(3) فضل و رحمت کی آمد پر خوشی
کیوں کر منائی جائے؟ :-
سورۃ یونس کی آیت نمبر 58 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحمت کے نزول پر
خوشی منانے کا حکم کیوں فرمایا؟ وہ کیا سبب ہے جس کی بناء پر اللہ رب العزت
نے اس فضل و رحمت کے میسر آنے پر خوشی و مسرت منانے کا حکم فرمایا ہے؟ اس
کا جواب جاننے سے قبل یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ فضل اور رحمت کے الفاظ ایک
خاص تناظر میں بیان ہوئے ہیں۔ قرآنِ حکیم نے اس پس منظر کو متعدد آیات میں
بیان فرمایا ہے جن کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں۔
اﷲ سبحانہ وتعالیٰ مسلمانوں سے مخاطب ہو کر ارشاد فرما رہے ہیں کہ اگر تم
پر میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری کی صورت میں میرا فضل
اور رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے اکثر لوگ ماسوائے قلیل تعداد کے گمراہ ہو
جاتے اور شیطان کے پیروکار بن کر تباہ ہو جاتے۔ اگر رسول معظم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کو عالم انسانیت کی طرف مبعوث نہ کیا جاتا تو لوگوں کو
ضلالت وگمراہی اور کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر اُلوہی حق و صداقت اور
ہدایت کی روشنی سے کون مستفیض کرتا؟ اگر ہادیء برحق صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم مبعوث نہ ہوتے تو لوگوں کو ظلم، بداَمنی اور لاقانونیت کی چکی سے کون
نکالتا اور ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت کون فراہم کرتا؟ وہ ذات
گرامی جو اندھیروں میں بھٹکنے والی انسانیت کو ہدایت اِلٰہی کی روشنی میں
لائی اس کے ظہور پر بنی نوع انسان کو خوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے کہ ان
کی اس دنیائے رنگ و بو میں تشریف آوری اللہ کے فضل اور رحمت کا نتیجہ ہے،
جس پر خوشی و شادمانی منانا تقاضائے محبت و ایمان ہے۔
(4) آیت میں حصر کا فائدہ:-
آیت مذکورہ میں ’’فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ‘‘ کے معنوی رموز کو سمجھنا
ضروری ہے۔ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فخر المفسرین امام رازی (543۔ 606ھ) نے ان
الفاظ کے حصر اور اختصاص و امتیاز کو یوں واضح کیا ہے :
قوله : (فَبِذٰلِکَ فَلْيَفْرَحُوْا) يفيد الحصر، يعني يجب أن لايفرح
الإنسان إلا بذالک.
’’اﷲ تعالیٰ کا فرمان۔ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ۔ حصر کا فائدہ دے رہا ہے
یعنی واجب ہے کہ اِنسان صرف اِسی پر خوشی منائے۔‘‘
رازي، مفاتيح الغيب (التفسيرالکبير)، 17 : 117
امام رازی نے آیت مبارکہ میں معنوی حصر و اختصاص کو شرح و بسط سے بیان کرتے
ہوئے فرح یعنی خوشی و مسرت کے اظہار پر روشنی ڈالی ہے۔ اس لفظ کے دامن میں
وہ سب خوشیاں اور مسرتیں سمٹ آئی ہیں جو نہ صرف جائز ہیں بلکہ اَز رہِ حکم
اس کے منانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ اور فرمایا گیا کہ اللہ کے فضل اور
رحمت پر اظہار مسرت کرو اور اس پر خوب خوشیاں مناؤ۔
قارئین کرام! یہ اَمر ذہن نشین رہے کہ اللہ رب العزت نے ایسی خوشیاں منانے
سے منع فرمایا ہے جن میں خود نمائی اور دکھاوا ہو۔ اللہ تعالیٰ پسند نہیں
فرماتا کہ لوگ کسی دنیاوی نعمت پر اس قدر خوشی کا اظہار کریں کہ وہ آپے سے
باہر ہوجائیں اور شائستگی کی تمام حدیں پھلانگتے ہوئے انپے آپ سے بھی
بیگانہ ہوجائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَO
’’بے شک اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں فرماتاo‘‘
القصص، 28، : 76
