر250کا
مجموعہ بھی درج ہوتا تو بولرز میچ جتوا سکتے تھے۔
اس ورلڈکپ کا مثبت پوائنٹ پاکستان کیلیے سرفراز احمد اور وہاب ریاض ہی رہے،
سچی بات ہے کہ پیسر نے اس سے قبل مجھے کبھی متاثر نہیں کیا تھا، بکی مظہر
مجید سے جیکٹ لینے کی تصاویر دیکھنے کے بعد ان پر شک ہی رہتا تھا، مگر
معاملے سے کلیئرنس کے بعد آہستہ آہستہ انھوں نے جان پکڑی اور اب خاصے
کمیٹڈ دکھائی دیتے ہیں۔
شکست پر بورڈ حکام بھی برابر کے قصور وار ہیں، انھوں نے ٹیم کیلیے کچھ نہ
کیا بلکہ خود آپس میں اختیارات کیلیے لڑتے رہے، اب سارا ملبہ کھلاڑیوں پر
گراکر سب خاموشی سے معاملہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کریں گے، عوام کا کیا ہے
بیچاری ویسی ہی روز اتنی بُری خبریں سنتی رہتی ہے ایک اور سے کیا فرق پڑے
گا۔
کوچ وقار یونس اور چیئرمین بورڈ شہریار خان اگر عہدوں پر برقرار رہے تو اب
ورلڈکپ 2019کو ہدف قرار دے کر مزید چار سال شائقین کو بے وقوف بناتے رہیں
گے، رہے بیچارے عام لوگ ان کی خوشی کیلیے بس یہی کافی ہے کہ ’’ارے پی کے
فلم میں سرفراز نے دھوکا نہیں دیا تھا ہمارا سرفراز بھی نہیں دے گا‘‘ یا
’’وہاب ریاض نے کیا بولنگ کر دی مزا آ گیا‘‘ میرے دوستوں ٹیم کوارٹر فائنل
ہار کر گھر آ رہی ہے ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے۔ |
|