کراچی یونیورسٹی کا شمار ملک کی مایہ ناز یونیورسٹیوں میں
ہوتا ہے ۔اس کا وسیع تعلیمی نیٹ ورک ہے ۔28ہزار طلبہ و طالبات زیر تعلیم
ہیں اور گلگت بلتستان کے بھی ہزاروں اسٹودنٹ زیور تعلیم سے آراستہ ہو رہے
ہیں ۔ گزشتہ دنوں یونیورسٹی کے آڈیٹوریم ہال میں B.N.S.Oکی طرف سے نئے طلبہ
کے اعزاز میں" ویلکم پارٹی" اور فارغ التحصیل طلبہ کو" الوداعی پارٹی "کا
اہتمام کیا گیا تھا۔ B.N.S.Oسندہ زون کے صدر محترم اسلم انقلابی کا اصرار
تھا کہ میں اس تقریب میں شرکت کروں اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کروں ۔گزشتہ
کئی سالوں سے کراچی میں جہاں کہیں بھی B.N.S.Oکے دونوں دھڑوں کا کوئی بھی
پروگرام ہوتا ہے تو وہ احقر کو ضرور یاد کرتے ہیں ۔ کئی بار ان کے پروگرام
میں اظہار مافی الضمیر کا موقع بھی ملا۔ اب کی بار بھی اسلم انقلابی صاحب
کا کہنا تھا کہ کراچی میں مقیم گلگت بلتستان کے صحافیوں میں ہم نے اسپیچ کے
لئے آپ کو چنا ہے۔ لہذا آپ ہر حال میں اپنی شرکت لازمی بنائیں ۔
بہر صورت گلگت بلتستان یونین آف جرنلسٹ کراچی کے سنیئر نائب صدر ہونے کے
ناطے میں نے شرکت کی ٹھان لی اور اپنے دیگر دوستوں کو مطلع بھی کیا ۔ یوں
ہم وقت مقررہ پر اپنی نشست گاہوں پر پہنچ گئے ۔ ذہنی طور پر تعلیم و تربیت
، جدید نظام تعلیم، قدیم نظام تعلیم اور عصری و دینی طرق ہائے تعلیم اور ان
کے درمیان واقع گیپ کے بارے میں تیار ہو کر گیا تھا مگر مجھ سے پہلے چند
مقررین نے موضوع سے ہٹ کر چند ایسی بے ہودہ باتیں شروع کی جو کم از کم مجھ
جیسے انسان کے لئے ناقابل برداشت تھیں ۔ ان دوستوں نے انتہائی ڈھٹائی سے
اسلام اور مذہب کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور قوم پرستوں کے پلیٹ فارم سے
سوشلسٹ نظریات کی پرچار کیا۔ اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار مذہب
اور نظریہ اسلام ٹھرایا اور مذہب کو ناکام قرار دیا۔
مجھے آخر میں میر محفل محترم جناب سید حیدر شاہ رضوی سے پہلے اظہار خیال کا
موقع دیا گیا۔ میں نے خطبہ مسنونہ کے بعد فیض احمد فیض کے معروف اشعار "ہم
پرورش لوح قلم کرتے رہیں گے، جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے"سے اپنی
بات کا آغاز کیا اور تعلیم و تربیت کے حوالے سے چند رسمی باتیں کرنے کے بعد
ان اصحاب کی خدمت میں چند بے باکانہ گزارشات عرض کردیں ۔ مختصر میرا کہنا
تھاکہ B.N.F"اور B.N.S.Oپورے گلگت بلتستان کے حقوق کی بات کرتی ہے ۔ وہاں
مختلف مسالک و مذاہب اور زبان وہ تہذیب اور کلچر کے لوگ بستے ہیں ۔ آپ کے
منشور کے مطابق پورے گلگت بلتستان کے لوگ ایک قوم کی حیثیت رکھتے ہیں تو
پورے لوگوں کی بات کی جائے۔ اپنی تاریخ کے حوالے سے بات کی جائے۔ کیا آپ کو
معلوم ہے کہ گوہر آمان، صوبیدار بابر خان، قاضی عبدالرزاق، کرنل حسن ، حمید
خان اور قدم خان کون تھے۔ کسی سے نفرت و برأت کے بجائے اپنے جائز حقوق اور
آئینی تشخص کی بات کریں۔بات کو موڑ کر اور تاریخ کو جھٹلا کراپنی پسند کے
نتائج اخذ کرنا اعتدال پسندی کے خلاف ہے۔یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم منافقت
کی پالیسی اپنائیں اور منہ میں رام رام اور بغل میں چھری کا ثبوت دیں اور
قوم پرستوں کے پلیٹ فارم سے اپنے ہی مذہب و مسالک کے لوگوں پر کڑی تنقید
کریں ۔ قومی عناصر ترکیبیہ کو بیان کرنے کے بجائے سوشلسٹ نظریات کی تبلیغ
