ماں کا لفظ زبان پر آتے ہی ذہن
میں گھنی ٹھنڈی چھاؤں کا احساس ہونے لگتا ہے ۔ماں کی محبت اور بے لوث چاہت
زندگی کے تپتے ہوئے صحرا میں ایک محفوظ پناہ گاہ کادرجہ رکھتی ہے یہی وجہ
ہے کہ انسان کو زندگی کے کسی بھی حصے میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو بے ساختہ
"ماں" کا لفظ ہی زبان سے نکلتا ہے ۔ قدرت نے ماں کو تخلیق کرکے انسانیت پر
بہت بڑا احسان کیا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب اﷲ تعالی نے ماں کو تخلیق
کرنے کا ارادہ فرمایا تو فرشتوں کو حکم دیا کہ چاند کی ٹھنڈک ٗ شبنم کے
آنسو ٗ بلبل کے نغمے ٗ چکوری کی تڑپ ٗ گلاب کے رنگ ٗ پھول کی مہک ٗ کوئل کی
کوک ٗ سمندر کی گہرائی ٗ دریاؤں کی روانی ٗ موجوں کا جوش ٗ کہکشاں کی
رنگینی ٗ زمین کی چمک ٗ صبح کانور اور آفتاب کی تمازت کو جمع کیا جائے تاکہ
ماں کو تخلیق کیا جائے ۔جب ماں کو خدانے بنایا تو فرشتوں نے پوچھا اے مالک
دو جہاں تو نے اس میں اپنی طرف سے کیا شامل کیا ہے تو اﷲ تعالی نے فرمایا
میں نے اپنی طرف سے ماں کی ہستی میں "محبت "شامل کی ہے۔
ماں کی شخصیت میں چاند کی ٹھنڈ ک دیکھنی ہو تو اس وقت دیکھی جائے جب کوئی
بچہ اپنی ماں کی آغوش میں سر رکھ کر گہری نیند سو رہا ہوتا ہے ۔ شبنم کے
آنسو اس وقت ماں کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جب بچے کو کوئی
تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس کا درد محسوس کرتے ہوئے آنسو بہاتی ہے تب شبنم
کے آنسو بہنے لگتے ہیں ۔ بلبل کے نغمے اس وقت فضاء میں ممتا کا روپ دھار کر
بکھیرتے ہیں جب بلبل اپناجگر کانٹے پر رکھ کر محبت کے گیت سناتی ہے جوں جوں
کانٹا اس کے جگر میں پیوست ہوتا جاتاہے اسی طرح بلبل کا خون پودے میں
اترجاتا ہے ایک طرف پودے پر سرخ گلاب کا پھول نمودار ہوجاتاہے تو دوسری
جانب بلبل کا جسم خون نچوڑنے کے بعد مردہ حالت میں زمین پر ڈھیر ہوجاتا ہے۔
اسے ایثارٗ قربانی اور ممتا کی انتہاء قرار دیا جاسکتاہے ۔جس طرح بلبل پودے
کو اپنے جگر کا لہو دے کر گلاب کا پھول اگاتی ہے اسی طرح ماں اپنے جگر کا
خون دے کر اپنے پیٹ میں نو مہینے رکھ کر گوشت کے لتھڑے کو انسانی روپ دے کر
تخلیق کی دنیا میں انقلاب برپا کرتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا کہ کوئی شخص پوری زندگی بھی ماں کی خدمت کرتا رہے تب بھی وہ اس رات
کی قیمت ادا نہیں کرسکتا جس رات ماں سخت سردی کے موسم میں خود پیشاب والی
گیلی جگہ پر لیٹتی ہے اور بچے کو اپنی خشک جگہ پر لٹاتی ہے۔ چکوری کی تڑپ
کا روپ دیکھنے کے لیے ماں کی تڑپ کو ان لمحات میں دیکھنا چاہیئے جب وہ محاذ
جنگ پر دشمن سے برسرپیکار ہوتا ہے اور ماں سینکڑوں میل دور بیٹھ کر اپنے
بیٹے کی جان کی سلامتی کے لیے رو رو کر رب العزت سے دعا مانگتی ہے ۔ پھر جب
محاذ جنگ پر بیٹا دشمن سے دست بدست جنگ کرتا ہوا شہید ہوتا ہے تو ماں کے
ہاتھوں سے شیشے کا وہ جار گر کر کرچی کرچی ہوجاتا ہے جو شہادت کے وقت اس کے
ہاتھ میں ہوتا ہے ماں اور بیٹے کا رشتہ دنیا کے حساس ترین نظام کا ایک اہم
ترین حصہ ہے ۔جو ماں کے وجود میں قدرت نے ودیعت کررکھا ہے۔ گلاب کے رنگ ٗ
ماں اپنے جسم کا خون دے کر بچے کو نئی زندگی عطا کرتی ہے دنیا کی کوئی اور
طاقت ایسی نہیں جو بچے کے لیے اس قدر ایثار کا جذبہ رکھتی ہو ۔ اس لیے گلاب
کے تمام رنگ ماں کی محبت سے عکس اور خوشبو حاصل کرتے ہیں ۔پھول کی مہک ۔
پیدائش سے لے لڑکپن تک بچے کے وجود سے بدبو کا آنا ایک فطری امر ہے ۔بار
بار پیشاب کرنے سے وجود میں پاکیزگی کو برقرار رکھنا تقریبا ناممکن ہوجاتا
ہے ایسے میں جب کہ باپ بھی بدبو کی وجہ سے بیٹے سے کچھ فاصلے پر سوتا ہے
لیکن وہی بدبو ماں کے لیے دنیا کی سب سے اچھی خوشبو بن جاتی ہے ماں اس بچے
کے جسم سے اٹھنے والی بدبو کو اپنے وجود کا حصہ بنا کر بچے کو سینے سے
لگائے رکھتی ہے گویا بچے کے جسم سے اٹھنے والی بدبو ماں کو پھولوں کی مہک
سے زیادہ خوشگوار اور معطر محسوس ہوتی ہے ۔کوئل کی کوک ٗ کوئل کی کوک
گلستان کا حصہ قرار پاتی ہے وہ جگہ کبھی گلستان نہیں کہلا سکتی جہاں کوئل
