وزیر اعلی میاں شہباز شریف نے
سکولز ریفارمز روڈ میپ کے نئے مرحلے "پڑھو پنجاب ۔ بڑھو پنجاب" کا اعلان
کرتے کہاہے کہ 2018ء تک صوبہ پنجاب کا ہر بچہ سکول جائے گا ۔ وزیراعلی ٗ
وزراء اور ہر سرکاری افسر ایک ایک سکول اپنائے گا۔وزیراعلی نے دو بچوں کے
داخلہ فارم پر دستخط کرکے داخلہ مہم برائے سال 2015-16کا باقاعدہ آغاز کرتے
ہوئے بچوں کو کتابیں ٗ بیگ اور سٹیشنری بھی دی۔جہاں تک اس انقلابی پروگرام
کا تعلق ہے نہایت ادب سے کہنا چاہتا ہوں کہ منظور وٹو ٗ چوہدری پرویز الہی
سے لے کر آج تک جتنے بھی وزیراعلی آئے سب کے ادوار میں ایسے انقلابی تعلیمی
پروگرام بہت جوش و خروش سے شروع ہوئے۔ کبھی نئی روشنی سکول قائم ہوئے تو
کبھی پڑھا لکھا پنجاب سکیم پر اربوں روپے تشہیرپر بے دریغ خرچ کردیئے گئے
۔نتیجہ پھر بھی وہی رہا جو پہلے تھا ۔ اس کے باوجود کہ شہباز شریف دیگر
وزرائے اعلی سے کچھ مختلف ہیں اور جو کام کرنے کاتہیہ کرلیتے ہیں اسے انجام
تک پہنچاکے دم لیتے ہیں لیکن جب تک عام آدمی کو پیٹ بھر کے روٹی نہیں ملتی
جب تک اس ملک سے بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوتی جب تک
کاروبارآسانی نہیں چلتے جب تک ہر بے روزگار شخص کو باعزت روز گار نہیں ملتا
۔جب تک بجلی گیس پٹرول اور اشیائے خوردو نوش کی قیمتیں عام لوگوں کی دسترس
میں نہیں آتیں ۔
اس وقت تک پنجاب کا ہر بچہ کیسے سکول جاسکتا ہے ۔ وزیر اعلی کا تعلق ایک
کھرب پتی خاندان سے ہے انہوں نے کبھی نہ تو بھوک دیکھی ہے اور نہ ہی کبھی
بے روزگاری ۔ لیکن جو لوگ آج کے ہوشربا مہنگائی کے دورمیں دن رات محنت کرنے
کے باوجوداپنا پیٹ نہیں بھر سکتے وہ نہ صرف صبح سے رات گئے تک مزدوری کرتے
ہیں بلکہ اپنے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لیے بچوں کو اینٹوں کے بھٹوں
ٗ موٹرسائیکل اورگاڑیوں کی ورکشاپوں ٗ ہوٹلوں میں لوگوں کے جھوٹے برتن صاف
کرنے کے لیے بھی چند سو روپے ماہانہ کے عوض ملازم کروانے پر مجبور ہیں ۔چند
دن پہلے موٹرسائیکل کو ٹھیک کروانے کے لیے ایک میکنک کے پاس پہنچا وہاں ایک
دس بارہ سال کا لڑکا موٹرسائیکل ٹھیک کررہا تھامیں نے اس سے پوچھاکہ آپ کو
استادکتنی تنخواہ دیتا ہے اس نے بتا کر میری آنکھوں میں آنسو بھر دیئے کہ
استاد روزانہ صرف 30 روپے دیتا ہے جو مہینے کے 900 روپے بنتے ہیں ۔ یہ الگ
بات ہے کہ 900میں وہ بچہ خود کیا کھاتا ہوگااور اپنے گھر کیالے کر جاتا
ہوگا ۔اس نے بتایا کہ میرا باپ پھل کی ریڑھی لگاتا ہے پھل بکے یا نہ بکے
لیکن میرے باپ کو ٹاؤن کمیٹی کو ایک سو روپے روزانہ بھتہ دینا پڑتا ہے۔ ہم
کرایے کے گھر میں رہتے ہیں جب میرے باپ کی کمائی میں گھر کے اخراجات پورے
نہیں ہوتے تو میں اور مجھ سے بھی چھوٹے بھائی ہوٹل پر چند سو روپے کے عوض
مزدوری کرنے مجبور ہیں ۔میر ی ماں بھی کوٹھیوں میں صفائی اور کپڑوں کی
دھلائی کا کام کرتی ہے ۔گھر کے تمام افراد کے کام کرنے کے باوجود گزارا پھر
بھی نہیں ہوتا۔ بچے نے بتایامیرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں بھی صاف ستھرے
