خلا (افسانہ)۔

۔"اکرام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، زرا جلدی سے میرے کمرے میں آؤ"۔ شاہکار جیولرز کے مینیجر احسانی نے اتنا کہہ کر انٹر کام رکھ دیا اور اپنی نشست سے پُشت ٹکا کر شیشے کے کیبن کے پارمنتظر نظروں سے دیکھنے لگا۔

اکرام کے آتے ہی احسانی بناء توقف بولا۔ "ابھی بیگم منیبہ شوکت کا فون آیا تھا۔ وہ ساڑھے بارہ بجے تک ڈائمنڈ رِنگز دیکھنے آرہی ہے۔ کل سوئیزرلینڈ سے جو نئی کھیپ آئی ہے، اُس میں سے کوئی دس ایک کے قریب بہت ہی خُوبصورت اور قیمتی انگوٹھیاں چمکوا کر کسی اچھے سے ڈسپلے میں سجا کر تیار کرلو"۔

اکرام کی آنکھوں میں بےزاری کے تاثرات نمودار ہوئے۔ چہرے پر چھائی ہچکچاہٹ سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ اپنی بات کہنے کے لئے مناسب الفاظ کا متلاشی ہے۔ اِس سے قبل وہ کچھ کہتا احسانی بول پڑا۔ "کیا بات ہے کچھ کہنا چاہتے ہو؟"۔

۔"جی۔ ۔ ۔ ۔وہ۔ ۔ ۔ ۔بس۔ ۔ ۔ ۔احسانی صاحب کیا عرض کروں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!" اکرام قدرے جھجھکتا ہوا بولا۔ "آپ تو جانتے ہی ہیں بیگم منیبہ شوکت کتنی بدتمیز اور منہ پھٹ ہے۔ جب بھی آتی ہے سارے اسٹاف کے سامنے کھڑے کھڑے بےعزتی کردیتی ہے۔ اِتنی بدتمیزی سے بات کرتی ہے جیسے میں کوئی اُس کا زرخرید غلام ہوں"۔

احسانی کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ آئی۔ "ہاں مجھے پتہ ہے۔ لیکن منہ مانگے دام بھی تو دے جاتی ہے۔ یاد نہیں ہے پچھلی بار ڈائمنڈ نیکلیس کے بھاؤ تاؤ کیئے بغیر ہی دس لاکھ دے گئی جو اُسے ہم سات آٹھ لاکھ میں بھی دے دیتے"۔

اکرام کے چہرے پر ایک اداس سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ "جی احسانی صاحب، درست کہہ رہے ہیں آپ۔ گلے میں نیکلیس پہن کرشیشے میں دیکھ کر اتراتے ہوئے مسلسل کہے جارہی تھی کہ جب میں اِسے اپنے ڈیزائینر ڈریس کے ساتھ پہنوں گی تو کتنی خوبصورت لگوں گی"۔ اکرام کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ اب قدرے طنزیہ سی ہو چلی تھی۔

۔"ہاں دیکھو بھلا، اُسے بناء حدود و قیود کے پھیلا اپنا جسم نظر نہیں آتا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟"۔ احسانی کا لہجہ طنز سے بھرا تھا۔

۔"وہی تو۔ ۔ ۔ ۔!، جب وہ یہ بات کہہ رہی تھی میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ بھلا اِس نیکلیس میں ایسا کونسا سُرخاب کا پر جڑا ہے جو اُسے حسین و جمیل بنا دے گا۔ اِس سے بہتر تو یہ ہے کہ وہ کوئی اچھا سا فٹنیس سینٹر جوائن کرلے۔ دو تین سو پاونڈ کم ہوجائیں تو شاید کچھ بہتر بھی لگنے لگے"۔

احسانی کے حلق سے بےاختیار قہقہہ اُبل پڑا مگر اُس نے فوراً اُس کا گلا گھونٹتے ہوئے کہا۔ "دیکھو یہ تمھارا مسئلہ نہیں کہ وہ حسین لگتی ہے یا نہیں۔ تم تو بس اُس کی ایسی ایسی تعریفیں کرنا کہ اب کی بار وہ پہلے سے بھی مہنگی انگوٹھی خرید کر لے جائے"۔

۔"میری تو سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ اپنی دن بدن پھیلتی صحت کی طرف کیوں توجہ نہیں دیتی۔ اُسے کس بات کی کمی ہے۔ شاید اُسے خود بھی معلوم نہ ہو کہ اُس کے پاس کتنی دولت ہے۔ اگر کوئی اچھا سلمنگ سنیٹر جوائن کرلے تو چند ماہ میں کچھ کی کچھ نظر آنے لگے"۔ اکرام احسانی کی بات سُنی ان سُنی کرتے ہوئے بولا۔

۔"میرے سامنے تو تم نے یہ بات کردی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خبردار! اُس کے سامنے کوئی ایسی ویسی بات نہ کر بیٹھنا۔ اگر جو ناراض ہوگئی تو خوامخواہ ہم سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سے محروم ہوجائیں گے"۔ احسانی کا لہجہ قدرے تلخ تھا۔ "چلو بس اب جاؤ۔ مجھے کسی قسم کی کوئی شکایت نہ ملے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، سمجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!"۔

اکرام کیبن کا دروازہ کھول ہی رہا تھا کہ پیچھے سے احسانی کی قدرے بلند آواز سنائی دی۔ "اور ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، تمھارا لنچ بریک ایک بجے ہوتا ہے نا۔ اگر وہ کچھ لیٹ شیٹ ہو تو لنچ پر نہ نکل جانا۔ میں چاہتا ہوں کہ جب وہ آئے تو تم وہاں موجود رہو۔ یہ دوسرے سیلز پرسن اُسے ہینڈل نہ کر سکیں گے"۔اکرام نے دروازے کھول کر باہر نکلتے ہوئے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں سر ہلا دیا۔

احسانی کی ہدایات کے عین موجب سیف سے سوئیزرلینڈ سے آئی ہوئیں ہیرے کی انگوٹھیوں کا ڈبہ نکالا۔ ایک ایک انگوٹھی کو اپنے گریبان میں لٹکتے ہیرا جانچنے کے مخصوص چھوٹے محدب عدسے کو آنکھ پر لگا کر بغور دیکھنے کے بعد کوئی دس بارہ انگوٹھیاں علحیدہ کرلیں۔ ایک سیلز پرسن کو ہدایت کی وہ یہ سب انگھوٹھیاں احتیاط کے ساتھ ورک شاپ میں کاریگر سے پالش کروا لے اور کسی بہت ہی اچھے ڈسپلے باکس پر لگا کر شو کیس میں سجا دے۔

