اسلام میں نظام معیشت کی نوعیت
(Sajjad Ali Shakir, Lahore)
حضرت جندب رضی اﷲ عنہ روایت کرتے
ہیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اگر تم میں سے کسی میں اتنی
طاقت ہو کہ اپنے شکم میں پاک چیز کے علاوہ داخل نہ کرے تو اسے چاہیے کہ
ایسا ہی کرے۔ بے شک (مرنے کے بعد) سب سے پہلے انسان کا پیٹ بدبودار ہوتا
ہے۔ اور اگر تم میں سے کسی میں اتنی طاقت ہو کہ وہ حرام سے بچے ،خواہ وہ
ذراسی مقدارمیں بہا گیاخونِ ناحق ہی کیوں نہ ہو، تو اس کو بچنا چاہیے۔ ورنہ
وہ جس دروازہ سے جنت میں داخل ہونا چاہے گا۔یہ خونِ ناحق اس کے راستے میں
حائل ہوجائے گا۔(بیہقی )اسلام میں نظام معیشت کی نوعیت جدید نظام معیشت سے
قطعی مختلف ہے اسلامی نظام معیشت سے مراد کسی منظم معاشرہ میں رہنے والے
افراد کی معاشی احتیا جات کی تسکین کا وہ طریقہ کار ہے جو قرآن و سنت کی
ہدایات کے تابع ہواسلام ایک مکمل ضابطہ حیات رکھتا ہے زندگی کے تمام ضوابط
اسلام کے عقائد سے مربوط ہیں۔ کسی ایک ضابطہ کی اپنی علیحدہ کوئی حیثیت
نہیں ایمانیات اور عقائد دین کی بنیاد ہوتے ہیں عقائد کی حیثیت علم کی ہے
اور علم عمل پر ہمیشہ مقدم ہوتا ہے عمل ِ صالح کے لیے عقائد اور ایمانیات
کا ہونا لازمی ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہوا ہے…’’بلکہ نیکی صرف اس شخص کی ہے
جو ایمان رکھتا ہو اﷲ پر، آخری دن پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر اور
نبیوں پر‘‘۔اسلام میں نظام معیشت کی نوعیت جدید نظام معیشت سے قطعی مختلف
ہے اسلامی نظام معیشت سے مراد کسی منظم معاشرہ میں رہنے والے افراد کی
معاشی احتیا جات کی تسکین کا وہ طریقہ کار ہے جو قرآن و سنت کی ہدایات کے
تابع ہو۔ ان ہدایات کے مطابق اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ صرف دولت،
پیدائش دولت اور تقسیم و تبادلہ دولت کا انداز کیا ہو۔اسلام میں معاشیات کے
تمام تر اساسی اصول آسمانی صحیفہ قرآن حکیم میں درج کر دیئے گئے ہیں ان
سوالوں میں کسی قسم کی بھی ترمیم و تنسیخ نہیں کی جاسکتی البتہ اس کی اجازت
دی گئی ہے کہ ان اساسی اصولوں کی روشنی میں حالاتِ کے تحت اصول واضح کیے
جاسکتے ہیں بشرطیکہ اساسی اصولوں میں کسی قسم کی معمولی تبدیلی بھی نہ پیدا
ہوتی ہو۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ اسلامی معیشت کے اساسی اصول ابد تک کے لیے
ناقابلِ ترمیم و تنسیخ ہیں۔چونکہ اسلامی معاشیات کی نوعیت مغربی معاشیات سے
بہت حد تک مختلف ہے، لہٰذا اسی بناء پر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ علمی و
عملی موضوع یعنی ’’اسلامی معاشیات‘‘ کی ضرورت اور اْس کے تقاضوں کو سمجھنے
کی ضرورت ہے۔ جس کی وجوہات کچھ یہ ہیں۔جدید مغربی معاشیات کا حال:جدید
مغربی معیشت کا ارتقاء مغربی معاشرے میں ہوا ہے جب کہ مسلم معاشرے روحانی،
سماجی، سیاسی اور ثقافتی لحاظ سے مغربی معاشرے سے یکسر مختلف ہے۔ اسلامی
معیشت میں رزق کے حلال ہونے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ انبیاء کی تخصیص
کردی گئی ہے جن میں ہم آسانی سے حرام اور حلال کی تمیز کرسکتے ہیں۔ اسی طرح
پیشے کے طیب اور خبیث ہونے کے شرائط واضح کردیئے گئے ہیں اسی لیے مغربی
معاشی تجزیوں کا اطلاق مسلمانوں پر کرنا مشکل ہے البتہ کچھ نظریات ایسے
ہوسکتے ہیں کہ جن کا اطلاق ہر معاشرے میں ہوسکتاہے لیکن مجموعی طور پر