کرنا کونسا قرین انصاف ہے۔ ہم جسے مذہب پسند لوگ بھی آپ کے ہاں آتے ہیں اور
آپ سے دست محبت بڑھاتے ہیں تو آپ بجائے قریب کرنے ، گلے سے لگانے کے کیوں
ہمیں دور کرتے ہو ۔ ہمارا صرف یہ کہ ایک حلقہ نہیں کہ ہمیں صرف مسٹروںسے
واسطہ پڑتا ہے اور آپ کے ہاں آتے ہیں بلکہ ایک طبقہ ملّا والا بھی ہے۔ آپ
کے پروگرام سے اُٹھ کر اپنے حلقہ میں چلے جاتے ہیں تو ہم پر کڑی تنقید ہوتی
ہے اور خوب پھبتیاں کسی جاتیں ہیں ۔ تاہم پھر بھی ہم ملّا اورمسٹرکے درمیان
تفریق ، خلیج اور تعصب کو ختم کرنے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں اور یہاں تک
مذہب کی ناکامی کی بات ہے تو پوری دنیا پر عیاں ہے کہ مذہب کبھی ناکام نہیں
ہوا ہے۔ ہاں لینن اور مارکس کے نظریات نے 1979کو دم توڑ دیا ہے ۔دھیمے
انداز میں چینی سوشلسٹوں نے بھی روسی سوشلزم اور کمییونزم سے برأت کا
اظہار کیا ہے۔ بہر صورت ہمیں آپس میں خلیج کو بڑھانے کے بجائے اتحاد کی رسی
کو مظبوطی سے تھامنا چاہیے"۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ گلگت بلتستان کے دونوں قوم پرست دھڑے اپنے اپنے
انداز میں حقوق اور آئینی حیثیت کی بات کرتے ہیں ۔ مجھے ان دونوں دھڑوں کے
احباب و ذمہ داروں سے نیاز مندی ہے۔ اکثر ان کے ساتھ پروگرام میں شرکت کا
موقع ملتا ہے۔ 2006سے اب تک ان کے ساتھ کئی تفصیلی نشستیں رہی ہیں ۔
یہ حقیقت ہے کہ ان کے پاس علاقائی حوالے سے وسیع معلومات ہیں ۔ میری جب بھی
کسی قوم پرست رہنما سے ملاقات ہوتی ہے تو اس کو کرید کرید کر علاقے کے بارے
میں جاننے کی کوشش کرتا ہوں ۔ محترم نواز خان ناجی، نفیس بگورو، الیاس
صاحب، عابد شاہ، عبدالرازق،محترم جناب حیدر شاہ رضوی، بابا جان، بھائی
عزیزالرحمان،فیض اللہ فراق اور اسلم انقلابی اور ڈی جے مٹھل کے ساتھ جتنی
بھی نشستیں رہی ہیں بے مثال تھیں ۔ ان کے ساتھ علاقائی کلچر ، تہذیب و تمدن
، آئینی حیثیت ، جغرافیائی حیثیت اور کام کے طریق کا ر کے حوالے سے گرما
گرم بحثیں ہوتیں رہتیں ہیں ۔
نواز خان ناجی صاحب کو تو گلگت بلتستان کا انسائیکلوپیڈیا کہا جائے تو بے
جا نہ ہو گا ۔2007کو لیاقت میموریل لائبریری کے آڈیٹوریم ہال میں ان کو
تفصیل سے سننے کا موقع ملا اور مختصر سی ملاقات ہوئی ۔حیرت ہوئی کہ گوہر
آباد کے ایک ایک بستی سے واقف ہیں۔ ہماری برادری کے اندرونی مسائل و
تنازعات تک سے آگاہی رکھتے ہیں ایسے لوگ قوم پرست کہلانے کے بھرپور مستحق
ہیں ۔ کھرمنگ سے تعلق رکھنے والے سید حیدر شاہ رضوی صاحب کے جذبات اور
معلومات بھی قابل رشک ہیں ۔ قوم پرستوں میں میں نے یہ واحد آدمی دیکھا ہے
جو مذہبی تعصبات سے یکسر خالی ہے اور ہر مذہب و مسلک کے لوگوں کو برابر کا
احترام دیتے ہیں ۔ سوشلسٹ نظریات کے ناقد ہیں ۔ قوم پرستی بھی اسلام کے
حدود میں رہ کر کرنے کے خواہ ہیں ۔ حیدر رضوی صاحب نے پروگرام میں پر مغز ،
معلوماتی اور جذباتی تقریر کی اور دوران تقریر کئی دفعہ میرے خیالات کی
تائید کی اور شکریہ بھی ادا کیا ۔ پروگرام کے بعد وارفتگی سے بغل گیر ہوئے۔
ہمارے قوم پرست اور وفاق پرست دوستوں کے درمیان ایک وسیع خلیج ہے ۔ یہ ہر
گز نیک شگون نہیں بالخصوص حالیہ انتخابات کے بعد تو دوری اور عدم اعتماد کی
بھرپور فضا قائم ہوئی ہے۔ میں گلگت بلتستان کے قوم پرست اور وفاق پرست
