شیر استنبول (ابو ایوب انصاری )
(Muhammad Azhar Shah Asdi, Islamabad )
اِستنبول کی فتح کی بشارت
کوخصوصی اہمیت اور اِمتیازی مَقام حاصل ہے۔یہ بشارت مُسندامامِ احمد اور
مستدرک حاکم میں درج ذیل الفاظ سے منقول ہے:‘‘ لَتَفتَحُنَّ القُسطُنطُنیَۃ
فَلنِعمَ الأَمِیرُ أمیرُھا و لنِعمَ الجَیشُ ذلک الجَیش’’ ترجمہ : ‘‘ تم
ضرور قُسطنطنیہ(استنبول )کو فتح کرو گے۔ وہ لشکر اور اس کا سپہ سالار کیا
ہی خوب لوگ ہوں گے۔
تاریخ میں قسطنطنیہ(جس کا سابق اسلامی نام اسلامبول اور موجودہ نام استنبول
ہے) شہر استنبول انگریزی میں Constantinople کے نام سے جانا جاتا تھا ۔یہ
تُرکی کا سب سے بڑااور یورپ کا دوسرا بڑا شہر اور بندر گاہ ہے اور اس کا
ثقافتی و اقتصادی مرکز بھی ہے ۔استنبوال شہر صوبہ استنبول کا صدر مقام بھی
ہے ۔ اِستنبول آبنائے باسفورس کے جنوبی علاقے میں دونوں جانب واقع ہے ،اس
طرح اِستنبول دو براعظموں میں واقع دنیا کا واحد شہر ہے۔ شہر کا مغربی حصہ
یورپ جبکہ مشرقی حصہ ایشیا میں ہے۔ شہری حدود ایک ہزار 539 مربع کلومیٹر تک
ہیں جبکہ صوبہ استنبول 5 ہزار 220 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔
استنبول تاریخ عالم کا واحد شہرہے جو تین عظیم سلطنتوں کا دارالحکومت رہا
ہے۔1935ء کے بعد سے اب یہ شہر استنبول کہلاتا ہے۔
شیر استنبول (ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ) کے آخری تاریخی الفاظ یہ ہیں ۔
اے یزید ! ‘‘ لشکر اسلام کو میرا سلام کہنا اور مجاہدین سے کہنا کہ ابو
ایوب کی تمھیں وصیت ہے کہ دشمن کی سرزمین میں پیش قدمی کرتے ہوئے آخری حد
تک پہنچنا اور میری لاش کو اپنے ساتھ اٹھائے لیتے جانا اور مجھے
قسطنطنیہ(استنبول) کی دیوار کے نزدیک دفن کرنا۔
یہ آخری الفاظ تھے اُس بوڑھے شخص کے جب وہ موت کے قریب تھا ۔ ان کے پاس
موجود سب کی آنکھوں میں آنسو اُن سے محبت کی گواہی دے رہے تھے۔سپہ سالار
یزید بن معاویہ کی آنکھوں میں بھی آنسو تھے جیسے ان کے بھائی (حسین بن علی
ؓ ) کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔یہ ذکر ہے اُس بہادر شخص کا جو دنیا کی تاریخ
میں ایسا عظیم شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑاشرف بخشا تھا ۔
اُس دن اِس بوڑھے شخص کے ساتھ مُٹھی بھر لوگ تھے جو لاکھوں کے مقابلے میں
صرف ایک ہزار سے بھی کم ہوں گے ۔ یہ شخص بوڑھا ہو کر بھی امبراطوریہ اور اس
کے شہر قسطنطنیہ جواس وقت دنیا کا بڑا طاقت ور خوبصورت ترین شہر تھااُسے
للکار رہےتھے ۔ یہ عظیم بوڑھے شخص خالد بن زید بن کلیب بن مالک بن النجار ؓ
تھے جو ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے نام سے مشہور ہیں۔
یہ ذکر ہے اُس اَسّی سال کے شخص کا جس کے اِرادوں نے اُسےجوان بنا ہوا تھا
۔ابو ایوب انصاری ؓ بوڑھے ہوکر بھی نوجوانوں کے لیے آئیڈیل ہیں کہ انہوں نے
اپنی زندگی کو بامقصد بنایا ۔حالانکہ بڑھاپا تو آرام کی عمر ہوتی ہے اِس
عمر میں بھی سینکڑوں میل دُور آکر جہاد میں شریک ہوئے ۔ جو انسان اپنا وقت
قیمتی بنا لیتا ہے وہ خود بھی قیمتی بن جاتا ہے۔اس بات کا اِدراک بہت کم
لوگوں کو ہوتا ہے کہ وقت کا نقصان انسان کا سب سے بڑا نقصان ہے ۔آج کے
نوجوان اپنا وقت اور توانائیاں مت ضائع کریں ۔جب یہ احساس پیدا ہوگیا تو یہ
سوئی ہوئی قوم جاگ اُٹھےگی ۔
تاریخ کے باب میں ہم اُن کی شہادت سے 3 5 سال پہلے نظر دوڑاتے ہیں جب رسول
اللہ ﷺ مکہ سے مدینہ ہجرت کر کے پہنچے تھے ۔ ہر مسلمان کی ایک ہی تمنا تھی
کہ رسول اللہ ﷺ کی میزبانی کا شَرف اس کو حاصل ہوجائے۔یہ تاریخ کی سب سے
بڑی مہمانی اور بہت بڑا شَرف تھا ۔نبی اکرم ﷺ کے چہرہ اَنور پر تبسم تھی
اور اہل شہر کے استقبال سے ان کا خلوص صاف نظر آرہا تھا سب کی یہ تمنا تھی
کہ نبی اکرمﷺ ہمارے ہی مہمان بنیں ۔ رسولِ رحمت ﷺ کسی کی دل آزاری نہیں