ابھی ساڑھے بارہ بجنے میں کوئی گھنٹہ بھر تھا۔ وہ کاموں میں ایسا الجھا کہ وقت کا احساس اُس وقت ہوا جب اُس کے زیرِنگرانی کام کرنے والے سیلز پرسنز نے لنچ بریک پر جانے کی اجازت طلب کی۔ اُس نے شو روم کی دیوار پر لگے کلاک پر نظر ڈالی تو ایک بج رہا تھا۔ بیگم منیبہ کا دور دور تک کوئی پتہ نا تھا۔ خُود اکرام کی آنتیں بھی مارے بُھوک کے قُل ہو اللہ پڑھ رہی تھیں۔

دوپہر کے دو بج گئے۔ پہلے دو سیلز پرسنز کے بعد دوسری دوخواتین سیلز پرسنز بھی اپنا اپنا لنچ بریک کر کے واپس آچکی تھیں۔ اکرام دل ہی دل میں بیگم منیبہ کو سلواتیں سُنا رہا تھا۔ جی تو چا رہا تھا کہ اگر سامنے آجائے تو وہ کھری کھری سنائے کہ اُس کے ہوش ٹھکانے آجائیں۔ مگر وہ اچھی طرح سے جانتا تھا کہ محض اُس کی سوچ کا زرا سا بھی اندازہ ہو جائے تو وہ احسانی سے کہہ کر اُسے کھڑے کھڑے نوکری سے نکلوا دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور وہ احسانی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، بیگم منیبہ کو دیکھتے ہی خوشامدی ٹٹو بن کر بیگم صاحبہ بیگم صاحبہ کہتا ہوا اِدھراُدھر اپنی دم ہلاتا پھرتا ہے۔ اپنی وقعت بڑھانے کے چکر میں اُسے نوکری سے فارغ کرنے میں لمحہ بھر کا بھی تامل نہ کرے۔

اچانک شو روم کے صدر دروازے سے بیگم مبینہ شوکت بھاری بھرکم وجود سنبھالے دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اندر داخل ہوتی دکھائی دی۔ اُس پر نظر پڑھتے ہی اکرام اپنی بھوک اور انتظار کی کوفت بھول گیا اور اُس کی جگہ ایک عجب سی بے چینی نے لے لی۔

اِس سے پہلے کہ اکرام اپنے سیکشن سے باہر آ کر شور روم کے دروازے پر بیگم منیبہ کو خوش آمدید کہتا، احسانی اپنے شیشے کے کیبن سے تیزی سے دوڑتا ہوا آیا اور پوری بتیسی نکال کر بولا۔ "زہِ نصیب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، بیگم صاحبہ، آپ کی آمد ہمارے شو روم کے لئے کسی اعزاز سے ہرگز کم نہیں، خوش آمدید، خوش آمدید"۔

بیگم منیبہ نے محض اپنے ہونٹوں کو بھینچ کر اُس کی ایک کان سے دوسرے کان تک پھیلی ہوئی مسکراہٹ کا مختصراً جواب دیا اور کم و بیش اُسے نظر انداز کرنے والے رویہ کے ساتھ شو روم کے اُس گوشے کی جانب دھیرے دھیرے چل دی جہاں شوکیسوں میں سجے ہیرے جواہرت جڑے زیورات کی چمک دمک آنکھوں کو خیرہ کررہی تھی۔

احسانی کی نظر بیگم منیبہ کے عقب سے نمودار ہونے والے ایک مرد پر پڑی۔ ایک بار پھر اپنے چہرے پر ایک کان سے دوسرے کان کو چُھوتی ہوئی مسکراہٹ سجا کر پُرجوش لہجہ میں بولا۔ اخاہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، تو آج شوکت زمان صاحب بھی بنفسِ نفیس تشریف لائے ہیں۔ ارے صاحب آپ کے دیکھنے کو تو ہماری آنکھیں ہی ترس گئیں"۔

احسانی کی بات سُن کر اکرام چونکا۔ "شوکت زمان۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، اوہ تو یہ صاحب ہیں بیگم منیبہ کے شوہرِنامدار"۔ منیبہ بیگم کو اپنی جانب آتے دیکھ کر آگے بڑھا اور اپنے چہرے پر خیر مقدمی مسکراہٹ سجاتے ہوئے بولا۔ "مزاج بخیر، بیگم صاحبہ۔ میں تو کب سے آپ ہی کا انتظار کررہا تھا"۔

اکرام کی بات شاید اُسے ناگوار گزری۔ چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ کر احسانی تیزی سے آگے بڑھا اور چہرے پر خوشامدی مسکراہٹ ثبت کرتے ہوئے بولا۔ "جی جی ہم سب ہی آپ کا بےتابی کے ساتھ انتظار کررہے تھے بیگم صاحبہ۔ آپ کی شخصیت ہی کچھ ایسی باغ و بہار ہے، ماشاءاللہ۔ آپ کی آمد سے ہمارے شو روم میں رونق آ گئی ہے"۔

احسانی نے بات کچھ ایسے لچھے دار انداز میں کی کہ بیگم منیبہ نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرا دی۔ احسانی نے فوراً اکرام کی طرف دیکھتے ہوئے اُسے اپنی آنکھ کا گوشہ بھینچ کر متنبہ کیا کہ وہ کوئی ایسی ویسی بات نہ کرے جس سے بیگم صاحبہ کا موڈ آف ہو جائے۔ فوراً ہی اُس نے ہیرے کی انگوٹھیوں والے ایک بڑے شو کیس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:۔ ارے بھئی، اکرام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، بیگم صاحبہ کو وہ ڈائمنڈ رِنگز دکھاؤ جو ہم نے بطورِخاص اُن کے لئے چند روز قبل ہی سوئیزرلینڈ سے منگوائی ہیں"۔

احسانی مڑا اور شوکت زمان کی جانب متوجہ ہوا جو ہال میں لگے ایک انتہائی نفیس اور آرام دہ مخملی صوفے پر بیٹھ چکا تھا۔ "ارے صاحب، آپ یہاں کہاں آن بیٹھے؟ کیا رِنگ پسند کرنے میں بیگم صاحبہ کی کوئی مدد نہ کیجئے گا؟"۔