مغربی معاشی تجزیہ کی بنیاد اخلاقی اقدار پر نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ
مغربی معاشرے میں موجود بہت سی اقدار بھی مسلم معاشرے کی اقدار سے مختلف
ہیں۔ اسی لیے مغربی معاشی تجزیوں کا اطلاق مسلم معاشروں پر نہیں ہوتا،
مثلاً اسلامی تعلیمات میں سود حرام ہے جب کہ مغربی معاشیات کا پورا ڈھانچہ
سود پر کھڑا ہے اسی لیے سودی نظام مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہ ہونے کی
وجہ سے انہیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں
تشکیل دیا گیا ہو۔مغربی معیشت خود غرضی میں لپٹی ہے:مغربی معیشت میں خود
غرضی کا عنصر نمایاں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مغربی
معیشت خود غرضی پر مبنی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مسلمان قربانی کا جذبہ
رکھتے ہیں محبت و اخوت اسلامی تعلیمات کا ایک اہم جزو ہے جس کی مغربی
معاشیات میں کوئی جگہ نہیں یہاں پر ایک صارف کا پورا زور زیادہ سے زیادہ
تسکین کے حصول اور آجر کے لیے منافع کے حصول پر ہے اور اس کو عقلیت پر مبنی
رویہ سمجھا جاتا ہے اس لیے مسلمانوں کو ایک علیحدہ معاشی نظام کی ضرورت
ہے۔اسلامی اصولوں کے مطابق عقلیت پسندی:اسلام کے مطابق عقلیت پسندی مغربی
عقلیت پسندی سے یکسر مختلف ہے کیونکہ اسلام کے مطابق ایک مسلمان کے سامنے
اس کے دنیا کے ہی نہیں بلکہ آخرت کے فوائد بھی ہوتے ہیں۔ مسلمان کے نزدیک
آخرت کا تصور اور اخروی افادہ اور اﷲ تعالیٰ کی رضا کا حصول اس کی زندگی کا
محور ہوتا ہے، جس کو نظر اندا نہیں کیا جاسکتا اور اس کا معاشی تجزیہ مغربی
معیشت دان سے بہت حد تک مختلف ہے الغرض یہ تجزیات اسلامی اصولوں سے خالی
ہوتے ہیں۔مغربی تجزیے میں انسان کا مطالعہ منڈی/ مارکیٹ کے تناظر میں:اسلام
چونکہ ایک مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے لہٰذا اس کے نزدیک زندگی کو ایک
اکائی تصور کیا ہے اور اس کے تمام نظام چاہے سیاسی، سماجی، ثقافتی اور
تعلیمی سب ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور اس اکائی کی کڑیاں ہیں اس لیے کسی
بھی معاشی مسئلے کا حل نکالتے وقت پوری اسلامی پالیسی کو مدّ ِ نظر رکھا
جاتا ہے ایسے بہت سے تغیرات ہیں جو مغربی معیشت میں بیرونی سمجھے جاتے ہیں
مگر اسلامی دائرہ کار میں اندرونی سمجھے جاتے ہیں جیسے اخروی ثواب اور
انعام اسلامی پالیسی میں اندرونی متغیر کی حیثیت اختیار کرلیتا ہے۔مغربی
معاشیات مین دولت کی غیر منصفانہ تقسیم:اسلام ایک متوازن مذہب ہونے کے ساتھ
ساتھ زندگی گزارنے کے لیے نہ صرف بہتر معاشی نظام دیتا ہے بلکہ بہتر
معاشرتی نظام بھی فراہم کرتا ہے۔ اسی لیے اسلامی معاشیات میں پیدائش دولت،
صرف دولت، تبادلہ دولت اور تقسیم دولت غرضیکہ تمام معاشی پہلوؤں پر بھر پور
توجہ دی جاتی ہے جبکہ مغربی معاشیات سب سے زیادہ زور پیدائش دولت پر دیتی
ہے اور تقسیم دولت کا پہلو اس کی نظر سے اوجھل رہتا ہے اسی لیے اس جدید دور
میں انسانوں کے درمیان یہ خلیج حائل ہے جو امیر ہے وہ امیر سے امیر تر
ہورہا ہے اور غریب ، غریب سے غریب تر… اس کے برعکس اسلام سب سے زیادہ زور
دولت و آمدنی کے مخلصانہ تقسیم پر دیتا ہے۔ان تمام نکات کے علاوہ اور بھی
کئی وجوہات کی بناء پر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ معاشی نظریے کی معیشت کی
ضرورت اور تقاضے اْجاگر ہوجاتے ہیں۔ |
|