کی کوک سنائی نہ دیتی ہو۔ اسی طرح وہ مکان کبھی گھر نہیں کہلا سکتا جہاں
ماں کا وجود نہ ہو ۔ماں جب بچے کو سلانے کے لیے لوریاں سناتی ہے ۔چندا کی
نگری سے آجا نی نندیا .......میرے منے کی آنکھوں میں آجا ..... ماں کی آواز
میں ایسی لوریاں ٗ کوئل کی کوک سے زیادہ سریلی ہوکر بچے کے ذہن میں ہمیشہ
کے لیے نقش ہوجاتی ہے ۔سمندر کی گہرائی ۔ ماں کا دل سمندر کی گہرائی سے بھی
زیادہ گہرا ہوتا ہے وہ بچے کی ہر چھوٹی بڑی غلطی ٗ کوتاہی اور نافرمانی کو
اپنے دل کے سمندر میں غرق کرکے اسے دنیا کی مصیبت سے بچانا اپنا فرض اولین
تصور کرتی ہے ۔دریاؤں کی روانی سے مراد وہ خوشگوار لمحات ہیں جو زندگی کی
شاہراہ پر چلتے ہوئے تیزی سے گزر جاتے ہیں اسے اچھے وقت سے بھی تشبیہ دی
جاسکتی ہے ۔موجوں کا جوش اس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب سمندر کی چھوٹی بڑی
لہروں کو ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہوئے کنارے سے ٹکرانا ہوتا ہے ۔کہکشاں
کی رنگینی ۔ بارش کے بعد جب بادل چھٹ جاتے ہیں تو آسمان پر دھنک کی صورت
اختیار کیے خوبصورت رنگوں کاامتزاج دکھائی دیتا ہے جو ہر دیکھنے والے کو
خوشی اور مسرت سے ہمکنار کرتا ہے ماں کی شخصیت ایک نہیں دنیا کی تمام
کہکشاؤں سے زیادہ خوبصورت اور رنگین ہوتی ہے اس کا تعلق رنگ نسل اور قوم سے
ہر گز نہیں ہے ۔ ماں کی زندگی کے تمام رنگوں کا محور صرف اور صرف اس کے بچے
ہوتے ہیں جو اس کی کل کائنات ہوتے ہیں وہ دنیا کو اپنے بچوں کی آنکھوں سے
دیکھتی ہے اور انہی کے لیے زندہ رہتی ہے ۔ماں کی زندگی بچوں کے لیے ایثار
ٗمحبت ٗ شفقت اور چاہت کا خوبصورت امتزاج ہوتی ہے ۔زمین کی چمک ۔ ماں کے
چہرے پر اس وقت زمین کی چمک اور چاند کی روشنی سے زیادہ نور نظرآتا ہے جب
اس کے بچے صبح سے نکلے ہوئے شام کو خیریت سے گھر واپس لوٹتے ہیں تو اپنے
بچوں کو گھر واپس آتا ہوا دیکھ کر ماں کی آنکھوں میں خوشی کی جو چمک پیدا
ہوتی ہے اسے زمین کی چمک اور چاند کی روشنی قرار دیا جاسکتا ہے۔ماں کے خمیر
میں محبت کا جو عنصر اﷲ تعالی نے اپنی طرف سے شامل کیا ہے وہ خالق کائنات
کی اپنی ذات کا وصف ہے ۔ جس طرح اﷲ اپنے بندوں کو پیار کرتا ہے اسی طرح ماں
اپنے بچوں کا ہر گناہ معاف کرکے اسے سینے سے لگانا نہیں بھولتی ۔وہ اپنا تن
من دھن اپنا حسن ٗ جوانی ٗ صحت حتی کہ سب کچھ اپنی اولاد پر نچھاور کردیتی
ہے ۔
ایک گناہگار شخص نے کسی عالم سے پوچھا کہ میں نے زندگی میں کبھی کوئی اچھا
کام نہیں کیا۔ میں نے ہر وہ کام کیا ہے جو بحیثیت انسان مجھے نہیں کرنا
چاہیئے تھا لیکن ایک بات تو بتائیں کہ اگر روز قیامت اﷲ میرا حساب کتاب
میری ماں کے سپرد کردیتا ہے تو ماں مجھے جہنم میں جانے کا حکم دے گی یا
دوزخ میں ۔ عالم دین نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ماں اپنے بیٹے کو
جہنم میں کبھی نہیں جانے دے گی ۔ اس حوالے سے ایک واقعہ نبی کریم ﷺ کے دور
میں رونما ہوا جو کچھ یوں ہے۔ ایک شخص کچھ عرصے زندگی اور موت کی کشمکش میں
مبتلا تھا جان کنی کی تکلیف میں مبتلا وہ شخص ماں کا نافرمان تھا ۔جب کسی
نے صورت حال سے نبی کریم ﷺ کو آگاہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس شخص کی ماں کو
بلا یا جائے ۔ماں حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے ماں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم
اپنے بیٹے کو معاف کردو کیونکہ وہ جان کنی کی جس تکلیف میں مبتلا ہے اگر تم
معاف کردوگی تب اس کو اس تکلیف دہ حالت سے چھٹکا را مل سکتا ہے ۔ماں نے
جواب دیا اے اﷲ کے پیارے نبی ﷺ ۔ میرا بیٹا بہت نافرمان ہے وہ بیوی کو مجھ
پر ترجیح دیتا ہے۔ میں اسے کسی بھی صورت میں معاف نہیں کرسکتی ۔ماں کا جواب
سن کر نبی کریم ﷺ نے لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا۔ ماں نے حیرت پوچھا کہ
لکڑیاں کیوں جمع کی جارہی ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ان لکڑیوں سے آگ جلا کر
اس میں تمہارے نافرمان بیٹے کو جلایا جائے گا ۔یہ سن کر فورا ماں کی ممتا