شوکت زمان میز پر سے کوئی رسالہ اٹھا کر اُسے پڑھنے کا آغاز کرنے ہی والا تھا یکدم چونکا۔ پھر انتہائی نفیس انداز میں مسکراتے ہوئے قدرے دھیرے سے بولا۔ "احسانی صاحب، آپ تو جاتے ہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، مجھے نا تو ہیرے جواہرات سے کوئی دلچسپی ہے، نا ہی اِس بارے میں کسی قسم کی کوئی معلومات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب بھلا میں اُس کی مدد کرتا کیا اچھا لگوں گا جو دن رات ہیرے جواہرات سے ہی کھیلتے ہوئے بڑی ہوئی ہو"۔ اتنا کہہ کر وہ پھر اپنا سر جھکا کر رسالہ میں گم ہو گیا۔

۔"چلیں تو پھر میں آپ اور بیگم صاحبہ کے لئے کولڈ ڈرنکس بھیجواتا ہوں"۔ اتنا کہہ کر احسانی تیز تیز چلتا ہوا اپنے کیبن میں داخل ہوا اور انٹر کام اٹھا کرہدایات جاری کرنے لگا۔

اکرام بیگم منیبہ کو ہیرے کی انگوٹھیاں دکھا رہا تھا۔ وہ مسلسل اپنی ناک بُھوں یوں اتار چڑھا رہی تھی کہ جیسے اُسے کچھ پسند ہی نا آ رہا ہو۔ اکرام کن انکھیوں سے صوفے پر بیٹھے شوکت زمان کو دیکھے جارہا تھا۔ اُسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اِس بد مزاج، اکھڑ اور پہاڑ سی عورت کا شوہر اِس قدر نفیس، میتن اور سلجھا ہوا بھی ہوسکتا ہے۔

شوکت زمان بظاہر دیکھنے میں کوئی چالیس پینتالیس کا نظر آتا تھا۔ قدرے لمبا قد، ستواں جسم، نفاست سے سنوارے گئے گھنے چمکدار سیاہ بال جن میں کن پیٹوں اور قلموں میں کہیں کہیں سفید بال اپنی جھلک دکھا رہے تھے۔ انتہائی صاف رنگت، چوڑی پیشانی پر گہری سیاہ بھوئیں، سوچ میں ڈوبی روشن سیاہ بڑی بڑی آنکھیں، ستواں ناک اور پتلے پتلے سرُخ ہونٹوں کے درمیان گھنی پُروقار مونچھیں جن میں کہیں کہیں سے جھلکتے سفید بال اُس کی شخصیت کے وقار میں مذید اضافے کا باعث بن رہے تھے۔ گالوں پر شیو کی تازگی اور صاف رنگ کے سبب جھلکتی ہلکی سی سبزی شخصیت کو مذید نکھار رہی تھی۔ قدرے گول اور آگے سے خم کھاتی ٹھوڑی کو اُس نے اپنے بائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے تھام کر دوسرے ہاتھ سے رسالہ پکڑے ایسا پوز بنا رکھا تھا کہ دیکھنے والا اُسے کوئی انٹلیکچول سمجھ بیٹھے۔ وہ اعلیٰ تراش خراش کے ایک انتہائی نفیس سے بے داغ سفید شلوار قمیض میں ملبوس تھا۔ پاؤں میں سیاہ چمکدار چرمی پیشاوری چپل۔ یہ پیراہن نہ صرف اُس کی دلکش شخصیت سے میل کھاتا ہوا تھا بلکہ بحیثیتِ مجموعی اُس کی شخصیت کے وقار میں کماحقہ اضافے کا موجب بھی بن رہا تھا۔

۔"ارے یہ سب کیا گھٹیا چیزیں دکھا رہے ہو"۔ بیگم منیبہ کی اُکھڑی ہوئی آواز نے اکرام کو چونکنے پر مجبور کردیا۔

۔"جی بیگم صاحبہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، ارے۔ ۔ ۔ ۔، حیرت ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، آپ کو یہ انگوٹھیاں پسند نہ آئیں۔ یہ سوئیزرلینڈ کی سب سے بڑی ڈائمنڈ جیولری بنانے والی کمپنی سے منگوائی گئی ہیں۔ اِن کی کوالٹی، ڈیزائن اور مہارت کی تو دنیا بھر میں مثالیں دی جاتی ہیں" اکرام نے اُسے قائل کرنے کی خاطر پیشہ ورانہ انداز میں دلائل دیتے ہوئے کہا۔

۔"تو تمھارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مجھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنیٰ بیگم مبینہ شوکت کو اچھی اور بری ڈائمنڈ جیولری کا فرق ہی نہیں پتہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، ایک معمولی سیلز پرسن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم ہو کن ہواؤں میں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، میں ساری ذندگی ہیروں سے ایسے کی کھیلتی رہی ہوں ویسے تو شاید تم نے کبھی کنچے بھی نہ کھیلے ہوں"۔ بیگم منیبہ غصے سے لال پیلی ہوتے ہوئے گرج کر بولی۔

۔"ارے بیگم صاحبہ، آپ تو خوامخواہ ناراض ہو رہی ہیں۔ میں نے محض ایک بات ہی تو کہی تھی"۔ اکرام اُسے اِس قدر غصہ ہوتے دیکھ گھگیاتے ہوئے بولا۔

۔"تو اب تم مجھ پر الزام بھی لگاؤ گے کہ میں خوامخواہ تم پر ناراض ہو رہی ہوں۔ اُس نے خوامخواہ پر خاص زور دیتے ہوئے کہا۔

اکرام اُس کے بگڑے تیور دیکھ کر گھبرا گیا۔ اُسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے اِس بدمست عورت کو قابو کرے۔"بیگم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ صاحبہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے کہنے کا ہرگز وہ مقصد نہیں تھا جو آپ سمجھ رہی ہیں"۔

مجھے اِس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ تمھارے کہنے کا مقصد کیا تھا اور کیا نہیں۔ میں تو تمھاری بدتمیزی پر اپ سیٹ ہو رہی ہوں کہ تم نے پہلے مجھے نا سمجھ کہا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر دھڑلے سے خوامخواہ غصہ دکھانے کا الزام بھی عائد کر دیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور اب تو تم نے حد ہی کردی۔ میں اتنی نا سمجھ ہوں کہ تمھاری بکواس کو سمجھ ہی نہیں سکتی۔ میں پوچھتی ہو تمھاری جرأت کیسے ہوئی کہ تم بیگم منیبہ شوکت کے سامنے یوں بڑھ چڑھ کر باتیں بگھارو"۔ اب کی بار اُس کا غصہ اپنے عروج پر تھا اور گول پھُولا ہوا بھاری بھرکم چہرہ غصے کی شدت سے سُرخ ہو رہا تھا۔

