تحریک انصاف کی قومی اسمبلی، پنجاب اور سندھ اسمبلیوں سے
استعفوں کے بعد جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے صدارتی آرڈیننس کو بنیاد بنا
کر دوبارہ ان ہی اسمبلیوں میں شرکت سے جہاںایک طرف یوٹرن کا ریکارڈ ٹوٹ
گیا، وہیں ایک نئی آئینی بحث بھی چھڑ گئی ہے کہ کیا تحریک انصاف کے
اسمبلیوں میں شرکت کرنے والے ارکان کی اسمبلی رکنیت برقرار ہے یا نہیں؟
آئین کے تحت اسپیکر کو کسی ممبر کے استعفیٰ کو مسترد کرنے کا اختیار نہیں
ہے اور اگر کوئی رکن اسمبلی استعفیٰ دے تو وہ از خود منظور ہوجاتا ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان استعفیٰ دینے کے بعد اعلان کرچکے تھے کہ
اگر جوڈیشل کمیشن قائم کر دیا جائے تب بھی وہ اسمبلی میں نہیں جائیں گے اور
اگر بالفرض جوڈیشل کمیشن یہ فیصلہ سنا دے کے انتخابات میں منظم دھاندلی
نہیں ہوئی ہے، تب بھی اسمبلی میں شرکت نہیں کریں گے، ہم استعفیٰ دے چکے
ہیں۔ اس کے بعد عمران خان نے ایک یوٹرن لیا اور اپنی اعلان کردہ پالیسی میں
ایک ترمیم کر دی کہ اگر جوڈیشل کمیشن کہہ دے کہ انتخابات میں منظم دھاندلی
نہیں ہوئی ہے تو وہ اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنے کو تیار ہیں، مگر اب صرف
جوڈیشل کمیشن کے قیام کے لیے صدارتی آرڈیننس کے اجرا کو ہی عمران خان نے
گائے کی دُم بنا کر اسمبلی میں نہ صرف شرکت کی، بلکہ یہ مطالبہ بھی کر دیا
کہ سات ماہ اسمبلی سے غیر حاضری کے واجبات یکمشت ادا کیے جائیں۔
تحریک انصاف کی قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت پر ارکان
اسمبلی کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور انہیں اسمبلی میں اجنبی قرار دے
کر اسپیکر سے وضاحت مانگی گئی کہ اجنبی لوگ اسمبلی اجلاس میں کیونکر بیٹھے
ہیں؟ ارکان اسمبلی کی جانب سے اجنبی افراد کی اسمبلی میں شرکت پر اسمبلی کے
سیشن کی آئینی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں، نہ صرف اپوزیشن، بلکہ
خود حکومتی جماعت اور حکومتی اتحادی جماعت جمعیت علمائے اسلام نے بھی اس پر
شدید احتجاج کیا۔ تحریک انصاف کے اسمبلی سے استعفے کا اعلان کرنے والے رکن
قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی نے جب قومی اسمبلی میں اظہار خیال کیا تو اس
دوران جمعیت علمائے اسلام نے اسمبلی اجلاس سے واک آﺅٹ کیا۔ حکومتی وزرا نے
بھی اسپیکر سے مطالبہ کیا کہ وہ تحریک انصاف کے ارکان سے پوچھیں کہ انہوں
نے استعفے دیے تھے یا نہیں؟ لیکن اسپیکر قومی اسمبلی نے یہ آئینی ذمہ داری
پوری نہیں کی اور بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف حکومت نے مصلحت کے
تحت ایک بار پھر نظریہ ضرورت کو زندہ کردیا ہے۔اسی حولے سے ارکان پارلیمنٹ
اور آ ئینی ماہرین سے کی گئی گفتگو نذر قارئین ہے۔
حافظ حسین احمد (سیکرٹری اطلاعات جمعیت علمائے اسلام (ف)
جمعیت علمائے اسلام کے سیکرٹری اطلاعات حافظ حسین احمد نے گفتگو کرتے ہوئے
کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی استعفے دے چکے ہیں، جن کو
مسترد کرنے کا اختیار اسپیکر کو نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات واضح ہے
کہ پی ٹی آئی کے ارکان نے استعفے دے کرواپس بھی نہیں لیے، اس کے باوجود وہ