نے جوش مارا اور وہ نبی کریمﷺ کے پاؤں میں گر پڑی کہ خدارا میرے بیٹے کو آگ
میں نہ جلایا جائے میں اس کاہر گناہ اور اس کی ہر زیادتی کو معاف کرتی ہوں
۔
ویسے تو اﷲ کی ذات ہی سب پر مہربان ہوتی ہے اور اپنے بندے کو ستر ماؤں جتنا
پیار کرنے کا دعوی بھی کرتی ہے ۔لیکن ماں کا جذبہ محبت اگر دیکھنا ہوتوہمیں
کہیں دور نہیں جانا پڑتا بلکہ ہر گھر میں ماں ایک فرشتے کا روپ دھار کر
اپنی تمام تر محبتیں اولاد پر نچھاور کرتی ہوئی ہر لمحے دکھائی دیتی ہیں ۔
چند سال پہلے پاکستان میں قیامت خیززلزلے میں جو تباہی مچائی تھی شہر اور
گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا کے رکھ دیئے ۔ اس موقع پر ہیلی کاپٹر خوراک کے پیکٹ
زلزلہ زدگان کے لیے پیکٹ گرا رہا تھا تو ایک ماں اپنے دو بچوں کو اٹھائے
ہوئے اس جانب بے ساختہ دوڑ رہی تھا جہاں اسے خوراک کے پیکٹ ملنے کا امکان
تھا ۔اس کے باوجود کہ بھوکے پیٹ خوراک اس کی ضرورت تھی لیکن اس نے اپنے
بچوں کو جدا کرکے خوراک حاصل کرنے کی بجائے دونوں کو اپنے بازوں میں تھما
کر جس قدر مشکل سے وہ ہیلی کاپٹر کی جانب بھاگ رہی تھی دیکھنے والے اس کی
ممتا کو خراج تحسین پیش کیے بغیر نہیں رہ سکے ۔ ماؤں کی یہ عادت بہت پرانی
ہے کہ گھر کے تمام افراد کو کھلانے کے بعد آخر میں خود کھانا کھاتی ہیں کئی
غریب گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں ماں کو بھوکا بھی سونا پڑتا ہے لیکن وہ
بھوکے پیٹ بھی اپنے بچوں پر اپنی محبت نچھاور کرنا نہیں بھولتی ۔ میرزا
ادیب اپنی سوانح عمر ی "مٹی کا دیا " میں لکھتے ہیں کہ مجھے سالن زیادہ
کھانے کی عادت تھی ۔میں بار بار ماں سے سالن مانگ لیا کرتا تھا اس کے
باوجود کہ ہنڈیا میں سالن ختم ہونے والا ہوتا ماں نے کبھی مجھے سالن دینے
سے انکار نہیں کیا ۔ میں نے کئی مرتبہ دیکھا کہ میرے بعد جب ماں کھانا
کھانے لگتی تو وہ روٹی کے ٹکڑوں کو خالی ہنڈی میں لگا لگا کر اپنا پیٹ بھر
لیا کرتی تھی ۔
بچپن کے حالات و واقعات انسان کو زندگی بھر نہیں بھولتے ۔ میری ماں "ہدایت
بیگم"شاید ہی کبھی عید تہوار پر نئے کپڑے پہنتی تھی وگرنہ میں نے ان کے
لباس میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے دیکھا ۔ والد کی تنخواہ 80روپے میں سے بھی
آٹھ دس روپے بچا کر سکول کی وردی اور کاپیوں کتابوں کے لیے بوقت ضرورت پیسے
فراہم کیاکرتی تھی ۔بچپن اور جوانی تک ہمارے گھر میں صرف صبح گڑ کی چائے
پکتی تھی جس سے ہم رات کی بچی ہوئی روٹی کیک سمجھ کر مزے لے لے کر کھایا
کرتے تھے ۔ گھر میں جب کوئی مہمان آجاتا تو اس کے لیے چینی کی چائے پکتی تو
ہم حسرت سے مہمان کو دیکھا کرتے تھے کہ زندگی میں کبھی ہمیں بھی چینی والی
چائے پینا نصیب ہوگی ۔میری ماں بھی ان عظیم ماؤں میں شامل ہے جنہوں نے اپنے
وجود کو مٹا کر اپنے لہو سے ہماری پرورش کی اور ہمیں دنیا میں کامیاب طریقے
سے جینے کا حوصلہ دیا ۔
مجھے سردیو ں کی وہ رات آج بھی نہیں بھولتی۔ جب لاہور کینٹ کے ریلوے
کوارٹروں میں سفیدی کی وجہ سے گھر کا سارا سامان کھلے میدان میں بکھرا پڑا
تھا جبکہ ہم ایک جھونپڑی نما کچے کمرے میں سردیوں کی اس رات سورہے تھے ۔رات
کے پچھلے پہر طوفانی بارش نے ماحول کو اور بھی سردبنا دیا ۔جس کمرے میں ہم
موجود تھے اس کی چھت کا شاید ہی کوئی حصہ بارش کے پانی سے محفوظ ہو ۔ گھر
کے تمام برتن چھت سے ٹپکنے والے قطروں کی جگہ پر رکھ دیئے گئے پھر قطروں کی
صورت میں بارش کا پانی بستروں
ے آرام کی خاطر اپنا بستر چھوڑ دیا اور اپنی رضائی بھی ہم پر اس لیے ڈال دی
کہ بارش کا پانی کہیں ہماری نیند خراب نہ کردے ۔ساری رات جاگ کر ماں ہمیں
بارش کے یخ بستہ پانی سے بچاتی رہی ۔ یہ وہ صورت حال تھی جس کے بارے میں
ممتاز شاعر عباس تابش نے لکھا تھا کہ -:
اک مدت سے میری ماں سوئی نہیں تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
صبح جب بارش تھمی تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ جس کمرے میں ہم سو رہے
تو اس میں ایک ایک فٹ پانی کھڑا ہوچکا تھا سخت سردیوں میں سرد پانی میں
