مدارس و سینٹر۔مسلک کے پروڈکشن ہاؤس
(شفقت نذیر, Stoke-on-trent)
بہتری کی جانب بڑھنے، درست راستہ
تلاش کرنے اور زمانے کے ساتھ ہم قدم ہونے کے لئے بحث کا عمل بہت ضروری نسخہ
ہے جو افادیت و اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے اور غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتا
ہے۔ برطانیہ میں ان دنوں مدارس اور اسلامک و کمیونٹی سینٹروں کے حوالے سے
ایک بحث کا آغاز ہوا ہے اور اس پر لکھنے والے بھی طبع آزمائی کررہے ہیں۔
چونکہ میں بھی ایک لکھنے والا ہوں اس لئے اپنے انداز میں اس بحث میں حصہ
لینے سے قبل ایک قصہ قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ ایک دیہاتی طالب
علم شہر میں ایک استاد کے پاس پڑھنے آیا۔ استاد نے اسے ہدایت دیتے ہوئے
کہا کہ ایک بات کا ہمیشہ خیال رکھنا کہ صرف وہی کام کرنا جو میں کروں یا تم
سے کرنے کو کہوں۔ شاگرد نے بڑے غور سے اس ہدایت کو سنا اور عمل کرنے کا
وعدہ کیا۔ سبق شروع ہوا استاد نے بسم اللہ سے ابتدا کی۔ شاگرد نے بھی زور
سے بسم اللہ پڑھی۔۔۔ استاد نے کہا کہ تم خاموشی سے سنو۔ شاگرد نے بھی کہا
تم خاموشی سے سنو۔۔۔ استاد کو غصہ آگیا تو اس نے لال پیلا ہوتے ہوئے کہا
کہ بکواس بند کرو۔۔۔ شاگرد نے بھی کہا کہ بکواس بند کرو۔۔۔ استاد کا غصہ
سوا ہوا تو ایک زناٹے دار تھپڑ رسید کیا۔۔۔ جواب میں اسی شدت سے شاگرد نے
بھی تھپڑ جڑ دیا۔ اب استاد اٹھ گیا اور شاگرد پر مُکے برسانے لگا جتنے مُکے
شاگردکو جس شدت سے پڑے اس نے اتنے مُکے اسی شدت کے ساتھ استاد کو بھی لوٹا
دئیے۔ آدھے گھنٹے تک لڑائی جاری رہی۔ جو استاد نے کیا وہی شاگرد نے بھی
کیا۔۔۔ بالآخر استاد تھک ہار کر ایک جگہ لیٹ کر ہانپنے لگا تو شاگر نے بھی
لیٹ کر ہانپتے ہوئے استاد سے پوچھا۔۔۔ ’’استاد جی آج کا سبق کچھ زیادہ
مشکل نہیں تھا؟؟؟میرے ذاتی خیال میں برطانیہ میں قائم دینی مدارس اور
اسلامک سینٹر ایک محدود دائرے میں کام کر رہے ہیں اور ان کا حال ایسا ہی ہے
جیسا کہ اوپر والے قصے میں استاد اور شاگرد کا ہے۔ دونوں ہی کے لئے’’سبق‘‘
مشکل ثابت ہو رہے ہیں۔ مسئلہ تعلیم کی الگ الگ شناختوں کا ہے، عصری تعلیم
کو ایک الگ نظریے سے دیکھا جاتا ہے اور مدارس جدید علوم سے دور بھاگتے
دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے علماء علامہ اقبال کے اشعار کو تو اپنی تقاریر اور
لیکچروں کا موضوع بناتے ہیں لیکن عمل کے معاملے میں جب ستاروں پہ کمند
ڈالنے کی بات آتی ہے تو وہاں یہ کمند کہیں اور ٹوٹتی ہے۔!
تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے جدید فکری و تحقیقی تعلیم کو اپنے نصاب کا
حصہ بنایا وہ بام عروج پر پہنچیں اور جوقومیں ایک محدود دائرے میں خود کو
قید کرکے بیٹھ گئیں ان کے زوال کی داستانیں زدعام ہوگئیں۔ مذہبی تعلیم اپنی
جگہ ہے لیکن جدید عصری تعلیم کے موجودہ تقاضوں سے اسے ہم آہنگ کرنا بھی
بہت ضروری ہے۔ موجودہ دور میں اسلام پر دہشت گردی کی جو چھاپ لگائی جارہی
ہے اس سے باہر نکلنے کے لئے ایسے پُراعتماد نوجوانوں کی ضرورت ہے جو
عصرحاضر کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں جن کا ذہن محدود نہ ہو،
جو کھیل کے میدان میں جائیں تو انہیں ’’حرام اور حلال‘‘ کی بے بنیاد
کہانیاں سننے کو نہ ملیں۔ سائنس کے میدان میں انہیں یہ طعنہ نہ دیا جائے کہ
وہ غیراسلامی تحقیق کی طرف جارہے ہیں۔ ان مدارس کا ایک افسوسناک پہلو یہ
بھی ہے کہ کہا تو یہ جاتا ہے کہ یہ مکمل مسلمان پیدا کرتے ہیں لیکن معاف
کیجئے گا ان مدارس سے مسلک پروان چڑھایا جاتا ہے۔ دیوبندی، بریلوی، سلفی،
اہل حدیث ان مدارس کی پروڈکشن میں شامل ہے اور آئندہ نسلوں کے لئے یہ کس
قدر خطرناک ثابت ہوسکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔
برطانیہ میں آباد نئی نسل ان مدارس اور اسلامک سینٹروں کی وجہ سے کئی حصوں
میں تقسیم ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ بعض اوقات انتہاپسندانہ خیالات اور
سوچیں بھی ایسے محدود ماحول میں پروان چڑھنا شروع ہوجاتی ہیں جوکہ انتہائی
خطرناک سمت کی طرف اشارے ہیں۔ اس جدید ترین دور میں تعلیم کا پسماندہ معیار
ذہن کو زنگ آلود کرنے کے مترادف ہے۔ جہاں تک ہمارے سینٹرز کا تعلق ہے تو
وہ اپنے ناموں سے دوسری کمیونٹیز کے لیے نوگو ایریاز ہیں۔ ان کے دروازے
برطانوی معاشرے میں بسنے والی دیگر اقوام کے لیے تقریباً بند ہیں۔ یہی وجہ
کہ جب بین الاقوامی سطح پر کوئی ایسا واقعہ ہوجاتا ہے جیسا کہ پیرس میں ہوا
تو دوسری کمیونٹیز کے ساتھ رابطہ نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں ہماری تصویر
کو اچھے طریقے سے پینٹ نہیں کیا جاسکتا۔ اس حوالے سے دیگر معاملات میں بھی
ہماری کمیونٹی الگ تھلگ نظر آتی ہے۔ ہم اپنے سینٹروں تک محدود ہیں اور
دوسری کمیونٹیز کے ساتھ میل جول اور رابطوں کا فقدان پیدا ہورہا ہے یہ ایک
ایسا خلا ہے جو آہستہ آہستہ ایک خلیج کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایسے
حالات کی وجہ سے ہمارے اندر کسی معاشرے کا حصہ بننے اور ان میں رچنے بسنے
کی صلاحیت شدید متاثر ہو رہی ہے۔ ہماری کمیونٹی کے اندر شروع سے ہی مدارس،
مساجد اور کمیونٹی سینٹرز کا کردار وہ تاثر پیدا نہیں کرسکا جوکہ واقعی میں
ایک ایسے معاشرے میں جہاں دیگر مذاہب اور قومیں آباد ہوں ہونا چاہئے اور
بنیادی طور پر جدید ترین عصری تقاضوں سے ہم آج بھی کوسوں دور دکھائی دیتے
ہیں۔اس تحریر کو مخاصمت یا مخالفت کے زمرے میں لینے سے قبل قارئین کرام کی
توجہ اس جانب مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ بہتری کی جانب بڑھنے، درست راستہ
تلاش کرنے اور زمانے کے ساتھ ہم قدم ہونے کے لیے بحث و تمحیص کا عمل بہت
ضروری نسخہ ہے جو کسی چیز کی افادیت اور اہمیت کو بھی اجاگر کرتا ہے اور
غلطیوں کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔استاد اور شاگرد کے ہانپنے اور شاگرد کے یہ
کہنے کہ آج کا سبق کچھ زیادہ مشکل نہیں تھا، سے قبل ہمیں اچھی نیت اور
بہتر مستقبل کی امید میں اس نسخے پر عمل کرنا چاہئے۔ اسی میں ہماری بھلائی
ہے |
|