شوکت زمان صوفے سے اٹھ کر دھیرے دھیرے چلتا ہوا اُس کی طرف آیا اور ہلکی آواز میں اُس سے مخاطب ہوا۔ "کیا بات ہے بیگم، اِس بے چارے سے ایسی کیا خطا ہوگئی جو تم اتنا بگڑ رہی ہو؟"۔

۔"دیکھو شوکت۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!" اُس کی آواز میں غُراہٹ تھی۔ "تم میرے معاملے میں ٹانگ نہ اڑاو۔ یہ دو ٹکے کا سیلزمین خود کو سمجھتا کیا ہے۔ مجھے سمجھانے چلا ہے۔ اگر آج میں نے اِس کے ہوش ٹھکانے نہ لگا دیئے تو میرا نام بھی منیبہ بیگم نہیں"۔ وہ تو جیسے کسی کو خاطر میں لانے ہی کو تیار نہ ہو۔شوکت زمان مذید کچھ کہے بغیردھیرے دھیرے قدم اٹھاتا دوبارہ صوفے پر جا بیٹھا اور اِس سارے معاملے سے لاتعلق سا ہو کر رسالے میں گم ہو گیا۔

اکرام کے چہرے پر ہوائیاں اُڑ رہی تھیں۔ اپنے زیرِ نگرانی سیلز پرسن لڑکے لڑکیوں کے چہروں کی دبی دبی مسکراہٹیں دیکھ کر بےعزتی کا احساس مذید دو چند ہورہا تھا۔

شور سُن کر احسانی اپنے کمرے سے نکلا۔ اکرام کے چہرے پر اُڑتی ہوائیوں اور بیگم منیبہ کا لال سُرخ چہرہ دیکھ کر معاملے کی نوعیت کا کچھ کچھ اندازہ تو ہو ہی گیا۔ موقعہ کی نزاکت بھانپتے ہوئے تحکمانہ لہجہ میں اکرام سے مخاطب ہوا۔ اکرام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، کیا معاملہ ہے؟ یہ بیگم صاحبہ اِس قدر ناراض کیوں ہو رہی ہیں؟"۔

۔"ارے یہ کیا بتائے گا۔ میں بتاتی ہوں احسانی تم کو۔ یہ تم نے کیسا گھٹیا سیلزمین رکھ لیا ہے؟ جسے ہائی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ہم جیسے معزز کسٹمرز سے بات کرنے تک کی تمیز نہیں۔ پچھلی بار بھی اِس نے مجھ سے بدتمیزی کی تھی۔ وہ تو اُس روز میں زرا جلدی میں تھی، اِس کی ٹھیک سے خبر نہ لے سکی۔ آج پہلے مجھے اچھی اور بری ڈائمنڈ جیولری پر لیکچر پلا رہا تھا۔ میں نے کچھ کہا تو لگا الٹا مجھ ہی پہ الزام لگانے کہ میں لاٹ صاحب پر خوامخواہ الزام لگا رہی ہوں اور مجھے اتنی بھی عقل نہیں کہ میں اُس گھامڑ کی بکواس سمجھ سکوں"۔

اِس سے پہلے کہ اکرام اپنی صفائی میں کچھ بولتا، احسانی لجاجت بھرے لہجہ میں بولا۔ "ارے بیگم صاحبہ ، لعنت بھیجیں اِس پر۔ آپ میرے کمرے میں تشریف لے چلیں۔ میں آپ کے شایانِ شان اعلیٰ ترین ڈائمنڈ رِنگز خود زاتی طور پر دکھاؤں گا۔ اِس کم ظرف کی طرف سے میں آپ سے معذرت خواہ ہوں"۔

پھرمڑ کر شعلہ بار نگاہوں اور کڑکتے لہجے میں اکرام سے مخاطب ہوا۔ "جانتے بھی ہو تم کس سے بات کر رہے ہو۔ تمھیں زرا تمیز نہیں کہ بیگم صاحبہ جیسی معزز ہستی سے کیسے بات کی جاتی ہے۔ فوراً معافی مانگو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھے تمھیں ابھی کھڑے کھڑے نوکری سے ہی نکال دینا پڑے"۔

ایک لحظہ تو اکرام کا جی چاہا کہ وہ اِسی وقت نوکری احسانی کے منہ پر دے مارے اوراُن دونوں پر لعنت بھیج کر وہاں سے روانہ ہو جائے۔ لیکن فورا ہی اُسے اپنے بیوی بچوں کا خیال آیا۔ اُسے یاد آیا کہ کتنی مشکلوں کے بعد تو اُسے یہ نوکری ملی تھی۔ اُسے اپنی پُرکشش تنخواہ اور کمیشن یاد آیا۔ ناچار آگے بڑھا تو اُس کا سامنا بیگم منیبہ کی حقارت بھری نظروں سے ہوا۔ "میں معذرت چاہتا ہوں بیگم صاحبہ اگر میری کوئی بات آپ کو ناگوار گزری ہو"۔

بیگم منیبہ نے اپنا سر جھٹک کر اُس پر ایک آخری اُچٹتی ہوئی نظر ڈالی۔ ہونٹوں پر قہر آلود مسکراہٹ کے ساتھ ایک ہلکی سی ہونہہ کی آواز برآمد ہوئی اور احسانی کے ہمراہ دھیرے دھیرے اُس کے کمرے کی جانب چل دی۔

ایک خاتون سیلز پرسن کی مدد سے اکرام ٹرالی میں انگوٹھیوں کے ڈسپلے باکس سجا کراُسے دھکیلتا احسانی کے کمرے تک لے گیا۔ دونوں نے ٹرالی سے سارے ڈسپلے ایک ایک کر کے احسانی کی بڑی سی میز پر سجا دیئے۔

۔"اکرام تم یہاں میرے پاس ٹہرو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سجیلا تم جا کر بیگم صاحبہ کے لئے اُن کی پسند کے دو لارج تندوری پیزا فوراً پیزا ہٹ سے منگوا لو اور ہاں جاتے جاتے شوکت زمان صاحب سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اندر ہی آ جائیں"۔ احسانی حسبِ عادت اپنی پوری بتیسی کی نمائش کرتے ہوئے بولا۔

