ملت کو مطلوب انقلاب کی راہ
(Syed Mansoor Agha, India)
حال ہی میں ہاشم پورہ اجتماعی
حراستی قتل کیس میں فیصلے سے مسلمانان ہند میں مایوسی اوربڑھی ہے اوران کی
سمجھ میں نہیں آرہا کہ اپنے وقار رفتہ کو کس طرح بحال کریں۔ اس میں شک نہیں
سفاکیت کی یہ واردات ایک سیاسی حربہ تھا جس کا ’قومی مقصد‘ یہ تھا کہ مسلم
اقلیت کو ڈرا، دھمکا اوردباکر رکھا جائے۔ میں نے اس کو ’قومی مقصد‘ اس لئے
کہا کہ وہ پارٹیاں جو کسی بھی ریاست میں برسراقتداررہی ہیں،ان کارویہ الا
ماشاء اﷲ یہی رہا ہے۔ اس لئے یہ فیصلہ آنے پرساری پارٹیوں کو سانپ سونگھ
گیا ہے۔ آزادی کے بعد مسلمانوں کی بربادی کے لئے ملک بھر میں سینکڑوں فساد
برپا کرائے گئے ،اقلیت کی قتل گاہیں برپا کی گئیں۔ کئی کی جانچ رپورٹس سے
یہ ثابت ہوچکا ہے نقصان سرکاری مشینری کی شرارت نے پہنچایا۔مگرآج تک کسی
قصوروار کوکہیں سزا نہیں ہوئی۔ البتہ بھاگلپور کافساد ضرورایک استثناء ہے،
جس کے مجرموں کو ایک طویل مدت کے بعد نتیش سرکار میں سزا ملی۔
سوال یہ ہے کہ ہماری قوم اس گرداب سے نکلے کیسے؟ یہ بات ہم مکررعرض کرچکے
ہیں اورپھرعرض ہے کہ اپنے مسائل کا حل جب بھی سیاست میں تلاش کرنے کی کوشش
کی ،بری طرح ناکامی ہوئی۔ہاشم پورہ کے بعد بھی جو شوراٹھا ہے اس میں زور
سیاسی اقدام پر دیا جارہا ہے۔حالانکہ ہماری نظر میں اس کا علاج جذباتی فرقہ
ورانہ سیاست سے کنارہ کشی اختیارکرنے اور خاموشی سے تعلیم وتربیت پر توجہ
میں ہے۔
ابھی حال ہی میں دارالعلوم دیوبند میں رابطہ مدارس کا ایک اجلاس ہوا، جس
میں ایک فیصلہ تو یہ کیا گیا کہ مدارس جدید کاری کے نام پر امداد کے سرکاری
جال میں نہیں پھنسیں گے اور اپنی خودمختاری اورخود انحصاری کی حفاظت کریں
گے۔ یہ عزم قابل مبارکباد ہے۔ہمیں سرکاری بیساکھیوں کے بجائے اپنے بل بوطے
کھڑا ہونا چاہئے۔ ہرچند کہ مدارس میں بھی اکثر کا معیار و نظام ناقص ہے، ان
کی آمد و خرچ کا کوئی لیکھا جوکھا نہیں رکھا جاتا، بیشتر مدارس ذاتی ملکیت
کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہمارایہ مشاہدہ بھی ہے کہ جن ریاستوں میں مدارس
بورڈ کے راستے یا کسی اورطریقے سے مدرسہ تعلیم میں سرکاری مداخلت ہوئی، ان
مدارس کا کردار بدل گیا۔کلکتہ کا مدرسہ عالیہ(اب یونیورسٹی ) اس کی مثال ہے۔
رام پور کا مدرسہ عالیہ تو سرکاری انتظام میں تباہ ہی ہوگیا ہے۔ ریاستی
سرکاروں کے زیرانتظام مدارس کا معیار بد سے بدتر ہوگیا ہے۔ مدرسہ بورڈ کو
جو رقم سرکار سے ملتی ہے اسکو مافیالے اڑتے ہیں اورفرضی مدرسے دکھاکر
انتظامیہ سے رقم کی بندر بانٹ کرلیتے ہیں۔
دیوبند کے اسی اجلاس میں ایک فیصلہ یہ ہوا کہ مدارس جدید طریقہ تعلیم اور
عصری علوم کے پاس بھی نہیں پھٹکیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا مدارس کے فارغین
اگر چاہیں بھی توعصری علوم سے استفادہ حاصل نہیں کرسکیں گے حالانکہ بانی
دارالعلوم مولانا قاسم نانوتویؒ کی تلقین یہ ہے کہ مدارس سے فارغین عصری
علوم کے طرف جائیں۔ شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ دیوبندی نے بھی جامعہ
ملیہ اسلامیہ کی سنگ بنیادرکھتے ہوئے عصری علوم کے حق میں اپنا وزن ڈالا
تھا۔مولانا رابع حسنی ندوی، صدر مسلم پرسنل بورڈ و صدر مدرسین ندوۃ العلماء
