وقت نے ثابت کردیا کہ میرا خوف بے بنیاد نہیں تھا.بعض
اوقات ہماری چھٹی حس ہمیں آنے والے حالات سے بہت پہلے آگاہی دے دیتی ہے.ٹرن
.......ٹرن .......ٹرن تواتر سے بجتی ہوئی فون کی گھنٹی ہمیں حقیقت کی دنیا
میں واپس لے آئی.
آج مجھے اپنے خاندانی جیولرز کے پاس بھی جانا تھا.کچھ تحائف لینے تھے میٹل
جیولری میں.جیسے تیسے ٹریفک کے رش اور دھوئیں اور شور کا سامنا کرتے ہوئے
سنار کی دکان پر جا پہنچے.
عشرت بھائی! کچھ اچھا کلیکشن دکھائیے میٹل جیولری میں. ہمارے کہنے کے مطابق
ہمیں جیولری دکھانے لگے. اتنے میں کچھ اور خواتین دکان میں داخل ہوئیں
انھوں نے اسٹون رنگس دکھانے کی فرمائش کی.کچھ ہی دیر میں کاؤنٹر خوبصورت
پتھروں سے سجی کئی انگوٹھیوں سے سج گیا.
مگر یہ کیا جیسے ہی عقیق سے سجی انگو ٹھی سامنے آئی توہماری حالت پھر سے
غیر ہونے لگی.
ایسا لگا کاؤنٹر پر ہر طرف لال لال گاڑھا خون پھیلا ہوا ہے. ہماری طبیعت
خراب ہونے لگی ہم یک دم ہی بنا کچھ کہے شاپ سے باہر آگئے.
سنیے تو ایسے کیوں جا رہی ہیں آپ ........عشرت بھائی کی آواز جیسے کہیں دور
سے آرہی ہو.یک دم ہی معدوم ہوتی گئی.ہم واپس گھر نہ جانے کیسے پہنچے.
بستر پر گرتے ہی جیسے آنکھوں کے سامنے پھر سے وہی مناظر فلم کی طرح چلنے
لگے.
عتیق بھائی بابا کو عقیق سونپ کر واپس گھر روانہ ہوگئے.
جیسے ہی وہ اپنے گھر میں داخل ہوئے.انھوں نے دیکھا کہ انکی بڑی بہن نزہت
اپنی والدہ زبیدہ خاتون پر بلاوجہ برہمی کا اظہار کررہی تھیں.ان پر نظر
پڑتے ہی جیسے وہ اپنے آپے سے باہر ہو گئی.لیجیئے آگئے آپکے ہونہار
سپوت......آپا خیر تو ہے آپ اتنے غصے میں کیوں ہیں....عتیق اپنی بڑی بہن
نزہت سے مخاطب ہوئے.( یہاں ایک بات کا تذکرہ کرتے ہوئے چلیں عتیق ایک
خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے تھے.انکے والد محسن ایک بڑے میڈیکل اسٹور کے
مالک تھے. عتییق کی انکے علاوہ دو بڑی بہنیں اور بھی تھیں نزہت اور نصرت.سب
ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا تھا.کہ اچانک محسن شدید بیمار پڑگئے.کاروبار ماند
پڑگیا .جمع شدہ پیسہ علاج معالجہ میں صرف ہونے لگا.لیکن قدرت کو شاید کچھ
اور ہی منظور تھا.تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں یہاں تک کہ محسن صاحب اس
جہاں سے دوار فانی کوچ کرگئے.اب سب کچھ عتیق کے کمزور کاندھوں پر آن پڑا
تھا.شاید یہی وجہ تھی کہ انھوں نے اپنی پڑھائی بیچ میں روک دی.اب گھر اور
کاروبا ر کے ساتھ دو بہنوں کی ذمہ داری بھی انکی ہی تھی.)
میں آپ سے پوچھتی ہوں کیا ضرورت ہے کاروبار کو پھیلانےکی.آپ سب کچھ دوکان
میں لگا چکے ہیں.ہم پوچھتے ہیں کہ اس گھر میں کسی کو فکر ہے کی نہیں کہ دو
جوان لڑکیاں شادی کے لیئے گھر
میں بیٹھی ہیں.کیسے ہوگا سب ....؟؟ کیا آپ سنبھال پائیں گے سب ...وہ بھی اس
وقت جب آپ
سب لٹا کر بیٹھے ہوں.نزہت غصے میں سب تہذیب تقریبا فراموش کر چکیں
تھیں.ایسا لگتا تھا کہ
گویا کوئی آتش فشاں پھٹ گیا ہو.جس نے آس پاس کی ہر چیز جلا کر خاکستر
کردی.زبیدہ خاتون نے اپنے اکلوتے بیٹے کی سمت دیکھا.........جو گہری خاموشی
کے ساتھ بہن کے غصہ کا سامنا کر رہا تھا.پتہ نہیں کتنی دیر انکی زبان آگ
اگلتی رہی.پر انکی زباں سے ایک بھی خلاف توقع لفظ بد ادا ہوا.شفاف آنکھوں
میں پانی اور لبوں پر گہرا اور معنی خیز تبسم.زبیدہ خاتون نے اک نظر دیکھا
اور آنکھیں موند لیں .
|