یوم محبت, ویلنٹائن ڈے

اکیسویں صدی کے معلوماتی طوفان نے اگر ایک طرف جغرافیائی سرحدوں کی وقعت ختم کردی ہے تو دوسری طرف تہذیبوں کے ادغام بھی اپنے رنگ دکھلا رہے ہیں، افراد نہ چاہتے ہوئے بھی کسی نہ کسی طور گرگٹ کیطرح رنگ بدلتی دنیا کے چکا چوند کر دینے والے شاہکاروں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جبکہ نوجوان ِ عالم کسی بھی یکسانیت کے چھٹکارا حاصل کرنے کے نت نئے طریقے دریافت کرنے میں پیش پیش ہیں۔

ہر معاشرہ، قوم اور تہذیب اپنے مخصوص طریق زندگی سے شناخت کیے جاتے ہیں اور یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ اِدغام تہذیب دوسروں کو متاثر کیے بغیر رہے جبکہ ان رجحانات میں کسی بھی مثبت یا منفی محرک کی کوئی تخصیص نہیں اور جس طرح ہر اچھا رنگ دیکھنے والے کو بھلا معلوم ہوتا ہے اسی طرح ہر اچھا رحجان اپنے اندر جاذب پہلو رکھتا ہے، جبکہ اس سے مرعوب ہونے والے کسی بھی علاقائی، تمدنی اور تہذیبی تقسیم سے بالاتر ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ ٹیکنالوجی اور جدت کے ثمرات سے تو ہر کوئی فیض یاب ہونا پسند کرتا ہے چاہے اسکا مؤجد اور ماخذ کچھ بھی ہوں مگر یہ تضاد کیوں ہے کہ کسی بھی رجحان کو کڑے پیمانے سے گزارا جائے؟ معاملات اچھے اور برے دونوں رخ رکھتے ہیں تو یہ بات اپنی جگہ ایک علیٰحدہ اہمیت رکھتی ہے مگر دنیا کا کونسا ایسا معاملہ ہے کہ اس معیار سے ہٹ کر ہو، اب اگر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے لاتعداد فوائد ہیں تو اسکے مضمرات بھی کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ البتہ یہ بات واقعی اہم ہے کہ کسی بھی قوم کی تقلید کرتے وقت اپنے عقائد کی حدوں کی حفاظت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جائے کہ کوئی مثبت رجحان اپنی اصلیت نہ کھو بیٹھے اور پس پشت ڈال دیا جائے۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں اس میں آج تک “محبت” کو اپنی اپنی علیحدہ رنگ کی عینک لگا کر دیکھا گیا ہے، اور چاہنے والوں کو کبھی سراہا نہیں گیا مگر داستان عشق و محبت کے گیت ضرور گائے جاتے ہیں۔ ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، سسی پنوں، لیلیٰ مجنوں کی داستانیں بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں مگر کسی کو لیلیٰ اور مجنوں کے روپ میں دیکھنا پسند نہیں کیا جاتا، اور جب وہ معصوم کلیاں جو ان داستانوں کی چھاؤں میں کھلتی ہیں اور اظہار محبت کی جرات کرتی ہیں تو یہی معاشرہ اپنا دوسرا چہرہ دکھاتا ہے اور وہ رنگ چڑھتا ہے کہ زمانہ دیکھتا ہے۔

وہ افراد جو اپنی جوانی میں ہر ترنگ سے گزرے ہوتے ہیں اب بڑھاپے میں “قیدو” کا کردار ادا کرتے ہیں، اب اگر کوئی اس قابل نہیں رہا کہ زندگی کی ہر دوڑ میں شامل ہو سکے تو اس میں یہ حوصلہ تو ہونا چاہیے کہ دوسروں کی خوشیوں کا خون نہ کرے، البتہ نہ تو یہ ممکن ہوا کہ کسی بھی صحت مند معاشرے کے محرکات منفی رحجان رکھتے ہوں اور نہ ہی کسی کو اتنی آزادی میسر ہوئی ہے کہ جو من میں آئے کرتا پھرے۔