لیکن اس کے برعکس جب اپنے فضل اور رحمت کی بات کی تو اپنے اس حکم میں
استثناء (exception) کا اعلان فرما دیا کہ اگر میرا فضل اور رحمت نصیب ہو
جائے تو پھر میرا ہی حکم ہے : فَلْيَفْرَحُواْ، یعنی کہ خوب خوشیاں منایا
کرو۔ اور وَ هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ کے ذریعہ یہ بتلا دیا کہ جو
لوگ جشنِ میلاد کے موقع پر لائٹنگ کے لیے قمقمے لگاتے ہیں، گل پاشیاں کرتے
ہیں، قالین اور غالیچے بچھاتے ہیں، جلسے جلوس اور محافل و اجتماعات کا
اہتمام کرتے ہیں، لنگر بانٹنے کے لیے کھانا پکاتے ہیں یعنی دھوم دھام سے
اِظہار خوشی کے لیے جو کچھ انتظامات کرتے ہیں وہ سب کچھ حبِ رسول صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے اظہار کے لیے کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب
ہے۔ لہٰذا ان کے یہ اَخراجات مال و دولت کے انبار لگانے اور انہیں جمع کرنے
سے کہیں بہتر ہیں۔ چنانچہ جونہی ماہِ ربیع الاول کا آغاز ہوتا ہے پوری دنیا
میں غلامانِ رسول آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں دیوانہ
وار مگن ہو جاتے ہیں، ہر طرف جشن کا سماں ہوتا ہے۔ کائنات کی ساری خوشیاں
جملہ مسرتیں اور شادمانیاں اسی ایک خوشی پر ہی قربان ہو جائیں تو بھی اس
یومِ سعید کے منانے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اس کا جواز نصِ قرآن سے ثابت ہے
اور خود اللہ رب العزت نے اس خوشی کے منانے کا نہ صرف اہتمام کیا بلکہ
مندرجہ بالا ارشادِ قرآنی کی رو سے ہمیں بھی اس نعمتِ عظمی پر خوشی منانے
کا حکم دیا۔
(5) ’’فَبِذَلِكَ‘‘ کے استعمال کی حکمت:-
اس ضمن میں اگرچہ ہم نے ’’ذَلِكَ‘‘ کے استعمال کی حکمت کے حوالے سے اوپر
ایک خاص علمی نکتہ بیان کیا ہے تاہم چند اور باتیں قابل ذکر ہیں۔ مثلًا :
قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ.
’’فرما دیجئے! (یہ سب کچھ) اﷲ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ
محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو
چاہئے کہ اس پر خوشیاں منائیں۔‘‘
يونس، 10 : 58
اگر قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُواْ کہا
جاتا تو بھی اس آیت میں مضمون اور مدعائے بیان مکمل تھا، لیکن
’’فَبِذَلِكَ‘‘ لا کر تکرار پیدا کیا گیا تاکہ کہیں باعثِ مسرت کسی اور چیز
کو نہ ٹھہرا لیا جائے اور دھیان کسی اور طرف نہ چلا جائے۔ اس سے یہ بھی
مقصود تھا کہ اُن کی ولادت کے سبب سے جو نعمتِ کبریٰ تمہیں نصیب ہوئی ہے،
خوشیاں منانے کا حکم دیتے ہوئے ہم تمہیں یہ نہیں کہتے کہ میرا شکر صرف سجدے
کر کے بجا لاؤ، صرف روزوں کی صورت میں بجا لاؤ، صدقات و خیرات کر کے میری
نعمت کا شکر بجا لاؤ۔ یہ سب طریقے بجا ہیں مگر یہ طریقے تو عام نعمتوں کے
شکرانے کے لیے ہیں۔ اس پیکر رحمت کا تمہارے پاس آنا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس
نعمت کے توسط سے ہی تو ہم نے انسانیت کو ساری نعمتیں عطا کیں، لہٰذا اس
نعمتِ عظمیٰ کے ملنے کے موقع پر تم چراغاں بھی کرو، جشن بھی مناؤ، کھانے
پکا کر غرباء و مساکین کو بھی کھلاؤ غرضیکہ جائز طریقے سے ہر وہ خوشی کرو
جو دنیا میں کسی بھی مسرت کے موقع پر کر سکتے ہو۔ گویا اللہ تبارک و تعالیٰ
کی ذات اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نعمت کے عطا ہونے پر عید اور
جشن کا ایسا سماں دیکھنا چاہتی ہے جو یہ ثابت کر دے کہ امت مسلمہ اپنے عظیم
المرتبت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت اِنتہائی جوش و خروش
اور اِہتمام کے ساتھ منا رہی ہے۔
جاری ہے--- |