لکھنؤ نے بھی آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ کی پہلی کل ہند تعلیمی کانفرنس
منعقدہ دہلی میں علوم دینیہ کے ساتھ جدید علوم کی اہمیت پر زوردیا تھا۔ ملت
کی موجودہ زبوں حالی کا حل بھی یہی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کا فکروذہن قرآن
اورسنت کے سانچے میں ڈھلا ہو اوران کے ہاتھ میں وہ ہنر ہو جس سے دنیا کو
زیر کیا جاسکے۔ جیسا کہ ہم نے اپنے ایک سابقہ کالم،’تقدیرتعلیم اورتربیت سے
بدلتی ہے ‘ میں اس طرح کی جامع تعلیم کے جنوبی ہند میں کامیاب تجربات کا
ذکر کیا تھا، کوئی وجہ نہیں کہ ہم شمالی ہند میں اس تجربہ سے فائدہ نہ
اٹھائیں اورمدارس دینیہ عصری علوم کو قابل نفریں قراردیں۔
ــجامع تعلیم ‘ یا ’انٹییگریٹد ایجوکیشن ‘کا تصور نیا نہیں۔ یہی نظام
دورقدیم میں اسلامی حکومتوں میں رائج تھا ۔ہندستان کے مدارس میں جدید علوم
شامل نصاب رہے ہیں اوران مدارس سے اعلا ترین دماغ پیدا کئے ہیں۔تاج محل اور
جامع مسجد جیسی عظیم الشان عمارتیں بناتے والے ماہرین مدارس کی ہی پیداوار
تھے۔
اجمال اس نظام کا یہ ہے کہ بچے کی تعلیم قرآن سے شروع کی جائے، جیسا کہ فی
الوقت جنوبی ہند میں رائج ہے۔اسکولوں میں ہرمسلم بچے کے لئے تجوید سے قرآن
اور عربی زبان لازمی ہیں۔ عربی قرآن کی زبان ہے۔ ساتھ ہی دنیا کی چوتھی سب
سے بڑی زبان ہے اورجن خطوں میں رائج ہے ان میں معاش کے مواقع بہت زیادہ ہیں
۔کیرالہ میں عربی کی تعلیم عام ہے۔ غیرمسلم بچے بھی عربی پڑھتے ہیں اور
خلیجی ممالک سے دولت کماکر لاتے ہیں۔ مسلم طلباء کے لئے ایک لازمی نصاب
اسلامیات کا ہے جس میں مبادیات دین ، نماز، روزہ وغیرہ فرض عبادات کے
بنیادی مسائل، سیرت النبیؐ، تاریخ اسلام ، جس میں نبیوں کے حالات، دورنبوی
ؐسے خلافت کے خاتمہ تک کی تاریخ کے اہم واقعات شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک
اہم موضوع طب و سائنس میں مسلم حکماء اور دانشوروں کی فتوحات کا بھی ہے۔
مسلمانوں کے زیرانتظام ان اسکولوں کے دروازے غیر مسلم بچوں کے لئے کھلے ہیں۔
ان کے لئے بھی ان کے مذہب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اخلاقیات کانصاب پڑھنا ضروری
ہے تاکہ جہاں ہمارے بچے اچھے باکردار مسلمان بنیں، وہیں ان کے ہم جماعت
ہندو بچے ملک کے اچھے ہندوشہری بنیں۔
جہاں تک عصری نصاب کا تعلق ہے ، اسکول اپنی پسند کے کسی ریاستی ، قومی یا
بین اقوامی بورڈ کے ساتھ الحاق کرسکتا ہے۔ مثلاً سی بی ایس سی، آئی بی، یو
کے، کیمبرج اور اوپن اسکول وغیرہ۔بعض تعلیم گاہوں میں ہائی اسکول کے بعد
مدرسہ تعلیم اورجدید تعلیم الگ الگ ہوجاتی ہیں۔مثلاًکالی کٹ کا جامعہ مرکز
ثقافتہ السنیہ ، جس میں 20ہزار سے زیادہ بچے زیرتعلیم ہیں ۔ تفسیر قرآن،
فقہ ، حدیث ، افتاء جیسے اعلا کورسوں کے ساتھ طب سائنس، آرٹس وغیرہ کے
موضوعات بھی ڈگری کورس تک پڑھائے جاتے ہیں۔ ان کورسوں کے لئے نظام الگ الگ
ہیں مگر سب ایک ہی مرکزی نظام کے تحت اور سب کی ابتدائی تعلیم ہائی اسکول
تک ایک ہے۔ جو بچے علوم دینیہ میں درک حاصل کرنا چاہیں ان کے لئے عالم
اورفاضل کا کورس ہے۔ جو جدید علوم پڑھنا چاہیں ان کے لئے ان کا نصاب ہے۔
کیا حرج ہے کہ ہمارے مدارس بھی اس نہج پر غور کریں ، ان میں بھی اس طرح