دوستوں اور رہنمائوں سے گزارش کرونگا کہ وہ علاقے کے حوالے سے کوئی بھی
تحریک ، قدم اُٹھائے اور نعرہ لگانے اور بیان دینے اور عملی اقدام کرنے سے
پہلے علاقے کی آئینی و جغرافیائی حقیقت کو سامنے ضرور رکھیں ۔
مختصر الفاظ میں عرض ہے کہ گلگت بلتستان کے علاقے بھارت یا پاکستان کے نہیں
بلکہ متنازعہ ریاست جموں کشمیر کا آئینی اور جغرافیائی حصہ ہے۔ اس لئے کہ
یہ ایک ناقابل تردید تاریخی اور جغرافیائی حقیقت ہے ۔ تاریخ کے اوراق اس پر
گواہ ہیں ۔ پاکستان کے ہر آئین نے اس واشگاف حقیقت کو تسلیم کیا ہے۔ اس لئے
تو تینوں آئینوں میں کہیں پر بھی اس علاقے کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ موجودہ
پیکج یعنی گلگت بلتستان گورننس آرڈبھی ایک ایگزیٹوصدارتی حکم نامہ ہے ۔
اسکی کوئی آئینی حیثیت اور عدالتی تحفظ نہیں ہے۔
اقوام متحدہ میں بھی پاکستان کا کشمیر کیس ایسے حقائق پر مبنی ہے۔ پاکستان
اور آزاد کشمیر کی عدالت عظمی نے بھی اس تاریخی حقیقت کا ببانگ دھل تسلیم
کیا ہے۔20اپریل 1949والا معاہدہ کراچی بھی اس کی عکاسی کرتا ہے۔ اقوام
متحدہ کی قرار دادیں جنہیں پاکستان نے تسلیم کیا ہے انہی حقائق پر منحصر
ہیں ۔ یہاں تک کہ 1963کا پاک چین سرحدی معاہدہ بھی اسی حقیقت کو تسلیم کرتا
ہے ۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ 6دہائیوں سے پاکستان کا اصولی موقف بھی ظاہراً
یہی رہا ہے۔ کہ ریاست جموںو کشمیر کے مستقبل کا تعین کرنے کا حق صرف وہاں
کے عوام کو حاصل ہے۔ اگرچہ سابق ڈکٹیٹر نے کچھ واہیات کرنے کی کوشش کی تھی۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اسی موقف پر مبنی ہیں ۔ اسی جاندار موقف کی
وجہ سے تو سلامتی کونسل میں پاکستان کو ابتدائً حمایت حاصل رہی ہے اور یہی
حقیقت پاکستان کو بھارت پر آئینی اور اخلاقی برتری دلاتی رہی ہے۔
یہ بھی روزروشن کی طرح عیاں ہے کہ گلگت بلتستان کی آئینی و جغرافیائی حیثیت
سے قوم پرست اور وفاق پرست دونوں تذبذب کا شکار ہیں ۔ دونوں حد درجہ غلو
اور تجاوز سے کام لیتے ہیں۔ کوئی بھی واضح اور متعین پوزیشن اختیار کرنے سے
نالاں ہیں اور اپنی اپنی راگ الاپنے میں مصروف ہیں ۔ہر دو نظریہ و سوچ
رکھنے والے احباب کو مل جل کر کام کرنا چاہیئے ۔ مرکز پرستوں کو چاہیئے کہ
قوم پرستوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے ۔ انکے جائز تحفظات کو خوش دلی سے
سن لیں اور ازالہ کریں ۔ اور قوم کے ان بہترین نوجوانوں کو خس وخاشاک کی
طرح اڑ جانے سے بچائیں اور ان کو ان کا جائز مقام دیں ۔ پھر دیکھیں کہ یہ
بھپرے نوجوان کیسے آپ کے صفوں کے سپاہی بنتے ہیں ۔ ورنہ یہ کسی بھی وقت
طوفان کی طرح تمہارے کھیت و کھلیان کو بہالیں گے ۔میری ان بے ربط باتوں پر
جذبات سے ہٹ کر ٹھنڈے دل و دماغ اور سنجیدگی سے غور کریں ۔ بہر صورت ہم تو
فیض احمد فیض کے مقلد ہیں ۔
ہم پروش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پر گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
ہاں تلخی ایام ابھی اور بڑھائیں گے
ہاں اہل ستم مشق ستم کرتے رہیں گے
منظور یہ تلخی یہ ستم ہم کو گوارہ
دم ہے تو مداوالم کرتے رہیں گے
اک طرز تغافل ہے سو وہ تم کو مبارک
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے
نوٹ: یہ کالم بھی 2009کو مقامی اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ حقانی |