کھڑا رہنے سے ماں کو سخت بخار ہوگیا لیکن اس نے ساری رات ہمارے آرام کی
خاطر اپنا سکھ چین قربان کرکے یہ ثابت کردیا کہ ان کا وجود حقیقت میں ہمارے
لیے ایک ایسے سائبان کی طرح ہے جس کے نیچے رہنے والے ہمیشہ عافیت میں رہتے
ہیں۔
اسی طرح جب واں رادھا رام ( حبیب آباد ) ریلوے اسٹیشن سے والد صاحب تبدیل
ہوکر لاہور کینٹ آگئے تو اسٹیشن ماسٹر نے ہم سے کوارٹر خالی کروا لیا
۔لاہور کینٹ میں ابھی والد صاحب کو کوارٹر الاٹ نہیں ہوا تھا ۔اب ہم کہا ں
جائیں ۔گینگ مین کے جمعدار جو میرے والد کے دوست ہی تھے اس نے مہربانی کرکے
اجاڑ بیابان میں ایک خالی پڑے ہوئے کوارٹر میں رہنے کی اجازت دے دی۔یہ
کوارٹر دوسرے کوارٹروں تو کافی ہٹ کے تھا ایک جانب گہرے تالاب تو دوسری
جانب دور تک کھیت ہی کھیت دکھائی دیتے تھے۔شام ڈھلتے ہی اندھیرا اس کوارٹر
میں ہر طرف سے چھا جاتا ۔ ماں ایک لالٹین جلاکر کچھ روشنی کااہتما م
کرتی۔اندھیرا چھاتے ہی عام انسانوں کا وہاں سے گزر نا بند ہوجاتا لیکن
گھوڑوں کے ہنہانے اور چوروں کے کھانسنے اور بھاگنے کی آوازیں مسلسل سنائی
دیتی رہتیں ۔ اس وقت میری عمر بمشکل دس سال اور بڑے بھائی چود ہ اور سولہ
سال کے ہوں گے ۔ دن تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتا لیکن رات کے وقت ہم سب
کو خوف کچھ اس طرح گھیر لیتا کہ ہمیں نیند نہیں آتی تھی کوارٹر کی دیواریں
بھی بہت چھوٹی تھی جسے کوئی بھی انسان آسانی سے پھلانگ کر اندر داخل ہوسکتا
تھا ۔مشکل اور پریشانی کے ان لمحات میں شاید ہی کوئی رات ماں سوئی ہوگی وہ
ہمیں سلا کر خود ساری رات بیٹھتی رہتی ۔ ذرا آہٹ بھی اسے پریشان کرنے کے
لیے کافی تھی ۔ یہ اﷲ جنت نصیب کرے ملک عاشق کو جو واں رادھا رام کا بے تاج
بادشاہ تھا اس نے اعلان کررکھا تھا کہ دلشاد خان لودھی کے بچے اس کوارٹر
میں اکیلے ہیں کوئی چور یا رسہ گیر ادھر بری نظر سے دیکھنے کی جرات نہ کرے
۔ ملک عاشق کا واں رادھا رام میں اتنا رعب تھا کہ چور ڈاکوٗ رسہ گیر اور
پولیس بھی اس سے ڈرتی تھی۔ ایک ڈیڑھ ماہ ہم باامر مجبوری اس بیابان میں رہے
لیکن کوئی ایک لمحہ بھی سکون کا میسر تو نہیں آیا لیکن ماں نے اپنی ممتا کا
حق ادا کردیا ۔
ایک جج سے ماؤں کی عظمت کے بارے میں بات ہونے لگی۔ جج صاحب نے بتا یا کہ
مجرم رنگے ہاتھوں پکڑے بھی جائیں تب بھی ان کی مائیں عدالت میں قرآن پر قسم
اٹھانے کے لیے بھی تیار ہوجاتی ہیں کہ یہ جرم میرے بیٹے نے نہیں کیا ۔ جج
صاحب نے بتایا کہ ماؤں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اور بیٹوں کی رہائی کے
لیے ان کی آہ زاری دیکھ کر ہمارا دل بھی پسیج جاتا ہے لیکن عدالت کی کرسی
پر بیٹھ کر ہمیں انسانی جذبات کی بجائے حقائق اور ثبوتوں کو سامنے رکھ کر
فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔
ماؤں کی عظمت کے حوالے سے ہی ایک واقعہ میں علمائے کرام سے سنا کرتے ہیں کہ
حضرت موسی علیہ السلام ( جن کو رب العزت سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا
ہے ) نے رب سے پوچھا کہ پروردگار جنت میں میرا پڑوسی کون ہوگا ۔اﷲ تعالی نے
فرمایا کہ جنت میں تمہارا پڑوسی گاؤں کا ایک قصائی ہوگا ۔ حضرت موسی علیہ
السلام کو یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ اس قصائی نے کونسا ایسا کام کردکھایا
ہے کہ وہ جنت میں میرا پڑوسی بن گیا ہے ۔ معاملے کی تہہ میں اترنے کے لیے
حضرت موسی علیہ السلام اس قصائی تک جا پہنچے ۔ سارا دن اس کے پاس بیٹھ کر
مشاہدہ کرتے رہے پھر شام ڈھلے جب وہ گھرجانے لگا تو حضرت موسی علیہ السلام
بھی اس قصائی کے ساتھ چل پڑے ۔گھر پہنچ کر حضرت موسی علیہ السلام نے دیکھا
کہ اس گھر میں ایک بوڑھی عورت ( ماں ) اور ایک بوڑھا مرد( باپ ) موجود تھے
۔ قصائی نے دن بھر کی تھکاوٹ کو فراموش کرتے ہوئے پہلے اپنے ہاتھوں سے
کھانا تیار کیا پھر باری باری ماں اور باپ دونوں کو اپنے ہاتھوں سے وہ
کھانا کھلایا ۔ کھانا کھا چکنے کے بعد دونوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا دیتے ہوئے