کورس ترتیب دیا جائے قرآن حفظ یا ناظرہ، عربی اورمبادیات اسلام کے بعد جو
بچے جدید تعلیم کی طرف جانا چاہیں ادھر چلے جائیں۔ آپ کالج نہیں چلانا
چاہتے نہ چلائیں، جامعہ ملیہ، مسلم یونیورسٹی اوردیگر بہت سے ادارے ان کی
جدید تعلیم کے لئے دستیاب ہیں۔
تعلیمی ادارہ قائم کرنے کے لئے پہلا اور سب سے بڑا مسئلہ زمین کا ہوتا ہے۔
اس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً اگرگنجائش ہے توزمین خریدی جائے۔ اگرآپ کی
ذاتی زمین ہے تواسکو 30 سالہ پٹے پراسکول کو دی جاسکتی ہے یا کسی سے لی
جاسکتی ہے۔ اس سے کم خرچ پر ’لینڈ یوز‘ تبدیل ہوجاتا ہے اورادارے کی منظوری
کے لئے قانونی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔زمین یا عمارت کرایہ پر بھی لی جا سکتی
ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ زمین جس کی ہے وہ اسکول میں شریک بن جائے۔
ادارہ سازی کے لئے اورسرکاری منظوری و اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ
ضروری ہے آپ کوئی رجسٹرڈ ادارہ یا انجمن قائم کی جائے۔ آپ چاہیں تو ادارہ
لمٹیڈ کمپنی کے تحت قائم کریں اور اس میں شیر ہولڈر بنالیں۔ کوئی کمپنی
بنائیں، یا ٹرسٹ بنائیں۔ سب سے محفوظ صورت ٹرسٹ کی ہے جس کو ایک اکیلا آدمی
بناسکتا ہے۔ اسی کے تحت اسکول قائم کیا جائے۔ اس کے بغیر اگراسکول قائم کیا
جائیگا تو سرکاری منظوری اورسرمایہ کا مسئلہ ہوگا۔
سرمایہ فراہمی کی بھی کئی صورتیں ہیں۔انفرادی طور سے سرمایہ لگائیں، کئی
لوگ مل کر سرمایہ کاری کریں، قرض لیں۔ ان کے علاوہ بھی کئی راستے ہیں جن سے
فنڈ مل جاتا ہے۔ مثلا اسلامک ڈولپمنٹ بنک سے قرض، امداد یا وظائف مل سکتے
ہیں۔ مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن، وزارت اقلیتی امور، وزارت فروغ انسانی
وسائل اوروقف کونسل سے بعض شرائط اورضوابط کے تحت رقم مل جاتی ہے۔
اسکولوں کے لئے ایک اہم مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ تعلیم وتربیت کا معیار کس طرح
بلند رکھا جائے۔ اس کے کئی حل ہیں۔ مثلا جنوب کے بعض ادارے رہنمائی فراہم
کرسکتے ہیں جس کو کنسل ٹنسی کہا جاتا ہے۔ تعلیم اب اعلا ٹکنالوجی کے بغیر
ممکن نہیں۔ یہ ٹکنالوجی بھی ان سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ آپ کے ادارے میں وہ
شراکت بھی کرسکتے ہیں ۔ اگر آپ شراکت نہ چاہیں توفرنچائی لے سکتے ہیں۔ اس
کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس اعلامعیارادارے کا نام آپ استعمال کرسکتے ہیں
جیسا کہ ڈی پی ایس کا ہوتا ہے۔ البتہ اسکول کا معیار اسی ادارے کی طرح اس
کی نگرانی میں برقراررکھنا ہوگا جس کی فرنچائی لی گئی ہے۔
ادارے کے قیام سے لے کر کامیابی سے چلانے تک ہر پہلو سے میں ماہرانہ مشورے
لئے ڈاکٹرممتاز احمد خاں کی تحریک پر ایک ٹرسٹ دہلی میں قائم ہوگیا ہے۔جس
کے ذمہ دار جناب کلیم الحفیظ عرف ہلال ملک ہیں۔ میسکو حیدرآباد کے ڈاکٹر
فخرالدین محمد بھی آمادہ ہیں اور جنوبی ہند کے دیگرادارے مثلا ایم ایس
حیدرآباد کے جناب عبدالطیف اوردیگر صاحبان فکر و نظر بھی چشم براہ ہیں۔
تکنیکی مشورہ کی پیش کش جناب کمال فاروقی نے بھی کی ہے جو دہلی اورامروہہ
میں تعلیمی ادارے چلارہے ہیں۔