۔"رہنے دو احسانی۔ بھلا وہ یہاں آ کر کیا کرے گا۔ اُسے نہ تو اِن چیزوں کی کوئی سمجھ ہے اور نہ ہی کوئی ذوق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُسے وہیں بیٹھے رہنے دو۔ وہ وہیں ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!" بیگم مبینہ نے لاپروائی کے ساتھ کہا اور پھر سامنے رکھے ڈسپلے سے ایک انگوٹھی نکال کر انگلی میں پہن کر دیکھنے لگی۔

اکرام نے سوچا کہ شاید شوکت زمان کی حیثیت اپنی مال دار بیوی کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُس نے دولت کی لالچ میں اِسے ایک موٹی آسامی جانتے ہوئے شادی کی ہو۔ ورنہ اُسے کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ اتنی پُرکشش شخصیت اور مردانہ وجاھت کا مالک ہوتے ہوئے اِس دس من کی دھوبن سے بیاہ رچاتا۔

اکرام کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب احسانی نے ڈھیر سارے چھوٹے بڑے ہیرے جڑی ایک بھدی اور موٹی انگوٹھی بیگم منیبہ کو پکڑائی اور بولا۔ "یہ انگوٹھی دیکھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے صرف اور صرف آپ کی پُروقار شخصیت ہی کو تو مدِنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی ہو۔ بخدا آپ پر بہت جچے گی"۔

بیگم منیبہ نے جیسے ہی انگوٹھی اپنی انگلی میں ڈالی، احسانی نے اُس کی شان میں وہ وہ قصیدے پڑھنا شروع کیئے کہ اکرام تو بس دم بخود کھڑا سُنتا ہی رھ گیا۔ "میں نا کہتا تھا کہ یہ انگوٹھی تو جیسے محض آپ کی دلکش شخصیت ہی کو دیکھ کر بنائی گئی ہو۔ زرا دیکھیں تو سہی ماشاءاللہ آپ کی پہلے سے ہی پُررونق شخصیت پر اِس انگوٹھی سے کیا بھرپور نکھار آ گیا ہے۔ وللہ آپ کی حسین انگلیوں میں کیسی سج رہی ہے۔ سبحان اللہ! سارے شہر میں اگر اچھی جیولری کو کوئی پرکھ سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف بیگم منیبہ ہی ہیں"۔

کچھ ہی دیر بعد بیگم منیبہ اپنے بھاری بھرکم قیمتی ڈیزائنر ہینڈ بیگ سے چیک بک نکال کر احسانی کی بتائی ہوئی رقم کا اندراج کر رہی تھی جو کہ حسبِ معمول کئی گنا زائد تھی۔ چیک کاٹ کر احسانی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔ "خیر میرا ارادہ تو کوئی بہت ہی مہنگی انگوٹھی خریدنے کا تھا لیکن کہتے تم سچ ہی ہو۔ یہ انگوٹھی میری شاندار پرسنیلیٹی سے بہت میچ کررہی ہے اور تم نے قمیت بھی اتنی کم بتائی کہ مجھ سے نا نہیں کہا گیا"۔

احسانی نے چیک پکڑتے ہوئے ایک بار اُسے غور سے دیکھا اور پھر ایک گہری کاروباری مسکراہٹ چہرے پر سجاتے ہوئے بولا۔ "جی بس ہماری تو یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہم آپ جیسے معزز کسٹمزز کو اُن کے ذوق، معیار اور پسند کی جیولری مناسب داموں پر فراہم کریں"۔

احسانی ابھی اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ کمرے کا دروازہ کھلا اور چپراسی ٹرالی دھکیلتا اندر داخل ہوا۔ ٹرالی میں رکھا بھاپ اڑاتا پیزا اور دیگر لوازمات دیکھ کر احسانی نے فورا اکرام کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "بھئی یہ سب ڈسلے پلے یہاں سے اٹھاؤ اور میز خالی کرو"۔

اکرام نے چپراسی کی مدد سے سارے ڈسپلے ٹرالی میں بھرنا شروع کردئے۔ کمرہ گرما گرم پیزا کی اشتہاہ انگیز خُوشبو سے مہک اٹھا تھا۔ اکرام کو یاد آیا کہ اُس نے تو ابھی تک کھانا بھی نہیں کھایا۔ بے اختیار اُس کی نظر گھڑی کی طرف اٹھ گئی۔ وال کلاک پر ساڑھے چار بجے کا وقت بتاتی سوئیاں اُس کا منہ چڑا رہی تھیں۔ گو کہ اِس سارے تماشے میں اُس کی بھوک تو نہ جانے کب کی مر چکی تھی البتہ پیزا کی مہک نے ناک کے رستے پیٹ میں ایک غبار سا بھر دیا۔ وہ انگوٹھیوں والی ٹرالی دھکیل کر تیز تیز چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ ہال سے گزرتے ہوئے اُس کی نظر شوکت زمان پر پڑی۔ وہ ابھی تک اپنے رسالے میں ہی گم تھا۔ اکرام اُس سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔ "ارے شوکت صاحب آپ یہیں تشریف فرما ہیں۔ وہاں احسانی صاحب نے بیگم صاحبہ اور آپ کے لئے بطورِ خاص تندوری چکن پیزا منگوایا ہوا ہے"۔

اکرام کی بات کے جواب میں شوکت زمان کچھ بولا تو نہیں البتہ اُس کے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ جھلملائی اور اُس نے بناء کچھ کہے اپنا سر نفی میں ہلا دیا اور پھر اپنے رسالے میں گم ہو گیا۔ اکرام کو وہ مسکراہٹ کچھ ایسی ہی محسوس ہوئی جیسے کوئی دیرینہ دوست اپنے سنگی ساتھی کی تکلیف اور دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ازراہِ ہمدردی مسکرا دے۔

کچھ دیر بعد بیگم منیبہ کمرے سے اپنا منہ ٹشو پیر سے پونچتی ہوئی احسانی کے ساتھ برآمد ہوئی اور شوکت زمان کی طرف دیکھے بناء ہی خارجی دروازے کی طرف دھیرے دھیرے بڑھنے لگی۔ احسانی نے اپنے مخصوص لچھے دار انداز میں اُسے الوداع کہا۔ شوکت زمان بھی اُس کے پیچھے دروازے سے باہر نکل گیا۔