کہا جا بیٹا اﷲ تمہیں موسی علیہ السلام کا جنت میں پڑوسی بنائے ۔ماں باپ کی
زبان سے نکلنے والے الفاظ جب حضرت مو سی علیہ السلام نے سنے تو انہیں بات
سمجھ میں آئی کہ اﷲ تعالی نے جنت میں اس قصائی کو میرا پڑوسی والدین کی
دعاؤں کے طفیل بنا یا ہے ۔
میرا یہ ایمان ہے کہ ماں اور باپ دونوں کی دعا اور بددعا رائیگاں نہیں جاتی
یہی وجہ ہے کہ بزرگان دین فرماتے ہیں کہ کسی جانورکو ذبح کرنے سے پہلے یہ
ضرور دیکھ لو کہ اس جانور کی ماں سامنے نہ ہو ۔ کیونکہ ماں انسان کی ہو یا
جانور کی اﷲ تعالی ماؤں کی دعاؤں اور بددعاؤں کو رد نہیں کرتا۔ بے شک جانور
بولنے سے قاصر ہیں اﷲ نے ان کو قوت گویائی عطا نہیں فرمائی لیکن جب وہ اپنا
چہرہ آسمان کی طرف کرکے آنسو بہاتے ہیں تو رحمت الہی جوش میں آجاتی ہے
۔مرغی وہ جانور ہے جو ہمارے گھروں میں اکثر دیکھی جاتی ہے لیکن جب کوئی چیل
چوزے کو پنجوں میں جکڑ کر لے جانے لگتی ہے ۔اس کے باوجود کہ مرغی نہ تو ہوا
میں اڑ کر چیل کو پکڑ سکتی ہے اورنہ ہی طاقت میں اس کا مقابلہ کرسکتی ہے
پھر بھی وہ اپنے چوزے کو چیل کے پنجوں سے آزاد کروانے کے لیے ممکن حد تک
ہوا میں اڑ کر چیل تک پہنچنے کی جستجو ضرور کرتی ہے ۔ یہ طاقت ماں کی
ممتاکی وجہ سے اس میں پیدا ہوتی ہے ۔روس میں سائنس دانوں نے جانوروں میں
ممتا کی پیمائش کرنے کے لیے ایک مرغی اور چند چوزوں کو مثال بنا یا ۔ تجربہ
شروع کرنے سے پہلے مرغی کا طبی معائنہ کیاگیا تووہ بالکل ٹھیک حالت میں تھی
چندلمحوں بعداس کے سامنے سے ایک چوزہ غائب کردیا گیا مرغی اس چوزے کو تلاش
کرتے کرتے جب تھک گئی تو مرغی کو پکڑ کر طبی معائنہ کیاگیا تو اس کے دل کے
بیشتر حصے کا خون منجمد ہوچکا تھا گویا کسی بھی وقت مرغی کی موت واقع
ہوسکتی تھی ۔کچھ دیر بھی دوبارہ چوزے کو مرغی کے پاس چھوڑ دیاگیا پھر جب
مرغی کا میڈیکل چیک اپ کیاگیا تو دل کا وہ حصہ جس میں خون منجمد ہوچکا تھا
وہ حصہ دوبارہ فعال ہوچکا تھا ۔
میری ایک بہو( رضوانہ زاہد ) کے پاؤں ہڈی میں معمولی فریکچر ہے جس کی وجہ
سے اسے چلنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے علاج کے باوجود فریکچر ٹھیک
نہیں ہو پارہا لیکن جب مشکل میں پھنسے ہوئے اس کے کمسن بیٹے محمد عمر کی
گھر کے کسی کونے سے آواز سنائی دیتی ہے تو وہ انتہائی تیز رفتار ی سے دوڑتی
ہوئی اس مقام پر پہنچ جاتی ہے جہاں اس کا بیٹا موجود ہوتا ہے ۔یہ اس لیے ہے
کہ ماں کی حیثیت سے اس کی توجہ ہر وقت بیٹے کی جانب مرکوز رہتی ہے اﷲ نے اس
کو اتنا صلاحیت عطا فرمائی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھ کر اس کے پیٹ
میں ہونے والے درد کا احساس کر لیتی ہے ۔اسی طرح میری بیگم جو تین بچوں کی
ماں ہے مشکل اور آزمائش کی ہر گھڑی میں وہ مجھے بھی چھوڑ کر اپنے بچوں کے
ساتھ کھڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ ایک ہی فقرہ اس کی زبان پر ہوتا ہے کہ
جیسے بھی ہیں اور جو بھی ہیں وہ میرے بچے ہیں اور مجھے اپنی جان سے زیادہ
عزیز ہیں ۔میں سمجھتا ہوں یہ ممتا کے ایثار اور محبت کی انتہاء ہوتی ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ دو بار میں نے اپنی ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تھے ایک
بار جب سب سے چھوٹے بھائی شادی کے موقع اور دوسرا موقع انہوں نے جو کمیٹی
ڈالی تھی اور اس کاایک ممبر کمیٹی لے کر بھاگ گیا تھا ۔چھوٹے بھائی کی شادی
پر ماں نے اپنے چاروں بیٹوں کو ( مجھ سمیت ) حکم دیا کہ سب دس دس ہزار روپے
دیں تاکہ شادی کے اخراجات پورے کیے جاسکیں یہ 1994ء کی بات ہے ۔ماں کے
اصرار کے باوجود بھائیوں نے یہ کہتے ہوئے پیسے دینے سے انکار کردیا کہ ان
کی اپنی اولاد جوان ہورہی ہے چنانچہ وہ کسی قسم کی مدد کرنے سے معذور ہیں ۔
شادی کے دن مقرر ہوچکے تھے متوقع مہمانوں کو خطوط کے ذریعے اطلاع دی جا چکی
تھی ۔شادی کسی بھی صورت ملتوی نہیں کی جاسکتی تھی ۔ اس تشویش ناک صورت حال
نے ماں کی آنکھوں میں آنسو بھر دیئے ۔ میں خاموشی سے سب کی باتیں سن رہا
تھا جب سب نے معذرت کرلی تو میں نے ماں کی آغوش میں سر رکھ کر کہا .....