اہم بات یہ ہے کہ جو بھی اسکول قائم ہو اس کا معیار بلند ہو۔ یہ اسی وقت
ممکن ہے جب اسٹاف اچھا ہوگا اوراسٹاف اچھا اچھی تنخواہ سے ملے گا۔ ادارے کا
خرچ چلانے کے لئے فیس معقول رکھنی ہوگی لیکن اس کا مقصد اپنی جیب بھرنا
نہیں بلکہ ادارے کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہونا چاہئے۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا
گیا داخلے کے دروازے سبھی کے لئے کھلے رکھنے ہونگے۔ طلباء اور ان کے والدین
کے ساتھ ٹیچرس کا مسلسل رابطہ بھی ضروری ہے۔ آپ جو ادارہ قائم کررہے ہیں اس
سے جو نفع حاصل ہو اس کا ایک حصہ ضرورت مندبچوں کو وظائف پر خرچ کرنا ہوگا۔
آپ کے پاس کچھ بچے ایسے بھی آئیں گے جن کا کل خرچہ اسکول اٹھائے گا۔ یہ
کارخیر ہیں۔ اس میں زکوٰۃ اورصدقات سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔ نفع کا ایک
حصہ میں اسکول کے اسٹاف کو شریک کیجئے اورایک حصہ ان لوگوں میں تقسیم
کرسکتے ہیں جنہوں نے سرمایہ یا زمین اسکول کے لئے دی ہے۔
ایک اندازہ یہ ہے جو اسکول اعلا معیار کے ہوتے ہیں ان میں داخلے کے لئے
آسودہ حال گھرانوں کے بچے بہت مل جاتے ہیں۔ آپ ان سے بھرپور فیس وصول
کرسکتے ہیں اورمالی طور سے کمزور بچوں کو راحت پہنچاسکتے ہیں۔ جنوب میں
ایسی مثالیں بہت ہیں کہ غیر مسلم بھی اپنے بچوں کو مسلم انتظامیہ والے
اسکولوں میں داخلہ دلانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوتا ہے آپ کے
زیرانتظام اسکول میں بچوں کو وہی ماحول مل جاتا ہے جس سے ان کو عملی زندگی
میں واسطہ پڑیگا۔
ایک مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ بچوں کو کس اسٹریم میں ڈالا جائے۔اور کس طرح کا
ادارہ کھولا جائے۔ میڈیکل، انجئرنگ، پیرامیڈیکل ، ایروناٹکس، آئی ٹی سی اور
ٹیچنگ لائن، وغیرہ یہ بہت سے اسٹریم ہیں جن پر علاقہ اورضرورت کے مطابق بات
کی جاسکتی ہے۔پروفیسر ڈاکٹرحسنین اورڈاکٹر منظر جمال کمپیوٹر ایجوکیشن کو
ترجیح دیتے ہیں۔ ابوصالح شریف نے پتے کی بات کہی ہے کہ ہنرمند نوجوان کے
لئے دنیا کے دروازے کھلے ہیں۔ لیکن کام پہلی منزل سے شروع ہونا چاہئے۔
ہماری فوری اوربنیادی ضرورت یہ ہے کہ ہربستی میں کم از کم ہائی اسکول تک کی
تعلیم کے ادارے بڑی تعداد میں قائم کئے جائیں۔ ان میں مسابقت ہوگی تو معیار
بھی بلند ہوگا۔اعلا تعلیم کے لئے باصلاحیت بچے بھی ملیں گے۔ اعلا تعلیم کے
ادارے جنوب میں بہت کھل گئے ہیں لیکن اہل امیدوار نہیں ملتے اوراکثر میں
سیٹیں خالی رہتی ہیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے تعلیم اب ایک انڈسٹری کی صورت لے چکی ہے۔ ہزاروں طلباء
اسی لئے غیرممالک کا رخ کرتے ہیں کہ ان کا نظام تعلیم بہتر ہے۔ کوئی وجہ
نہیں کہ ہمارے باحوصلہ اہل ثروت برادران ملت ان جیسا کارنامہ انجام دینے کے
لئے تیار نہ ہو سکیں۔ اس کالم میں مختصراً جو معلومات فراہم کی گئی ہیں ان
کے لئے ڈاکٹر فخرالدین محمد (میسکو، حیدرآباد)،جناب عبدالطیف، ایم ایس
حیدرآباد ،جناب کمال فاروقی، جناب عبدالرشید انصاری اور اپنے باحوصلہ رفیق
کار کلیم الحفیظ کے خاص طور سے شکر گزار ہیں۔ مزید تفصیلی معلومات بھی ان
اصحاب سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ رابطہ: 9818678677 پر بھی کیا جاسکتا ہے۔ |
|