کپڑے پہن کر سکول جاؤں اور جج انجنیئر پائلٹ اور فوجی افسر بنوں لیکن میرے
لیے یہ سب کچھ خواب کی باتیں ہیں۔ ایک اور25 سالہ موٹرمیکنک نوجوان سے بات
ہوئی اس نے بتایا کہ میرے والد رکشا چلاتے ہیں پہلے میں سکول جاتا تھالیکن
جب گھر کے اخراجات پورے نہ ہوئے سکول سے اٹھا کر مجھے موٹر میکنک کے پاس
بٹھادیاگیا جہاں مہینے میں مجھے300روپے ملتے تھے اب پندرہ سال بعد میری
تنخواہ چھ ہزار ہوئی ہے گھر کے اخراجات پھر بھی پورے نہیں ہوتے میری دو
بہنیں جوان ہیں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہیں ہوپاتی ۔ایک پرائیویٹ
سکول کی ٹیچر سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ مجھے صرف 3000روپے تنخواہ ملتی ہے
اس رقم میں خود کھاؤں یا اپنے بوڑھے والدین کی دیکھ بھال کروں کرایے پر
رہتے ہیں سکول کے بعد مجھے امیر لوگوں کی کوٹھیوں میں جاکر ناپسندیدہ اور
گرے ہوئے کام بھی کرنے پڑتے ہیں گزارا پھر بھی نہیں ہوتا۔ایک طرف غربت اور
بے وسائلی کا یہ عالم تو دوسری جانب پرائیویٹ سکولوں نے فروغ تعلیم کے نام
پر اندھیر مچا رکھا ہے۔ نرسری یا پریپ کے ایک بچے کی فیس دوہزار روپے اور
داخلہ ساڑھے چار ہزار روپے وصول کی جارہی ہے اگر ایک سکول ایک ہزار بچہ زیر
تعلیم ہے تو حساب لگائیں سکول مالک کی آمدنی کہاں پہنچتی ہوگی جبکہ ایک
پیسہ بھی وہ انکم ٹیکس دینے کو تیار نہیں ۔ بیکن ہاؤس ٗ ایجوکیٹر جیسے
اداروں کتنی فیسیں اور تعلیمی اخراجات ہوں گے اس کا تصور بھی مجھ جیسا عام
آدمی نہیں کرسکتا ۔ میں وزیر اعلی پنجاب سے یہ پوچھنے کی جسارت کررہاہوں
کیا ان حالات میں واقعی 2018ء تک ہر بچہ خود بخود سکول پہنچ جائے گا ۔ جس
نااہل ٗ سست اور بد عنوان بیوروکریسی کا سہارا لے کر آپ یہ خواب دیکھ رہے
ہیں ایسا خواب آپ سے پہلے کئی وزرائے اعلی بھی نہ صرف بار بار دیکھ چکے ہیں
بلکہ اربوں روپے تشہیر ی مہم پر ضائع کرکے ان اساتذہ کو بھی ذہنی مفلوج کر
چکے ہیں جن کو عارضی آسامیوں پر بھرتی کرکے یہ ڈھونگ رچا یاگیا تھا۔ کیا یہ
بات وزیر اعلی سے مخفی ہے کہ پنجاب کے آدھے سے زیادہ سرکاری سکول ٗ کالجز
بنیادی سہولتوں سے ہی محروم ہیں شاید ہی کوئی سرکاری تعلیمی ادارہ ایسا
ہوجہاں ٹیچرز کی تعداد مضامین کے اعتبار سے پوری ہو۔جہاں سکولوں پر مقامی
بدمعاشوں کا قبضہ ہو ٗ جہاں طاقتور لوگ اپنے جانور باندھتے ہوں۔ جہاں نہ
عمارت ٗنہ بیٹھے کے بینچ اور نہ بجلی کی دستیابی ہو ٗ کیا ان حالات میں ہر
بچہ سکول جاسکتا ہے ۔پھر اعداد و شمار کے مطابق اس وقت 70لاکھ تعلیم یافتہ
نوجوان ہاتھوں ڈگریاں لے کر ملازمت کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ہر
سال ایک لاکھ نوجوان ڈگریاں لے کر بے روزگارکی فوج میں مزیدشامل ہورہا ہے
۔کیا یہ بے روزگار نوجوان منفی سرگرمیوں اور جرائم پیشہ افراد کا ایندھن
نہیں بنیں گے۔ مجھے آپ کی نیت پر ہر گز شک نہیں ہے لیکن جب تک پچاس فیصد
مہنگائی اور سو فیصد بے روزگار ی کو ختم نہیں کیا
جاتا اس وقت تک تما م بچوں کو سکولوں میں لانے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا ۔ |