اورنگزیب (اٹک )
اٹک شہر سے 103کلو میٹر جنوب مغرب میں آباد ساغریوں کا سب سے بڑا اور مشہور
قصبہ چھب واقع ہے چھب کے زیادہ تر لوگ فوج میں ملازمت کرتے ہیں لڑکوں اور
لڑکیوں کے لیے الگ الگ ہائی سکول موجود ہیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے
لیے اٹک یا دیگر علاقوں کا رُخ کرتے ہیں اس علاقے میں ایک انڑمیڈیٹ کالج
بھی موجود ہے جو پیر صفی الدین (مکھڈ) کی کوششوں سے ذولفقار علی بھٹو (مرحوم)
نے 1976میں اسکی منظوری دی تھی چھب نے موجودہ دورمیں اعلیٰ تعلیمی اداروں
کی کمی کے باوجود بڑی ترقی کی ہے حال ہی میں ایک بڑی سڑک جنڈ تک تعمیر کی
گئی ہے یہاں ایک ہسپتال اور بنک بھی موجود ہے دریائے سند ھ سے 13میل مشرق
کی طرف یہ علاقہ تاریخی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت رکھتاہے چھب کا ریلوے ا
سٹیشن 1889 میں انگریزوں نے تعمیر کیا تھا 1930 میں چھب میں برف باری
ہوئی تھی جنکا ذکر لوگ آج بھی کرتے ہیں 1948 میں کشمیر کو آزادکرنے کے جنگ
میں دوسر ے قبائل کے ساتھ چھب کے مجاہدین بھی شامل ہوئے تھے اس طرح
ہندوستان کی تقسیم کے وقت جب ہندو مسلم فسادات زوروں پر تھے تو چھب کے عوام
نے ایک ٹرین میں بیٹھ کر جنڈ پر حملہ کیا تھا جو اس وقت ہندووں کا تجارتی
مرکز تھا جنڈ پر حملہ کرنے کے بعد چند دنوں میں ہندوستانی افواج نے چھب کو
آدھی رات کے وقت گھیرے میں لے لیا تھا گھر گھر تلاشی لی تھی کچھ افراد کو
نقدی جرمانہ کر کے جیل بھیج دیاگیا تھا چھب کے عمر رسیدہ افراد کی زبان پر
تاریخی واقعات ان کے منہ بولتی ثبوت ہیں وہ کہتے ہیں کہ سکھوں کے حملوں میں
چھب کے لوگ ذیادہ متاثر ہوئے تھے چھب کے لوگوں نے سکھوں کے حملہ کرنے سے
پہلے اپنے گاؤں کواتنا تیزی سے خالی کیا تھا کہ عورتوں نے اپنے زیورات کو
تندوروں میں ڈال کر چھپا دیا تھا تاریخی مقام مکھڈ چھب سے تقریباً
21کلومیٹر مغرب کی طرف سندھ کے کنارے واقع ہے جو کسی زمانے میں سکھوں کا
مرکزتھا روایات سے پتا چلتاہے کہ مکھڈ تاریخی نقطہ نظر سے چھب سے پہلے آباد
ہوا تھا چھب سے مکھڈ جاتے ہوئے 13کلو میڑ کے فاصلہ پر نکہ افعان کا گاؤں
واقع ہے نکہ چوک سے کچھ فاصلے پر 50شہدا ء کی قبریں آج بھی بکھرے ہوئے
پتھروں اور ڈھیروں کی شکل میں موجود ہیں یہ قبریں ساتھ ہی برساتی نالہ جسکی
گہرائی کا فی ذیادہ ہے لیکن خشک ہے ایک اونچی جگہ پر بنائی گئی ہیں دریافت
کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ ان شہداء کی قبریں ہیں جنہیں اچانک سکھ فوج نے
نالے کے پوشیدہ راستے میں گھیر کر سب کو شہید کر دیا تھا نکہ افعان کے ارد
گرد ایسے شہداء کی کئی قبریں موجود ہیں اور سب سے ذیادہ قبریں اسی علاقے
میں ہیں اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس علاقے کے رہنے والے لوگوں پر سب سے ذیادہ
حملے اسی وادی کے مشرق سے ہوئے تھے انہوں نے سکھوں کی غلامی قبول کرنے کے
بجائے اپنی جانوں کو قربان کیا اور مختلف مقامات پر سکھوں سے لڑائیاں لڑ کر
جام شہادت نوش کیے تھے نکہ افعان کے نزدیک پہلی جنگ عظیم میں حصہ لینے والو
ں اور جنگ میں کا م آنے والوں کی تعداد کا بطور یاد گار کا اندراج ہے اس کو
سفید سنگ مرمر کے پتھر پر کنندہ کر کے لکھا گیا ہے جو ـــ"وارمیموریلـ"
کہلاتاہے اسکو انگریزوں نے پہلی جنگ عظیم (1914-18 )کے خاتمہ پر ساغریوں
کے یورپ میں انگریزوں کے لیے قربانی کی خاطر بطور ایک یاد گارکے تعمیر کیا
ہے جو آج تک قائم ہے -
اس کے برعکس ہم بھی تو ہیں جنہوں نے سکھوں کے خلاف اپنی سرزمین کے دفاع میں
