عرصہ دراز تک دنیا پر راج کر نے
والی مسلم قوم آج زوال کا شکار ہوتی جارہی اور غیر مسلم قومیں متحدہ ہو کر
نہ صرف مسلموں کا دہشت گردی کے نام پر قتل عام کر رہی ہیں بلکہ اپنی فرسودہ
رسومات کو بھی ہمارے معاشرے کا حصہ بنا رہی ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
ایسا کیوں ہو رہا ہے اسکی یہی وجہ ہے آج ہم نے اپنی اسلامی اقدار کو بلا
دیا ہے اور مغربی اقوام کے کلچر کو اپنانا شروع کر دیا جس سے نہ صرف ہماری
نئی نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے بلکہ ہماری معیشت بھی متاثر ہو رہی
ہے اور ہمارا حال کچھ ایسا ہے کہ دن بدن غربت، بے روزگاری بڑھتی جا رہی،
تعلیم میں آگے جانے کی بجائے پیچھے جارہے ہیں ایک طرف تو ایسے لوگوں کی
تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن کے پاس رہنے کے لیے چھت اور دو وقت کی روٹی
بھی مہیا نہیں اور دوسری طرف ہماری قوم عیاشی کے لیے غیر اسلامی رسومات پر
کروڑوں روپے کا زر مبادلہ ڈور خریدنے اور کاغذ اڑانے میں بہا رہی ہے۔ اللہ
بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو قوم خود کو نہ بدلے یہ سب کچھ دیکھتے
ہوئے بھی ہمیں احساس نہیں ہوتا کہ ہم ایسا کیوں کر رہے ہیں کیا ہم اپنی
واپسی کا سفر بھول گئے ہیں کیا ہمیں اللہ کے سامنے کھڑے نہ ہونا ہوگا۔
ویلنٹائن ڈے کی تاریخ
14فروری کی تاریخ ایک عیسائی مبلغ ویلنٹائن کی یاد میں منائی جاتی ہے جس نے
رومن کلاڈئیس کے خلاف بغاوت کی تھی کیونکہ بادشاہ کا خیال تھا کہ اُسکی فوج
کی شکست کے اسباب میں یہ بات ہے کہ رومن نوجوان اور سپاہی محبت اور شادی کے
چکروں میں صحیح کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے لہٰذا اُس نے سپاہیوں کی شادی
پر پابندی لگا دی۔ ویلنٹائن نے اس کے خلاف بغاوت کی کہا جاتا ہے اسکو
گرفتار کیا گیا اور 14فروری موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اور وہاں کے عیسائی
پوپ نے 14فروری کو ویلنٹائن ڈے سے موسوم کیا اس کے علاوہ رومن کے ہاں روایت
تھی 14 فروری کو رومن خداﺅں کی ملکہ جو نوجو کہ عورتوں اور شادی کی دیوی
تھی کی یاد میں منایا جاتا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس کو کیوں
منائیں اُن کے لیے تو اہم دن ہوگا لیکن ہمارے لیے اس میں کیا اہمیت ہے سب
سے پہلے تو ہم اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہم ہیں کون اور ہمارے لیے پیروی کس کی
کیا ہمارے پاس کوئی تہذیب نہیں، کوئی کلچر نہیں کوئی تاریخ نہیں ہمارے پاس
عظمت کے کوئی نشان نہیں کہ ہم دوسری قوموں کے نقش قدم پر چلیں جس چیز کے
لیے منایا جاتا ہے پہلے تو یہ دیکھنا ہے چاہے کہ اسلام میں اس کی کیا حقیقت
ہے۔ شادی کے بغیر لڑکی لڑکے کی محبت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ قرآن پاک میں
صاف طور پر منع کیا گیا ہے" پاکدامن بننے والیاں، نہ بدکاری کرنے والیاں،
اور نہ چھپے دوست بنانے والیاں (النسائ۔25 ) یعنی مسلمان عورتوں کی وفاداری
اور محبت اپنے شوہروں کے سوا دوسروں کے لیے نہیں ہوا کرتی اسکا انجام کیا
ہوتا ہے بسا اوقات ساری زندگی ندامت اور اذیت میں گزرتی ہیں جس میں وہ اپنے
شوہر کی خیانت کی مرتکب ہوتی ہیں اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب شوہر کو
پتہ چلتا ہے ہماری بیوی ہماری وفادار نہیں یہ ہم سے پہلے کسی اور کی آنکھ
کا تارا رہی ہے تو شوہر کے دل سے اس کی قدر، عزت، محبت ختم ہو جاتی ہے عورت
کے پاس سب سے زیادہ قیمتی چیز اس کی عزت و عصمت ہی ہے عورت کو اسلام میں
بہت عزت کی نظر سے دیکھا گیا ہے وہ کوئی بےکار سی چیز نہیں کہ ہر ایک کے دل
لبھانے کا سامان بنے۔
بسنت کی تاریخ
بسنت کے بارے میں آتا ہے کہ یہ ہندوؤں کا تہوار ہے اور اس کو منانے کے لیے
ہمارے ہاں ہر سال مختلف طریقے اپنائے جاتے ہیں مثلا ً دعوتیں کی جاتیں ہیں
بڑے بڑے ہوٹلوں میں جگہیں بک کروائی جاتی ہیں مؤرخ ڈاکٹر بی ۔ایس مور اپنی
کتاب punjab under the later Mughals میں لکھتے ہیں کہ حقیقت رائے نامی
سیالکوٹ کے ایک کھشتری کا لڑکا تھا اُس نے نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی شان میں سخت نازیبا الفاظ استعمال کیے اور
جرم میں اس کو گرفتار کر لیا اور عدالت نے اُسکو سزائے موت کی سزا سنائی اس
واقعہ سے پورے پنجاب کے سارے غیر مسلموں کو شدید دھچکا لگا، کچھ ہندو اُس
وقت کے پنجاب کے گورنر کے پاس گئے کہ اس کو معاف کر دیا جائے لیکن انہوں نے
کوئی سفارش نہ سنی اور مجرم کو ایک ستون سے باندھ کر کوڑوں کی سزا دی گئی
اور اُسکی گردن اڑا دی گئی جس پر پنجاب میں ساری غیر مسلم برادری نوحہ کناں
رہی۔ حقیقت رائے نامی یہ اس مجرم کی یادگار کھوجے شاہی لاہور میں ہے جو
باوے دی مڑی کے نام سے مشہور ہے۔ ایک ہندو رئیس نے اُسکی یاد میں بسنت میلے
کا آغاز کیا جسکی یادگار بھی اس علاقے کے قبرستان موجود ہے اس کتاب کے صفحہ
299 پر لکھا ہے کہ پنجاب کا بسنت میلہ حقیقت رائے گستاخ رسول کی یاد میں
منایا جاتا ہے۔ جب بھی ہم کوئی کام کرتے تو اس لیے کرتے ہیں کہ سب کر رہے
ہیں اور ہمارا کرنا بھی درست ہے بہرحال سوچنے کی بات کسی کی پیروی کرنے سے
پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ کوئی کدھر جا رہا ہے اور کیوں جا رہا ہے کیونکہ
قیامت کے دن انسان انہی کے ساتھ ہوگا جن کا پیروکار اور ساتھی ہوگا۔ تاہم
ایک مومن کے لیے ضروری ہے وہ اسلامی دائرہ کار میں رہ کر زندگی بسر کرے نہ
غیر مسلم کلچر کو فیشن کے طور استوار کرے یہی کامیاب زندگی کا راز ہے۔ |