ماں جی آپ پریشان نہ ہوں آپ کو جتنے پیسے چاہیں وہ میں آپ کی خوشی اور عزت
کی خاطر اکیلا ہی دوں گا ۔ میری اس بات پر پہلے تو ماں حیران ہوئی پھر چہرے
پر مسرت کے آثار نمودار ہوئے اورفرمایا بیٹا تم کہاں سے چالیس ہزار روپے
مجھے لا کر دوگے ۔( یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ 1994ء کی چالیس ہزار آج کے
چار لاکھ کے برابر بنتے ہیں )۔ میں ماں کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ آپ حوصلہ
رکھیں اﷲ نے چاہاتو جتنے پیسے آپ کو درکار ہوں گے میں آپ کو دوں گا یہ میرا
آپ سے وعدہ ہے آپ شادی کی تیاری کریں ۔ ان دنوں میں پی آئی ڈی بی سے گولڈ
ہینڈ شیک لے کر ریٹائر ہوا تھا اور میرے پاس پیسے موجود تھے لیکن میں نے
اپنے بیوی اور بچوں کی ضرورتوں کو فراموش کرکے ماں کی آنکھوں میں آنے والے
آنسووں کی قیمت ادا کرکے جنت کو اپنے نام کرلیا ۔پھر جب میں نے چالیس ہزار
روپے لاکر ماں کی ہتھیلی پر رکھے تو میں نے ان کا چہرہ خوشی سے تمتاتے ہوئے
دیکھا ۔ اس لمحے ماں نے میرے لیے بطور خاص ہاتھ اٹھا کر دعا کی تھی ۔مجھے
آج جو عزت اور احترام معاشرے میں حاصل ہے وہ میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہی
تو ہے ۔
ماں کی آنکھوں میں دوسری بات آنسو اس وقت آئے جب کمیٹی لے کر ایک شخص فرار
ہوگیا اب اس کے پیسے کون پورے کرے گا ۔ یہ ذمہ داری اس کی ہوتی ہے جو کمیٹی
ڈالتا ہے ماں نے گھر کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کئی کمیٹیاں ڈال رکھی
تھیں جب کمیٹی نکلتیں تو گھر کی کوئی نہ کوئی ضرورت پوری ہوجاتی ۔ایک شام
جب میں دفتر سے واپس ماں کے گھر پہنچا تو ماں گھر کے باہر ہی سر جھکائے
افسردہ بیٹھی ہوئی دکھائی دی۔ موٹرسائیکل کھڑی کرتے ہی مجھے احساس ہوگیا کہ
آج ماں بہت پریشان لگتی ہے ۔ میں بھی سلام کرنے کے بعد خاموشی سے ماں کے
ساتھ زمین پر ہی بیٹھ گیا اور پریشانی کی وجہ پوچھی ماں مجھ سے یہ بات چھپا
رہی تھی لیکن اس کی آنکھوں میں تیرنے والے آنسووں نے مجھے سب کچھ بتادیا
تھا ۔ میرے اصرار پر ماں نے بتایا کہ ایک شخص کے بھاگنے کی وجہ سے کمیٹی
ٹوٹ گئی ہے اور کمیٹی کے ممبر پیسوں کے لیے مجھے پریشان کررہے ہیں اب میں
اتنے پیسے کہاں سے لاؤں ۔ میں نے حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے کہا ۔جب
تک میں زندہ ہوں آپ پریشان نہ ہواکریں ۔ میں آپ کی آنکھوں میں کبھی آنسو
نہیں دیکھ سکتا۔ماں نے جتنی رقم کا تقاضا کیا میں نے وہ رقم دوسرے دن لا کر
ماں کی ہتھیلی پر رکھ دی اور ماں کے قدموں میں بیٹھ کر شام کا کھانا ان کے
ساتھ کھانے لگا ۔
اس کے باوجود کہ میں 1984ء میں الگ گھر میں منتقل ہوچکا تھا لیکن شاید ہی
کوئی شام ایسی جاتی ہوگی جب میں دفتر سے واپسی پر ماں کی قدم بوسی کے لیے
ان کے پاس نہ جاتاہوں ۔ ماں کے سامنے میں سر جھکا کے ایسے کھڑا ہوجاتا تھا
کہ جیسے بادشاہ کے سامنے غلام کھڑا ہوتا ہے ۔ ماں کو کیک پیس اور پیپسی
کولا کی بوتل بہت پسند تھی ۔ پھلوں میں کیلے شوق سے کھا تیں ۔جس دن مجھے
تنخواہ ملتی سب سے پہلے والدین کے گھر جاتا ماں اور باپ دونوں کو جیب خرچ
دینے کے بعد ان کی من پسند چیزیں کھلا کر پھر اپنے گھر کا رخ کرتا ۔اﷲ نے
مجھے یہ شرف بھی بخشا تھا کہ میں ٗ ماں اور باپ کی آنکھوں میں دیکھ کر ان
کے دل کی بات سمجھ لیتا تھا اور ان کی زبان پربات آنے سے پہلے ان کی ضرورت
کو پورا کرنا میں اپنا فرض اولین تصور کرتا تھا ۔
اس کے باوجود کہ ماں کو اس دنیا سے رخصت ہوئے سات سال ہوچکے ہیں لیکن شاید
ہی کوئی رات ایسی جاتی ہو گی جب ماں اور باپ خواب میرے ساتھ نہیں ہوتے ۔