اکرام کا جی اب کچھ کھانے کو بالکل بھی نا چاہ رہا تھا۔ اُس نے اپنے لئے ایک کپ چائے منگوائی اور بادل نخواستہ آنے والے گاہکوں کو ماتحت سیلز پرسنز کی مدد سے نبٹاتا رہا۔ ساڑھے سات بجے شو روم بند ہونے کا وقت ہوتے ہی سارا سامان سیف میں بند کروانے کے بعد تیر کی طرح وہاں سے باہر نکلا۔

شوم روم کی حبس ذدہ فضاء سے باہر آتے ہی اُس نے اپنی ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی اور کالر کا بٹن کھول کر چند گہرے گہرے سانس لیئے۔ ابھی چند قدم ہی چل پایا ہوگا کہ سامنے والی فٹ پاتھ سے لگی ایک نئے ماڈل کی سیاہ لمبی سی گاڑی جس کے شیشے بھی سیاہ ہو رہے تھے کی ھیڈ لائٹس ہائی بیم پر دو تین بار جلی اور بجھیں۔ اکرام نے سوچا کہ کہیں یہ اشارے اُس کے لئے تو نہیں۔ وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ہوا سڑک پار کر کے گاڑی تک پہنچا تو ڈرائیور کی جانب والی کھڑکی کا خودکار شیشہ نیچے اترنے لگا۔ اکرام یہ دیکھ کر حیران رھ گیا کہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا شخص کوئی اور نہیں شوکت زمان تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔

۔"اندر آ جاؤ"۔ شوکت زمان نے محض اتنا کہہ کر بٹن دبا دیا۔ اِس سے پہلے کے اکرام کچھ کہہ پاتا شیشہ مکمل طور پر بند ہوچکا تھا۔ وہ گھوم کر آیا، دھیرے سے دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گیا اور گاڑی چل پڑی۔

۔"پہلے تم مجھے اپنے گھر کا پتہ بتاؤ تاکہ میں تمھیں گھر ڈراپ کردوں اور راستے میں باتیں بھی ہوتی رہیں گی۔ سردست میں تم سے اپنی بیوی کی جانب سے کی گئی تمام تر بدتمیزیوں کی معذرت چاہتا ہوں"۔ شوکت زمان گاڑی کے ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتا ہوا قدرے نیچی مگر واضع آواز میں بولا۔ "مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری یہ معافی تلافی تمھارے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا مداوا نہیں ہوسکتی۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہے کہ شاید اِس سے ہم دونوں کے دل کا کچھ بوجھ ہی ہلکا ہو جائے"۔

اکرام نے اپنے گھر کا راستہ سمجھایا اور بولا۔ "ارے شوکت صاحب، بھلا اِس کی کیا ضرورت تھی"۔

۔"ضرورت!۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہوںہہ۔ ۔ ۔ ۔!!!"۔ شوکت زمان نے پہلے ضرورت پر زور دیا اور پھر ایک زہرخند مسکراہٹ کے ساتھ اُس کے ہونٹوں سے ایک ہلکی سی طنزیہ آواز برآمد ہوئی۔ "یہ سب ضرورتوں ہی کا تو کیا دھرا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! چلو تم ہی بتاؤ بھلا تمھیں کیا ضرورت پڑی تھی جو تم منیبہ اور احسانی کی وہ بیہودہ گفتگو یوں سر جھکائے خاموشی سے برداشت کرتے رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرے دوست۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔، یہ سب ضرورتوں کا رچایا ہوا کھیل ہی تو ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !" وہ ایک لمحہ کو رُکا اور ایک گہری سانس لینے کے بعد اُسے دھیرے دھیرے اپنی ناک سے خارج کرتے ہوئے بولا۔ "پہلے ضرورتوں سے ہماری شخصیت میں خلا جنم لیتا ہے۔ اُس خلا کو ہم ضرورتوں سے پُر کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جوں جوں ہم اُس خلا کو پُر کرتے جاتے ہیں وہ اور مذید وسیع تر ہوتا چلا جاتا ہے!۔ تمھیں ایک بہت مزے کی بات بتاؤ۔ جن چیزوں سے ہم اُس خلا کو پر کرنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں، کون جانے وہ ضرورتیں ہوتی بھی ہیں یا محض دل کا بہلاوا۔ ۔ ۔ ۔ !!!"۔

اکرام ہونقوں کی طرح سے شوکت زمان کو بس دیکھے چلا جارہا تھا۔ اُس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا تھا۔ بے ارادہ اُس کے ہونٹوں سے نکلا۔ "شوکت صاحب بخدا آپ کیا کہہ رہے ہیں، میری تو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا"۔

۔"چلو میں تمھیں بہت آسان انداز میں سمجھائے دیتا ہوں"۔ شوکت زمان نے ایک ہلکے سے تبسم کے ساتھ لمحہ بھر اکرام کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ "تم اور احسانی کیا سمجھتے ہو!، منیبہ جانتی نہیں کہ تم لوگ جیولری کی دوگنی تگنی قیمت وصول کرتے ہو؟"۔

۔"اوہ۔ ۔ ۔ ۔!"۔ اکرام ایک زہنی دھچکے سے دوچار ہوا۔ کچھ دیر توقف کے بعد بولا: "لیکن وہ تو کبھی اِس بات کی شکایت نہیں کرتیں اور پھر دوبارہ واپس آ کر پہلے سے بھی مہنگی جیولری کیوں خریدتی ہیں؟"۔

۔"اپنے اُسی خلا کو پُر کرنے کے لیئے"۔ شوکت زمان کے چہرے پر ایک پُراسرایت سی تھی۔ ۔"یہ آپ بار بار کس خلا کا زکر کررہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔ اکرام کے لہحے اور چہرے پر حیرت تھی۔