اسمبلی میں آکر بیٹھ گئے، جو غیر آئینی و غیر قانونی ہے۔ اگر ان کو اسمبلی
میں بیٹھنے کی اجازت دینی ہی تھی تو اسپیکر کی ذمہ داری تھی کہ ان سے
پوچھتے کہ آپ نے استعفے دیے ہیں یا نہیں دیے ہیں؟ اسپیکر نے یہ بھی نہیں
پوچھا اور تمام مستعفی ارکان کو اسمبلی میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ انہوں
نے استعفے واپس نہیں لیے اس کے باوجود ان کا اسمبلی میں بیٹھنا سمجھا سے
بالاتر ہے۔ ویسے بھی جب کوئی رکن اسمبلی چالیس دن تک بغیر اجازت کے اسمبلی
سے غیر حاضر رہے تو آئینی اورقانونی طور پر اس کی رکنیت خود بخود ختم
ہوجاتی ہے، لیکن پی ٹی آئی ارکان چالیس دن نہیں، بلکہ سات ماہ سے اسمبلی سے
غیر حاضر ہیں، لیکن ان کو بیٹھنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ حافظ حسین احمد نے
ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آئین اور قانون کے مطابق تو تحریک انصاف کے
ارکان کی اسمبلی ممبر شپ ختم ہوچکی ہے، کیونکہ وہ ابھی تک اپنے استعفوں پر
برقرار ہیں۔ اگر وہ یہ بھی کہہ دیتے کہ ہم سے استعفے بغیر رضامندی کے لیے
گئے ہیں، پھر تو کہا جاسکتا تھا کہ ان کی رکنیت برقرار ہے، لیکن جب ایک بار
انہوں نے استعفے دے دیے اور اپنی غیر رضامندی کی وضاحت بھی نہیں کی تو اس
کا مطلب یہی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے استعفوں پر قائم ہیں، لہٰذا ان کی
اسمبلی ممبر شپ ختم ہوچکی ہے۔ اسمبلی رکنیت کو برقرار رکھنے کا ایک ہی
طریقہ ہے کہ دوبارہ الیکشن لڑکر جیتا جائے، دوبارہ الیکشن کے بغیر اسمبلی
رکنیت حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان کا حلالہ
کیے بغیر اسمبلی میں آنا حرامہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان کے
اسمبلی میں دوبارہ واپس آنے سے اسمبلی سیشن کی آئینی حیثیت تو برقرار ہے،
لیکن اسپیکر کا عمل غیر آئینی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں حافظ حسین احمد کا
کہنا تھا کہ حکومت نظریہ ضرورت کی پیدوارا ہے۔ پہلے اس کی پیدائش سپریم
کورٹ میں ہوئی تھی اور اب اس کا جڑواں بچہ پارلیمنٹ میں ہوا ہے۔
ظفر علی شاہ (سینئر قانون دان اور رہنما مسلم لیگ (ن)
مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور سینئر قانون دان ظفر علی شاہ نے بتایا کہ آئینی
طور پر اسپیکر کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ استعفیٰ دینے والے ارکان کے
استعفوں کو مسترد کر سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ پی ٹی آئی کے مستعفی
ارکان اسمبلی میں آئے ہیں، لیکن تحریک انصاف کے ارکان اسمبلی کی ممبر شپ
برقرار نہیں ہے۔ جب تحریک انصاف کے ارکان کی ممبر شپ ہی برقرار نہیں ہے تو
اس کے باوجود ان کا اسمبلی میں آنا کس طرح درست ہوسکتا ہے؟۔ وہ مستعفی
ارکان ہےں اور پارلیمنٹ میں اجنبی ہیں اور اجنبی لوگوں کی موجودگی میں
پارلیمنٹ کا سیشن بھی غیر آئینی ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اسمبلی میں
پی ٹی آئی ارکان کو بیٹھنے کی اجازت دے کر حکومت نظریہ ضرورت کو پھر سے
زندہ نہیں کر رہی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت نظریہ ضرورت کو زندہ نہیں
کر رہی، بلکہ جو آئین کہتا ہے، اس پر عمل کررہی ہے۔ آئین کو کسی طرح کراس