وہی پرانا ریلوے کوارٹر جس کے پاس پیپل کا درخت تھا جس کا دروازہ تارکول کے
ڈرم کو کاٹ کر بنایا گیا تھا جس کے صحن پر ہفتے میں ایک بار مٹی سے لپائی
کی جاتی تھی جس کے چھوٹے سے صحن میں مٹی کا بنا ہواایک چولہا ہواکرتا تھا
جس میں لکڑیاں اور گوبر کے سوکھے اوپلے جلائے جاتے تھے اسی صحن میں مٹی کی
بنی ہوئی ایک انگھیٹی بھی نظر آتی ہے اسی گھر کا برآمدہ جس پر ہم نے تھرکول
کے ڈراموں کو کاٹ چھت ڈالی ہوئی تھی بارش کے دنوں میں اس چھت میں بارش کے
پانی کے قطرے ایسے گرتے تھے جیسے برف خانے میں برف جمانے کے لیے پانی کو
قطروں کی صورت میں گرایا جاتا ہے ۔اس برآمدہ نما کمرے میں اب بھی ایک
چارپائی بچھی ہوئی نظر آتی ہے جس کے نیچے ہاتھ سے آٹا پیسنے والی چکی ماں
نے رکھی ہوتی تھی اس چکی پر میں اور ماں دونوں پتھروں کوگھما کر آٹا پیسا
کرتے تھے اسی کمرے میں پانی کو محفوظ کرنے کے لیے چھوٹی سی سیمنٹ کی ایک
ہودی بھی نظر آتی ہے ۔جس میں کوارٹروں کے واحد نلکے سے بالٹیوں میں پانی
بھر کر محفوظ کرلیا کرتے تھے ۔اسی گھر کے ایک کونے میں چھوٹی سی دکان بھی
دکھائی دیتی ہے جس میں کچھ پرچون کا سامان ٗ مٹی کا تیل اور املی سے بھری
ہوئی کینالی نظر آتی ہے ۔اس برآمدہ نما کمرے کے ایک حصے کی بالائی چھت پر
ماں برسات کے موسم میں جلانے کے لیے سوکھی لکڑیا ں رکھ لیا کرتی تھی اس
کے نیچے والے حصے میں الماری نما لکڑی کی ایک ڈولی نظر آتی ہے جس میں ماں
ضرورت کی ہر چیز محفوظ کرکے چھوٹا سا تالہ لگاکر چابی اپنے بٹوے میں محفوظ
کرلیا کرتی تھی جس جگہ یہ ڈولی پڑی ہوتی تھی وہ جگہ آسیب زدہ تھی وہاں کتنی
بار گھر والوں نے کسی اجنبی شخص کو دیکھا تھا لیکن وہاں جو کوئی بھی تھا وہ
کوئی نیک روح ہی تھی اس نے کبھی گھروالوں کونقصان نہیں پہنچایا ہاں جب اس
جگہ پر باامر مجبوری کوئی چارپائی بچھائی جاتی تھی تو چارپائی کچھ دیر بھی
ہی ٹوٹ کر زمین بوس ہوجاتی تھی ۔ ایک مرتبہ سخت بارش میں ہم سب دو دو تین
ہوکر ایک ایک چارپائی پر لیٹ گئے والد صاحب کے لیے پھر جگہ نہ بچی۔ صرف وہ
جگہ خالی تھی جہاں کسی بزرگ کا سایہ تھا والد چونکہ بہت دلیر انسان تھے اس
لیے انہوں نے کہا آج میری چارپائی اسی جگہ بچھا دوں جہاں غائبانہ طورپر کسی
شخص کی موجودگی کااحساس ہوتا ہے ۔ابھی والد صاحب چارپائی پر لیٹ کر گہری
نیند میں اترے ہی تھے کہ ایک دھماکے کے ساتھ چارپائی ٹوٹ گئی اور والد صاحب
کو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ جگہ خالی کرنی پڑی ۔یہ مناظر میں ہر رات کو دیکھتا
ہوں والدین میری زندگی میں اسی طرح ہیں جس طرح وہ زندگی میں ہواکرتے تھے یہ
اس والہانہ محبت کا اظہار ہے جو میں اپنے والدین سے کیا کرتا تھااور اب بھی
کرتا ہوں ۔میں اکثر ماں کو کہاکرتاتھا کہ ماں آپ مجھے جتنی محبت کرتی ہیں
میں آپ کو اس سے دو گنا زیادہ محبت کرتا ہوں ۔
اس کے باوجود کہ اس کوارٹر سے ہمیں نکلے ہوئے 30 سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے
لیکن میں جب بھی سوتا ہوں تو نیند کا غلبہ آتے ہی میں اس کوارٹر میں پہنچ
جاتا ہوں جہاں میری ماں اور میرا باپ اپنے روزمرہ کاموں میں مصروف دکھائی
دیتے ہیں ۔میں کیسے کہہ دوں کہ وہ میری زندگی سے نکل چکے ہیں میں جب بھی
آنکھیں بند کرتا ہوں تو خود کو ان کی آغوش میں پاتا ہوں وہ پہلے والی شفقت
اور محبت سے مجھے نوازتے ہیں اور میں اس دنیا کی رونقوں کو بھول کر ان کے
قدموں میں اپنا سر رکھ کر ہوامیں اڑتا ہوا محسوس کرتا ہوں پھر بچپن کی وہی
ڈانٹ ڈپٹ پھر وہی پیار کی باتیں ٗ پھر وہی پرانے ۔ لیکن یوں محسوس ہوتا ہے
کہ قبروں میں دفن ہونے کے باوجود والدین کی روح اپنے اس کوارٹر ( مکان ) سے