کرنا چاہتے تھے۔آپ نے فیصلہ اللہ جلا شانہ پر چھوڑ دیا ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ
کے فیصلے پر سب مومنوں کی رضا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے پوری زمین پر سب سے بہترین میزبان چُن لیا جس کا نام ابو
ایوب انصاری رضی اللہ عنہ تھا ۔یہ اِنتخاب اُونٹنی کے ذریعے سے ہوا ۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری اُونٹنی کا راستہ چھوڑ دو یہ اللہ
تعالیٰ کی جانب سے مامور ہے۔اُونٹنی مسلسل چلتی رہی سب کی آنکھیں اسی کی
طرف لگی ہوئی تھیں ۔دِلوں میں ایک ہی شوق سمایا ہوا تھا کہ کسی طرح رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میزبانی کا شَرف حاصل ہو جائے۔ اُونٹنی مسلسل
اپنے حال میں مست چلی جارہی تھی۔لوگ بھی اس کے پیچھے رَواں دَواں تھے ہر
ایک کے دل میں یہ شوق تھا کہ وہ اس خوش قسمت کو دیکھیں جس کے نصیب میں یہ
دولت آتی ہے ۔جیسے ہی اُونٹنی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے
سامنے رُکی تو ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا دل خوشی سے باغ باغ ہو
گیا۔فوراً ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا اور اتنے خوش
ہوئے گویا دنیاکے خزانے ہاتھ لگ گئے ہوں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان
اٹھایا ور اپنے گھر کی طرف چل دیئے۔
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا گھر دو منزلہ تھا ۔بالائی منزل کو خالی کر
دیا گیا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں قیام کریں ۔لیکن نبی صلی
اللہ علیہ وسلم نے رہائش کے لئے نچلی منزل کو ترجیح دی ۔ابو ایوب انصاری
رضی اللہ عنہ نے آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے جہاں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے رہنا پسند کیا وہیں انتظام کر دیا۔
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بڑے حیا کرنے والے تھے ۔ ابو ایوب انصاری رضی
اللہ عنہ اور ان کی اہلیہ بالائی منزل پر چلے گئے لیکن فورا ًخیال آیا کہ
افسوس ہم کیاکر بیٹھے ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیچے آرام کریں
گے اور ہم اوپر؟ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر چلیں پھریں
گے ۔
یہ تو آپ کی خدمت اقدس میں گستاخی ہے۔ہم تو تباہ ہو جائیں گے ،دونوں میاں
بیوی انتہائی پریشان تھے ۔کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ اب کیا کریں ؟دلی سکون
جاتا رہا اور پریشانی کے عالم میں دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھے اسی غم میں
غلطاں رہے اور اس بات کا خیال رکھا کہ وہ کمرے کے درمیان میں نہ چلیں ۔صبح
یہ قِصہ ابوایوب انصاری نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عرض کیا
تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ نے بڑے پیار سے ابوایوب انصاری کو فرمایا کہ میں
نیچے رہنا پسند کرتا ہوں کیوں کہ میرے مہمان زیادہ ہیں ہر وقت ان کا آنا
جانا لگا رہے گا ۔ ابوایوب انصاری نے ان کا حکم مان لیا ۔
ابوایوب انصاری فرماتے ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نیند
کررہے تھےکہ اچانک پانی کا ایک برتن گِر گیا ۔ ہم ڈر گئے کہ کہیں نبی اکرم
کی نیند خراب نہ ہو جائے اور پانی کے قطرے آپ پر نہ گِر جائیں میں نے اور
اُمِ ایوب نے جلدی سے لحاف اُٹھایا اور فورا ًپانی کے اوپر ڈال دیا تاکہ
پانی کے قطرے چَھت سے ٹِپک کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہ
پہنچ جائیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ایوب انصاری کے گھر چھ یا
سات ماہ قیام فرمایا۔
یہ تو ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی زندگی کا زمانہ اَمن میں ایک درخشاں
پہلو ہے۔اگر زمانہ جنگ میں آپ کی زندگی کے بعض کارنامے ملاحظہ کریں تو آپ