۔"دیکھو اکرام، یہ منیبہ جیسے لوگ اپنی شخصیت کا کھوکھلا پن، اُس کا خلا، قیمتی اشیاء مہنگے داموں خرید اپنی امارت کا ڈھندورا پیٹ کر، تو کبھی اپنے مرتبے، عہدے، علم، فن اور ہنر سے دوسروں کو بےعزت کرکے، اُن کو کمتر ظاہر کرکے، اُنہیں نیچا دکھا کر اور اُن کے منہ سے اپنے لیئے تعریفی کلمات سُن کر پُر کرنے کو کوشش کرتے ہیں۔ مہنگی چیزیں، احسانی کا خوشامدی لہجہ، شوگر کوٹڈ باتیں، اپنی تعریفیں اور تمھاری بےعزتی کر کے اُسے زہنی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ اور ایسی فضول شاپینگز تو وہ روز کیا کرتی ہے۔ اُس کی سنگھار میز کی درازوں میں رکھے جیولری باکسوں میں انگنت قیمتی زیوارت اور وسیع وارڈراب میں بیش قمیت ڈائیزائینر ملبوسات، میچنگ پرس اور جوتوں کا ایک انبار لگا ہے کہ جنھیں شاید ایک بار بھی استعمال نا کیا گیا ہو"۔

۔"کیا واقعی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔ شوکت زمان جیسا ہی وقفہ لینے کے لئے رکا اکرام بولا پڑا۔

۔"ہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! جنھیں بغیر ہاتھ پیر ہلائے، بناء کچھ کیئے، بناء کسی قابلیت و اہلیت کے باپ کا اربوں کا کاروبار، روپیہ پیسہ، بنک بیلنس اور جائیداد حاصل ہو جائے۔ جن کے پاس کرنے کو کوئی مثبت و تعمیری سرگرمی نہ ہو۔ جن کی سوچ سطحی سی ہو، تو بھلا وہ یہ نہ کریں تو اورکریں بھی کیا؟"۔

۔"تو پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ نے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منیبہ بیگم سے شادی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔ اکرام نے ججھکتے ہوئے سوال ادھورا ہی چھوڑ دیا۔

۔"اپنی ذات کے ایک بہت بڑے خلا کو پُر کرنے کے لئے کی تھی"۔

۔"کیا مطلب؟"۔

۔"مطلب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! "مطلب ہی کے تو سارے رشتے ہیں یہ دوست۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!۔ میں آج سے کوئی بیس برس پہلے منیبہ کے باپ گردیزی گروپ آف انڈسٹریز کے مالک عشرت گردیزی مرحوم کا پرائیوٹ سکریڑی ہوا کرتا تھا۔ منیبہ عشرت گردیزی کی اکلوتی اولاد تھی۔ اکلوتی ہونے کے سبب وہ گردیزی صاحب کی لاڈلی اور منہ چڑھی بھی تھی۔ اُس کے آگے پیچھے نوکروں کی ایک فوجِ ظفر موج مستعد رہا کرتی۔ لاڈ پیار نے اُسے اِس قدر بگاڑ دیا تھا کہ وہ اسکول تک جانا گوارا نا کرتی۔ گردیزی صاحب نے شہر کے نامور تعلیمی ماہرین کو بڑے بڑے مشاہروں پر گھر آ کر اُسے پڑھانے پر معمور کر رکھا تھا۔ لیکن منیبہ کو پڑھنے لکھنے سے تو جیسے اللہ واسطے کا ہی بیر تھا۔ سو اُس نے اپنی تعلیم بھی ادھوری ہی چھوڑ دی۔ وہ اگر گھر سے باہر نکلتی بھی تو صرف شاپنگ کرنے"۔ ۔"تو پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ دونوں کی شادی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟" اکرام اُس کے سانس لیتے ہی بول پڑا۔

۔"سمجھوتے کی شادی تھی"۔

۔"۔سمجھوتا، کیسا سمجھوتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔

۔"دولت کی تو گردیزی صاحب کے پاس کوئی کمی نا تھی۔ اعلیٰ ترین حکومتی ایوانوں میں اپنے اثرورسوخ کے سبب اُن کا گروپ ہر بڑا منصوبہ اور ٹینڈر ایک اشارہِ ابرو پر حاصل کرلیا کرتا۔ اُن کا بے جا لاڈ پیار اور نوکروں کی فوج منیبہ کو ایک تنکا تک اٹھانے نا دیتی۔ اِس چیز نے اِسے حد درجے کاہل اور آرام پسند بنا دیا۔ جس کے نتائج اُس کے جسم پر ظاہر ہونا شروع ہوگئے۔ لیکن اِس بات کی نہ تو کبھی منیبہ اور نہ ہی خود گردیزی صاحب نے کوئی پرواہ کی۔ حال یہ ہو گیا کہ منیبہ گوشت کے ایک پہاڑ کی شکل اختیار کر گئی۔ ایک روز گریزی صاحب نے مجھے اپنے گھر چھٹی والے دن بلوایا۔ میں حیران تھا کہ چھٹی والے روز انہوں نے مجھے کیوں بلوایا ہے۔ اپنے معمول کے مطابق وہ چھٹی کا دن آرام اور سیر سپاٹے کے علاوہ کوئی دوسرا کام کرنا ہرگز پسند نہیں کرتے تھے۔ بحرحال جب میں وہاں پہنچا تو وہ اپنی اسٹڈی میں میرے منتظر تھے۔ مجھے اپنے سامنے بیٹھا کر مخاطب ہوئے۔ " تمھاری تینوں بہنوں کی شادی کا معاملہ کہاں تک پہنچا؟۔ میرے تو وہم و گمان میں بھی نا تھا کہ وہ مجھ سے یہ بات کرنے والے ہیں۔ میں نے اُنہیں اپنی معاشی دگرگوں صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ منہ مانگے جہیز کا بندوبست نہ کرسکنے کے سبب اُن کی شادیاں کرنے سے قاصر ہوں۔ میری بات سُن کر کافی دیر تک وہ خلاؤں میں گھورتے ہوئے کچھ سوچتے رہے پھر بولے۔ "دیکھو شوکت میں تمھاری تینوں بہنوں کی شادیاں نہایت ہی شاندار طور پر کروادینے کا وعدہ کرتا ہوں اگر تم میری بیٹی منیبہ سے شادی کرلو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! کچھ دیر تو مجھے سمجھ ہی نا آیا کہ آخر گردیزی صاحب کہہ کیا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد میرے ذہن میں یہ بات واضح ہوئی کہ شاید خدا نے گردیزی صاحب کی شکل میں میری مشکلات کے حل کے لئےایک فرشتہ بھیج دیا ہے۔ منیبہ کی جسمانی حالت، اُس کے منہ پھٹ، بدتمیز و بداخلاق رویے اور مجھ سے کوئی پانچ سال عمر میں بڑے ہونے سے واقف ہوتے ہوئے بھی اپنی زندگی کے اُن مسائل جن کے حل کی امید میری تمام عمر کی محنتِ شاقہ کے بعد بھی نہ تھی۔ یوں بیٹھے بٹھائے حل ہوتے دیکھ فوری طور پر ہاں کردی۔ میری منیبہ سے شادی ہوجانے کے فوراً بعد ہی گردیزی صاحب نے اپنے وعدے کے عین مطابق میری تینوں بہنوں کی شادی دھوم دھام کے ساتھ کروائی کہ بس دنیا دیکھتی رھ گئی۔ یوں گردیزی صاحب نے اپنی اور اپنی بیٹی کی ذات کا خلا میری ضرورتوں کو خرید کر پُر کرلیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!"۔