نہیں کیا جاسکتا ہے۔ آئین جس چیز کی اجازت دے گا، اسی پر عمل کریں گے۔ سید
ظفر علی شاہ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے ارکان 7ماہ قبل استعفیٰ دے چکے
ہیں اور آئین کی شق 64ون اے اور ٹو اے کے مطابق جو رکن رضا کارانہ طور پر
استعفیٰ دے اور 40 دن مستقل غیر حاضر رہے تو اس کے بعد نشست خالی قرار دے
دی جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ 7مہینے تک بھی
اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق ان استعفوں کی تصدیق نہیں کرسکے، حالانکہ
استعفے رضاکارانہ طور پر دیے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے
ارکان اسمبلی میں بیٹھنے کا آئینی جواز کھو چکے ہیں۔ لہٰذا اب گزشتہ 7ماہ
کی تنخواہ اور مراعات بھی تحریک انصاف کو نہیں دی جانی چاہیے۔
فاروق ستار (رہنما متحدہ قومی موومنٹ)
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما فاروق ستار نے پی ٹی آئی کے ارکان کی پارلیمنٹ
کے مشترکہ اجلاس میں شرکت غیر قانونی وغیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا کہ
اجلاس میں جمہوریت کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ تحریک انصاف کی 7 ماہ بعد اسمبلی
میں واپسی ہوئی ہے، حالانکہ آئین کے تحت 40 روز تک اسمبلی سے غیر حاضر رہنے
والا رکن ڈی سیٹ ہوجاتا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 64 کی شق 8 کے تحت جیسے ہی کوئی
رکن پارلیمنٹ استعفیٰ دیتا ہے، وہ منظور ہوکر نافذ العمل ہوتا ہے اور یہ اس
کی آئینی حیثیت ہوتی ہے۔ فاروق ستار کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان نے
استعفے دینے کے بعد 7 ماہ تک واپس نہیں لیے اور پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس
کے چیئرمین کی حیثیت سے اسپیکر اسمبلی سردار ایاز صادق نے انہیں اسمبلی میں
آنے کی اجازت دی، لیکن انہیں اس کا صوابدیدی اختیار نہیں تھا۔ ان کا کہنا
تھا کہ جمہوریت کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے اپنی مصلحتوں کے لیے آئین کے
ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں اور آئین کا مذاق اڑایا جارہا ہے، جبکہ آئین ہمارا
تابع نہیں ہے، بلکہ ہم آئین کے تابع ہیں۔ فاروق ستارکا کہنا تھا کہ پی ٹی
آئی کے استعفوں پر وضاحت نہ ملنے تک ہم احتجاج کرتے رہیں گے اور واک آو ¿ٹ
یا بائیکاٹ سمیت احتجاج کے ہر طریقہ کو اختیار کیا جائے گا۔
زاہد خان (رہنما عوامی نیشنل پارٹی)
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما زاہد خان نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے
ارکان استعفے دے چکے ہیں، اب کسی کو یہ اختیار نہیں ہے کہ ان کے استعفوں کو
مسترد کرے۔ آئین کے آرٹیکل 64کے مطابق اسپیکر ارکان سے ان کے استعفوں کی
صرف تصدیق کرسکتا ہے، مسترد کرنے کا اختیار اسپیکر کو نہیں ہے۔ ان کا کہنا
تھا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کی اسمبلی ممبر شپ ختم ہوچکی ہے۔ قانون کے مطابق
چالیس دن اسمبلی سے غیر حاضر رہنے پر اسمبلی کی رکنیت ختم ہوجاتی ہے، جبکہ
پی ٹی آئی ارکان تو سات ماہ سے اسمبلی سے غیر حاضر ہیں، اس کے باوجود ان کا
اسمبلی اجلاس میں شرکت کرنا غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ زاہد خان کا کہنا