جانی قربانی دینے پر بھی شہدا ء کی قبروں کو ٹھیک حالت میں رہنے پر توجہ تک
نہیں دی ہے جب کبھی میں ان شہداء کی قبروں پر سے گزرتاہوں جو کہ سڑک کے
کنارے واقع ہیں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شاہد ہمارے قدیم ورثہ کا محکمہ اس
علاقے سے صرف اور صرف اس وجہ سے نا واقف ہے کہ یہ علاقہ دور دوراز ہے مجھے
یہ دیکھ کر یہ محسوس ہوتاہے کہ واقعی ہم ماضی کو فراموش کرنے والے ہیں ہمیں
اپنے ماضی اورمستقل سے کو ئی دلچسپی نہیں رہی لیکن یہ درست ہے کہ تاریخ
اپنے آپ کو دہراتی ہے میں جب اپنے علاقے کے گاؤں کے قبرستان میں جاتاہوں
وہاں شہدا ء کے قبروں پر لہراتے قومی پر چم اس بات کا ثبوت ہے کہ حقیقت میں
چھب کے عوام کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔
چھب کے مقام پر سکھوں کی تعمیرات آج بھی موجو د ہیں سکھوں کا فوجی مرکز
چونکہ مکھڈ تھا لیکن اس کے علاوہ تھوڑے تھوڑے تعداد میں سکھ ہر گاؤں کے
نزدیک خیمہ زن ہوتے تھے اس علاقے کا فوجی کمانڈرعام طور پرمکھڈ میں رہتاتھا
سنتے ہیں کہ انکے ایک جرنیل کا نا م من سنگھ تھا جس نے کسی نہ کسی طریقہ سے
ساغریوں کو راضی کر لیا تھا کہ وہ چھب سے چند کلو میڑکے فاصلے پر مغربی
جانب ایک بُرج نماقلعہ تعمیر کریں گے جس میں سکھ فوجی علاقے کی حفاظت کے
لیے رہائش پزیر ہوں گے چنانچہ اس تعمیر شدہ بُرج نما قلعہ میں ایک فوجی
ٹولہ رہتا تھا من سنگھ کے نام سے ـــــ"من کوٹ "کا علاقہ آج بھی موجودہے
قلعہ کی قدیم بنیادوں کی نشانیاں بڑے بڑے پتھروں کی شکل میں موجود تھیں جن
کو نزدیک رہنے والوں نے خود دیکھا ہے اس بُرج نما قلعہ کے ساتھ ایک کنواں
کھودا گیا تھا جو اب غیر آباد ہے جب وہاں کے بچے اس میں اترتے ہیں اور اس
کو کھود تے تو اس میں لوہے کی سلاخ نما اشیاء مل جاتی تھیں اسی بڑے نالے
میں جو دریائے سند ھ تک جاتاہے چھب گاؤں اوردریائے سندھ کے درمیان اسی نالے
کے قریب مزید ایک کنواں بھی کھودا گیا تھا جس کو" سرنگ کنواں" کہتے ہیں او
ریہ آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہے اس کا کچھ حصہ بارشوں کی وجہ سے گر
گیا تھا لیکن وہاں کے عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت خود تعمیر کیا ہے وہاں کی
نزدیک آبادی کے لوگ سیڑھیوں کے ذریعے نیچے اتر کر تالاب کی شکل میں پانی
پیتے اوربھرتے ہیں-
چھب کے ساغریوں میں وزیر خان (نندرک)کا نام اور کاموں کا ذکر آتا ہے وہ
سکھوں کے ساتھ لڑائیوں میں ساغریوں کے ہیرو تھے وہ قد کے چھوٹے دلیر
اورحاضر جواب آدمی تھے دریائے سندھ کو انہوں نے کئی بار عبور کیا تھا وہ
اپنے ایک لڑکے کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے مدفن ہیں-
خان بہادر شیر جنگ ایک اور ایک تاریخی شخصیت جو 1869 میں پیدا ہوئے تھے
1887 میں کُک رائفلز میں بھرتی ہوئے تھے جو بعد میں بطور سپاہی سروئیر
تبدیل ہو گئے تھے مختلف فوجی مہمات میں بطور سروئیر انکی خدمات قابل قدر
ہیں ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی سطح سمندرسے لینے کا تاریخی کا رنامہ سر انجام
دیا تھا بلوچستان افغانستان سرحد کے لئے 1910میں افغان مشن کے ساتھ ان کی
خدمات کے طور پر "میگ گرگ میموریل" تغمہ ملا ان کے پاس 12جنگی میڈل تھے
1906 میں انگریزوں کی ـــ"رائل جغرافیہ کل سوسائٹی " نے جغرافیائی خدمات
کے صلے میں ایک تلوار عنایت کی تھی اس کے علاوہ کئی اہم شخصیات جنکی علاقہ
چھب کے لیے خدمات مدتوں یاد رکھی جائیں گی ۔ |