حیران رہ جائیں گے۔ ابو ایوب انصاری زندگی بھر غازی بن کر رہے۔آپ کے متعلق
یہ بات مشہور تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک سے امیر
معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں ،آپ سبھی
میں شریک ہوئے ۔الا یہ کہ آپ کسی دوسرے مشن میں مشغول ہوں ۔آپ کی آخری
جنگ وہ ہے جس کا تذکرہِ خیر گزشتہ اَوراق میں ہوچکا ہےجس میں امیر معاویہ
رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹےیزید کی قیادت میں ایک لشکر قسطنطنیہ روانہ کیا
توا س وقت ابو ایوب رضی اللہ عنہ عمر رسیدہ تھے ،لیکن اس کے باوجود آپ
لشکر اسلام میں بخوشی شریک ہوئے اور اللہ کی راہ میں سمندر کی موجیں چیرتے
ہوئے آگے بڑھتے گئے۔
امیر المومنین معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے دور میں جہاد کا بازار
گرم تھا جس کا تذکرہ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایۃوالنھایۃ میں کیا ہے۔اس
زمانہ میں جہاد کا نظام سردیوں اورگرمیوں کے لحاظ سے الگ الگ تھا ۔اور
اسلام کو دنیا کے ہر کونے تک پھیلانے کی پوری کوشش کی جارہی تھی ۔
اسی بات کے پیشِ نظر اسلام کا ایک عظیم لشکر یزید بن معاویہ کی قیادت میں
نکلا اور ان کے ساتھ حسین بن علی کے افراد اور عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن
عمر ، عبداللہ بن عمروبن العاص اورعبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم جیسے عظیم
لوگ ساتھ تھے ۔ تاکہ قسطنطنیہ (استنبول )کو فتح کر سکیں ۔ اس لشکر میں ابو
ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے عظیم صحابی بھی شامل تھے اس وقت جن کی عمر
اَسّی سال تھی ۔جب قسطنطنیہ ( استنبول ) تک پہنچے تو دونوں فوجوں نے دیکھا
کہ ایک شخص جو مول لپیٹے ہوئے سفید گھوڑے پرتھا ۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کی
راہ میں غازی کا کردار ادا کرتے ہوئے جہاد فی سبیل اللہ کی خاطر تیزطرار
گھوڑوں پراس وقت بھی سواری کی جب آپ کی عمر اَسّی سال تھی۔
اس شخص نے رُوم کے چھوٹے چھوٹے لشکروں کو دُھول چٹا دی اور رُومی لوگ ڈر
رہے تھے کہ ہو کیا رہا ہے۔مسلمانوں کا یہ سپاہی موت کے لیے دوڑ رہاہے ۔
اس جلیل القدر صحابی کی تجویز منظور کرتے ہوئے دشمن پر پے در پے حملے کیے
گئے یہاں تک کہ قسطنطنیہ کی دیواروں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ،جبکہ
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے جسد ِخاکی کو اپنے ساتھ اٹھائے ہوئے
تھے،دیوار قسطنطیہ کے سائے میں ان کے لئے قبر کھود دی گئی اور بڑے اِعزاز و
اِکرام کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔
تقدیر کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ اس نے مدینہ منورہ میں رسول اللہﷺکی میزبانی
کرنے والے صحابی کی میزبانی کرنے کا شَرف اِستنبول کو بخشا ۔
ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے مرتے وقت وصیت فرمائی کہ اُن کو شہر پناہ
کے مُتصل دفن کیا جائے۔ آپ کو وہیں دفن کیاگیا۔ بعض تاریخی روایات میں ہے
کہ آپ کا جنازہ لشکر کے امیریزید بن معاویہ نے پڑھایا اور اُن کو دَفن کرنے
کے بعد اُن کی قبر کو مٹا دیا گیا تاکہ کوئی دشمن اُن کی قبر کی بے حُرمتی
نہ کرسکے۔سلطان محمد فاتح کے دَور میں آپ کی قبر کو ڈُھونڈا گیا اور اُس پر
مزار قائم کیا گیا ۔ آپ کی قبر کے پاس بطور یادگار ایک مسجد تعمیر کی گئی
جوترکی کی قدیم ترین مساجد میں سے ہے۔ یہ مسجد شاخ زریں (گولڈن ہارن) کے
قریب قدیم شہر قسطنطنیہ(استنبول) کی فصیلوں کے باہر واقع ہے۔ یہ مسجد
قسطنطنیہ کی فتح کے بعد 1458ء میں سلطان محمد فاتح(محمدخان ) کے حکم پر
تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد عین اُس جگہ تعمیر کی گئی جہاں صحابی رسول ابو ایوب
انصاری رضی اللہ عنہ 670ء میں محاصرہِ قسطنطنیہ ( استنبول )کے دَوران زخمی
ہونے کے بعد شہید ہو گئے تھے۔ |
|