تھا کہ جب پی ٹی آئی کے مستعفی ارکان کی شرکت ہی غیر آئینی ہے تو اسی وجہ
سے غیر آئینی افراد کی موجودگی میں پارلیمنٹ کا اجلاس بھی غیر آئینی ہے۔ ان
کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ارکان کو دوبارہ پارلیمنٹ میں شرکت کی اجازت دے
کر حکومت نظریہ ضرورت کو زندہ کر رہی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی نظریہ
ضرورت کو زندہ کرنے میں حکومت کے ساتھ ہے، دونوں مل کر یہ کام کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت ، آئین اور قانون نظریہ ضرورت کے تحت نہیں چلتے،
جو طریقہ حکومت اور پی پی پی اختیار کر رہے ہیں وہ جمہوریت، آئین اور قانون
کے خلاف ہے۔
آفتاب احمد شیر پاﺅ (سربراہ جمہوری وطن پارٹی اور رکن قومی اسمبلی)
جمہوری وطن پارٹی کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی آفتاب احمد شیر پاﺅ نے
بتایا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے اعلانیہ استعفے دیے ہیں اور بار
بار بلائے جانے کے باوجود اسمبلی میں نہیں آئے، لیکن اب وہ سات ماہ کے بعد
اسمبلی میں آگئے ہیں، حالانکہ جو اسمبلی رکن چالیس روز تک اسمبلی میں حاضر
نہ ہو اس کی رکنیت خود بخود ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اسپیکر کو اس کا نوٹس لینا
چاہیے تھا، لیکن انہوں نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا۔ جے یو آئی نے اس حوالے
سے چیلنج کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک طرف تو اسمبلی کو جعلی
اور نقلی کہتے رہے ہیں، اس میں بیٹھنے والوں کو دھاندلی کی پیداوار کہتے
رہے ہیں اور دوسری طرف اسی ”جعلی“ اسمبلی میں آکر ”دھاندلی کی پیداوار“
ارکان کے ساتھ بیٹھ گئے، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس سے تو ان کے اپنے
قول کی نفی ہورہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جب پی ٹی آئی نے استعفے جمع کروادیے
تھے تو اسپیکر کو منظور کرنے چاہیے تھے۔ اب اسپیکر کی رولنگ متنازع ہوگئی
ہے، جس چیلنج کیا جاچکا ہے۔
کامران مرتضیٰ (سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن)
سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کامران مرتضیٰ نے بات چیت کرتے ہوئے
کہا کہ پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفیٰ دینے کے بعد کسی کو یہ اختیار حاصل
نہیں ہے کہ ان کے استعفوں کو مسترد کرے۔ اسمبلی میں بیٹھنے کی اجازت دے کے
اسپیکر اسمبلی نے غیر آئینی اور غیرقانونی کام کیا ہے۔ پی ٹی آئی ارکان کی
اسمبلی رکنیت کب سے ختم ہوچکی ہے، وہ اجنبی لوگ ہیں، لہٰذا پی ٹی آئی ارکان
نے اسمبلی اجلاس میں شریک ہوکر غیر قانونی و غیر آئینی کام کیا ہے۔ کامران
مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ اسمبلی اجلاس میں باقی دوسری جماعتوں کے ارکان کی
شمولیت تو آئینی ہے، جبکہ پی ٹی آئی ارکان کی شمولیت کی حیثیت غیر آئینی
ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی اجنبی انسان اسمبلی میں آکر بیٹھ جائے تو اس
سے اسمبلی کے اجلاس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی
ارکان کو ااسمبلی اجلاس میں شرکت کی اجازت دے کر حکومت نے نظریہ ضرورت کو
زندہ کیا ہے۔ پاکستان میں تو چلتا ہے نظریہ ضرورت ہے۔
|