اتنا کہہ کر شوکت زمان نے اپنا ایک ہاتھ اسٹیرینگ ویل سے اٹھا کر انگلیوں کے مدد سے پیشانی کو یوں رگڑنے لگا جیسے سر درد رفع کرنے کی کوشش کررہا ہو۔

۔"اور آپ لوگوں کے بچے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟"۔

۔"بچے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!، ہاں اگر ہمارے بچے ہوتے تو شاید کسی حد تک مداوا ہی ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!"۔ وہ قدرے دھمیے بڑبڑاتے ہوئے لہجے میں کچھ یوں بولا جیسے اکرام کے سوال کا جواب نہ دے رہا ہوں خود سے ہی ہم کلام ہو۔

۔"اوہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ دونوں بے اولاد ہیں"۔ اکرام کے لہجے میں تاسف تھا۔

۔"دنیا بھر کے ڈاکٹروں کو دکھایا۔ ہر کسی نے یہی کہا ہے کہ جب تک اُس کا وزن اِس قدر غیر معمولی طور پر بھاری رہے گا وہ ماں نہ بن سکے گی۔ میری ہزار کوششوں اور منتوں کے باوجود اُس نے اپنا وزن کم کرنے کی خود سے کوئی معمولی سی کوشش تک نہ کی۔ ہاں البتہ بڑے بڑے ڈاکٹروں سے بھاری فیسوں کے عوض مشورے کر کے وزن گھٹانے کی ادویات اور دیگر دستیاب طریقوں کا اندھا دھند و بےتحاشہ استعمال ضرور کیا۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد وہ سارا وزن بعمہ سود کے چربی کے لوتھڑوں کی صورت میں واپس اُس کے جسم پر آن وارد ہوتا"۔

۔"شوکت صاحب اگر آپ میری بات کا بُرا نا مانیں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے تو اِس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ جب آپ دونوں کے درمیان کچھ بھی نہیں پھر آپ اب تک منیبہ بیگم کے ساتھ کیوں ہیں۔ آپ تو مرد ہیں طلاق بھی دے دسکتے ہیں؟"۔

۔"نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، میں اُسے طلاق بھی تو نہیں دے سکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!"۔

۔"وہ کیوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟"۔

۔"گردیزی صاحب نے یوں تو خود ہی اپنے لاڈ پیار سے اُسے بگاڑا تھا لیکن ایک جہاندیدہ انسان ہونے کے ناطے وہ یہ بھی جانتے تھے کوئی بھی انسان اُن کی سدا کی بگڑی ہوئی اولاد کے ساتھ ذیادہ وقت گزار نہ سکے گا۔ اِسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے وہ میرے پیروں میں بہت بھاری بیڑیاں پہنا گئے"۔

۔"بیڑیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !، کیسی بیڑیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔؟"۔

گردیزی صاحب نے حق مہر تین کروڑ روپے لکھوایا۔ صرف اتنا ہی نہیں انہوں نے میرے اور میری تینوں بہنوں کے دستخط شدہ اسٹمپ پیپرز پر میری تینوں بہنوں کی شادی پر اُٹھنے والے اخراجات کی پائی پائی کا حساب جوڑ کر وہ رقم قرض کے طور پر ظاہر کر کے یہ شرط بھی عائد کردی کہ طلاق کی صورت میں، میری بہنیں اور میں اُس رقم کی ادائیگی کے زمہ دار قرار پائیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ نا اِس کے پاس اتنی رقم ہوگی اور نہ ہی یہ میری بیٹی کو کبھی طلاق دینے کا سوچ بھی سکے گا"۔

شوکت زمان کے بھینچے ہوئے ہونٹوں پر ایک اداس سی مسکراہٹ نظر آئی۔ "آج سے بیس سال پہلے میں نے اپنی ذات کا خلا گردیزی صاحب کی پیشکش سے پُر کرنے کی کوشش کی تھی۔ مجھے لگا کہ اِس ایک قربانی سے میری اور میری بہنوں کی ذات کے سارے خلا پُر ہو جائیں گے۔ کاش کہ اُس وقت میں گردیزی صاحب کی بجائے اُوپر والے کی رحمت پر توکل رکھ کر اپنے زورِبازو پر انحصار کرتے ہوئے اپنی خودی کا سودا نا کرتا تو شاید آج صورتحال قطعاً مختلف ہوتی"۔

اچانک ایک ہلکے سے جھٹکے سے گاڑی رُک گئی۔ اکرام نے چونک کر دیکھا تو اُس کا گھر آ چکا تھا۔ "آپ کا بہت بہت شکریہ شوکت صاحب"۔ اکرام گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلنے لگا۔

۔"شکریہ تو مجھے تمھارا ادا کرنا چاہیے کہ آج نہ جانے کتنے برسوں بعد کسی کو اپنے دکھ میں شریک کر کے دل پر پڑے منوں بوجھ کو ہلکا محسوس کررہا ہوں"۔ اُس نے ایک اداس سی مسکراہٹ کے ساتھ الوداعی انداز میں ہاتھ لہرایا۔ اکرام نے گاڑی کا دروازہ دھیرے سے بند کر دیا اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔
*.*.*.*.*.*.*.
جملہ حقوق بحق منصنف محفوظ ہیں - 2014

وہ اُس وقت تک کھڑا گاڑی کو دیکھتا رہا جب تک وہ سڑک پر پھیلی دھند کے غبار میں غائب نہ ہوگئی۔ اکرام کو ایسا محسوس ہوا جیسے وہ گاڑی شوکت زمان کو لئے کسی گہری و سیاہ خلا میں گم ہو گئی ہو۔

Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55064 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.