بابُ المدینہ (کراچی) کے ایک اسلامی بھائی کے
تحریری بیان کا خُلاصہ ہے کہ میں کم عُمری ہی سے بُرے دوستوں کی صحبت میں
پڑ گیا ۔ اُنہوں نے مجھے اپنے رنگ میں رنگ لیا ،یوں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ
میرا کرداربگڑتا چلاگیا ۔میں اب شراب پینے لگا تھا ،ہیروئن کا نشہ بھی کرتا
تھا ۔محلے کے چند نوجوان بھی میرے پاس اُٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے نشے کی عادت
میں مبتلا ہوگئے۔ چنانچہ سارے محلہ والے مجھ سے بیزار تھے۔ اگر محلے کا
کوئی لڑکا ميرے ساتھ ہو تا تو اس کے گھر والے آکر مجھے مارتے ، گالياں بھی
ديتے اور کہتے : ''خبردار! اب ميرے بیٹے يا ميرے بھائی کو اپنے ساتھ نہ
رکھنا۔''گھر والے بھیمجھے بُرا بھلا کہتے،سمجھاتے ، مگرمیں ٹس سے مس نہیں
ہوتا تھا ۔تنگ آکر اُنہوں نے مجھے گھر سے نکال دیا کہ اس کو کچھ تو اپنی
غلطی کا احساس ہو مگرمجھے اپنی غلطی کا احساس کیونکر ہوسکتا تھا ؟میرے دل
ودماغ پر تو نشے کا سُرور چھایا ہوا تھا ۔آخر کار میری حالت ايسی ہو گئی کہ
ميں ٹھیک سے چل بھی نہيں سکتا تھا ۔فکرِ آخرت تو دُور کی بات، مجھے تو
دُنیا کی فکر بھی نہیں رہی تھی۔ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتے
کرتے شاید میں نشے کی حالت میں اس دُنیا سے رُخصت ہوجاتا مگر امیرِ اہلسنّت
دامت برکاتہم العالیہ اور دعوتِ اسلامی پر اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمتوں کا
نزول ہو کہ انہوں نے مجھے تباہی کے گڑھے سے نکال کر جنت میں لے جانے والے
راستے پرگامزن کردیا ۔
ہوا یوں کہ ايک روز ميں لڑکھڑاتا ہوا کہیں جارہا تھا کہ کسی نے بڑی نرمی سے
میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے روکا۔ ميں نے بمشکل نگاہ اٹھا کر دیکھا تو یہ بڑی
عمر کے ايک باريش اسلامی بھائی تھے جنہوں نے سفيد لباس پہنا ہوا تھا اور ان
کے سر پر سبز عمامہ بھی تھا ۔ انہوں نے انتہائی شفقت سے میری خیریت دریافت
کی۔ميں نے زندگی ميں پہلی بار ایسی اپنائیت پائی تو بڑا اچھا لگا ۔مختصر سی
گفتگو کے بعد يہ اسلامی بھائی مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور ناشتہ کرايا ۔ایسا
محبت بھرا برتاؤ تو میرے ساتھ کبھی گھر والوں نے نہیں کیا تھا ۔ ان کی
شفقتیں دیکھ کر سبز عمامے والوں کی محبت میرے دل میں گھر کرنے لگی ۔
اساسلامی بھائی نے مجھ پر اِنفرادی کوشش کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی
ماحول کی برکتوں کے بارے میں بتایا اور مجھے عاشقانِ رسول کے ساتھ مَدَنی
قافلے میں سفر کرنے کی ترغیب دلائی ۔میں پہلے ہی متأثر ہوچکاتھا لہٰذا میں
نے ہاتھوں ہاتھ مَدَنی قافلے میں سفر کرنے کی نیت کی ۔پھر میں نے مَدَنی
قافلے میں سفر بھی کیا ۔مَدَنی قافلے میں سفر کے دوران شرکائے قافلہ کے
حُسن اخلاق اور شفقتوں کی بارش نے میرے دل کی گندگی کو دھو کر اُجلا اُجلا
کردیا ۔ان کی محبتیں دیکھ کر میری آنکھیں بھیگ جاتیں کہ میں وہ بُرا بندہ
ہوں جسے اپنے گھر والے بھی قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ميں نے ان خيالات کا
اظہارجب ایک اسلامی بھائی سے کيا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مجھے اپنے سينے
سے لگا ليا کہ جس کو دنيا برا بھلا کہتی ہے دعوتِ اسلامی والے الحمد للہ
عَزَّوَجَلَّ انہيں بھی اپنے سینے سے لگالیتے ہيں ۔ محبت کے مزید جام پینے
کے لئے میں وہیں سے12 دن کیلئے مدنی قافلے ميں سفر پر روانہ ہوگيا۔ جب ميں
مَدَنی قافلے سے واپس آيا تو ميرے سر پر سبز عمامہ تھا اور جسم پر صاف
ستھرا سنّت کے مطابق سفيد لباس تھا اور چہرے پر داڑھی شريف نمودار ہوچکی
تھی۔محلے والے مجھے اس مَدَنی حلئے میں دیکھ کر حيران رہ گئے کہ يہ وہی
لڑکا ہے جس سے پورا محلہ بیزار تھا۔ میں اپنے گناہوں سے توبہ کر کے واپس
آیا تھا لہٰذا اہلِ محلّہ اور گھر والوں نے بھی مجھے قبول کر لیا ۔مَدَنی
ماحول کی مجھے ایسی برکتیں نصیب ہوئیں کہ کل جو مجھے منہ لگانے کو تیار نہ
تھے اور اپنے بچوں کو میرے پاس بیٹھنے سے روکتے تھے آج وہی لوگ اپنی اولاد
کو میری (یعنی ایک دعوتِ اسلامی والے کی) صحبت میں رہنے کی تاکید کرتے
ہیں۔دعوتِ اسلامی نے مجھے گویا نئی زندگی عطا کی ہے چنانچہ میں نے دعوتِ
اسلامی کے مَدَنی کاموں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے ۔ اللہ
عَزَّوَجَلَّ مجھے مرتے دم تک نیکی کی دعوت کی دُھومیں مچانے کی توفیق عطا
فرمائے ۔آمین
اسی ماحول نے ادنی کو اعلیٰ کر دیا دیکھو
اندھیرا ہی اندھیرا تھا اُجالا کردیا دیکھو
(ہِيروئِنچی کی توبہ، ص۲۵، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) |