باہر نہیں نکل سکیں ۔جس میں انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال گزارے تھے
۔میں انہیں کیسے بھول جاؤں وہ تواب بھی میری زندگی میں سانسوں کی طرح میرے
قریب ہیں وہ اب بھی میرے دکھ درد میں مجھے حوصلہ دیتے ہیں میں جس رات 3
دسمبر 2014ء کو بنک آف پنجاب سے ریٹائر ہوا تھا چند دن پہلے سے مجھے عجیب و
غریب صورت حال نے گھیر رکھا تھا گزرنے والا ایک ایک لمحہ مجھے اپنی اہمیت
کااحساس دلا رہا تھا۔ 2 اور 3 دسمبر 2014ء کی اس رات میں نے خواب میں دیکھا
کہ میں ماں کی آغوش میں سر رکھ کر غم سے نڈھال لیٹا ہوا ہوں اور ریٹائرمنٹ
کے بعد آنے والی مالی پریشانیوں کا تصور کرکے میں بے سکون ہوں اس لمحے ماں
میرے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتی ہے بیٹا فکر نہ کر ریٹائربھی تو
انسان ہی ہوتے ہیں ۔ جس رب نے تمہیں زندگی میں عزت شہرت اور دولت عطا
فرمائی ہے وہی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تمہیں یہ سب نعمتیں عطا کرسکتا ہے۔
مایوس ہونے کی بجائے اپنے رب کے سامنے اس طرح جھک جاؤ جس طرح جھکنے کا حق
ہے ۔ دنیا کی تمام پریشانیاں تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں۔پھر مجھے یاد
آیا کہ جب بنک کے پریذیڈنٹ ہمیش خان سے میرا اختلاف ہوا تو سختی پریشانی کے
عالم میں ٗ میں ماں کے قدموں میں سررکھ کر انہیں بتایا کہ آج میں بہت
پریشان ہوں بنک کے پریذیڈنٹ کا حکم نہ ماننے کی وجہ سے مجھے ملازمت سے
نکالا بھی جاسکتا ہے ماں نے میری بات سننے کے بعد کہا بیٹا اگر تم حق پر ہو
تو جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔اس واقعے کے بعد
ماں نے ہمیش خان کی تصویر مجھ سے لے کر اپنے تکیے کے نیچے رکھ لی تھی ہر
صبح جب نماز فجر کے بعد قرآن پاک کی تلاوت کرتی تو تصویر پر بھی پھونک
مارتی ۔ ہمیش خان اگر آج تک ( چھ سال سے ) جیل میں بند ہے تو شاید یہ میری
ماں کی اس بد دعا کااثر ہے جو وہ میرے تحفظ کے لیے دیا کرتی تھی ۔ ماں کی
دعا کا ہی یہ اثر ہے کہ ہمیش خان اس
ناراضگی کے بعد بھی دو سال بنک کا پریذیڈنٹ رہا لیکن اسے میرے خلاف کوئی
بڑا ایکشن لینے کی ہمت نہیں ہوئی ۔اس واقعے کے چھ سال بعد میں بنک سے باعزت
ریٹائر ہوا ہوں یہ سب میری ماں کی دعاؤں کانتیجہ ہی تو ہے ۔ورنہ میں اس
قابل کہاں تھا کہ بنک میں کسی آفیسر گریڈ تک پہنچتا ۔
ماں کے جو قریب ہوتے ہیں
دشمن بھی ان کے حبیب ہوتے ہیں
ماں جن کے پاس ہوتی ہے
وہ لوگ کہاں غریب ہوتے ہیں
ماں جن کی زندہ ہوتی ہے
وہ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں
اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام اپنی والدہ کے انتقال کے بعد جب رب سے ہم
کلام تھے تو اﷲ تعالی نے فرمایا تھا اے موسی آج ذرا سوچ سمجھ کر بات کرنا
آج تمہارے لیے دعاکرنے والی ماں نہیں ہے ۔لیکن اﷲ تعالی نے ماں کا ساتھ اور
دعا مجھے اب بھی عطا کررکھی ہے یہ اﷲ کا مجھ پر خاص کرم ہے ۔یہی وجہ ہے کہ
جب بھی مجھے کہیں سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو زبان سے حضرت شاہ حسین ؓ کی
اس کافی کے بول رواں ہوجاتے ہیں جس کو گیت کی صورت میں حامد بیلا نے گاکر
خود کو امر کرلیا تھا ۔
مائے نی میں کینوں آکھا ں
درد وچھوڑے دا حال نی
جب ماں زندہ تھی تو اس وقت بھی میں والدین کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے حضرت
شاہ حسین ؓ کی یہی کافی گنگنایا کرتا تھا اس لمحے میری زبان سے یہ بول سن
کر بے ساختہ ماں کہا کرتی تھی بیٹا میں تمہارے سامنے بیٹھی ہوں تو مجھے
اپنا دردسناؤ ..........................
سخت راہوں میں بھی آسان سفر لگتا ہے
یہ میری ماں کی دعاؤں کا اثر لگتا ہے |