ایک وہ محبت ہے جو انسانی فطری تقاضا اور صحت مند جذبے کا عمل ہے اور غیر ارادی طور پر ہوجاتی ہے دوسری وہ محبت ہے جو کسی کو پسند کرنا، چاہنا اور پھر اس کو شریک حیات بنانے کی تمنا کرنا سے متعلق ہوتی ہے، یہ دونوں تقاضے فطری ہیں اور دونوں کے ماخذ جدا ہیں۔ پہلا عمل تو ایک روحانی جذبے سے سرشار ہے اور جب وقوع پاتا ہے تو مجاز سے حقیقت کی طرف لوٹتا ہے، جبکہ دوسرا عمل ایک انسانی ضرورت اور بھوک ہے جو اسے جسمانی تعلق، قربت کیطرف لیجاتی ہے اور نتیجہ میں انسانی نسل کی گروتھ واقع ہوتی ہے، لہٰذا دونوں کو مدغم نہیں کرنا چاہیے۔

اب اکثر ایسے بھی ہوتا ہے کہ جسے ہم محبت کا نام دیتے ہیں بعض اوقات صرف ایک جنسی جذبے کی تسکین حد تک پہنچتے ہی اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے جبکہ جذبہ قلبی اور روحانی نشوونما کے زمن میں محبت اپنا سفر کرتی ہے اور محبوب ِ مجازی سے حقیقی کی طرف گامزن ہو جاتی ہے، یہاں میرا محبت کے بارے میں لکھنے کا نقطہ نظر ایک سچائی کو تسلسل میں لانا اور انسانی صحت مند جذبے کو آشکار کرنا ہے جو کہ اس دنیا کے بے جان، جاندار ذرات کو بھی جکڑے ہوئے ہے۔

محبت کا جذبہ منازل سلوک میں “تصور شیخ” سے ابتدا کرتا ہے، جبکہ غیر ارادی طور پر کسی بھی مجاز سے شروع ہو جاتا ہے اور اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے حقیقت میں کھو جاتا ہے، یہ ایک ایسا ہی عمل ہے جیسے چشمہ ایک بار نکل پڑے پانی تو اپنا سفر شروع کر دیتا ہے اور آخر سمندر میں جا کر اپنا وجود کھو دیتا ہے، البتہ ہر فرد اس طبیعت کا نہیں کہ اس محبت سے عشق کا سفر کرے بلکہ بعض تو اسے خلل ذہنی سے بھی پکارتے ہیں، البتہ اگر کسی شے کی حقیقت کو جاننا مقصود ہو تو اسے کر گزرو جو کہ ایسا عمل جیسے پہلی بار پانی کا نام سننا اور اسکی لذت کو مان لینا یا نہ ماننا، دوسرے مرحلے میں پانی کو دیکھ لینا اور اسکی لذت کو ماننا یا نہ ماننا اور تیسرے مرحلہ میں پانی کو پی لینا۔
بقول میاں محمد بخش صاحب
جنا تنا وچ عشق نہ رچیا کتے اس تی چنگے

یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کی حقیقیت اور تاریخ
ہر سال 14 فروری کو منایا جانے والا یہ دن در اصل موجودہ عیسائیوں کی ایک عید ہے جس میں وہ اپنے عقائد کے اعتبار سے ”خدائی محبت ” کی محفلیں جماتے ہیں، اس کا آغاز تقریباً 1700 سال قبل رومانیوں کے دور میں ہوا جب کہ اس وقت رومانیوں میں بت پرستی عام تھی اور رومانیوں نے پوپ والنٹائن (ویلینٹائن) کو بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنے کے جرم میں سزائے موت دی تھی لیکن جب خود رومانیوں نے عیسائیت کو قبول کیا تو انہوں نے پوپ والنٹائن (ویلینٹائن) کی سزائے موت کے دن کو ”یوم شھید محبت ” کہہ کر اپنی عید بنالی، اسی تاریخ کے ساتھ 14 فروری کو یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کی کچھ اور مناسبتیں بھی بیان کی جاتی ہیں:

1۔ عیسائیوں کے نزدیک 14 فروری کا دن رومانی دیوی ” یونو ” (جو کہ یونانی دیوی دیوتاؤوں کی ملکہ اور عورتوں و شادی بیاہ کی دیوی ہے) کا مقدس دن مانا جاتا ہے جب کہ 15 فروری کا دن ان کے ایک دیوتا ” لیسیوس ” کا مقدس دن ہے ( ان کے عقیدے کے مطابق لیسیوس ایک بھیڑیا تھی جس نے دو ننھے منھے بچوں کو دودھ پلایا تھا جو آگے چل کر روم شہر کے بانی ہوئے)۔

2۔ ایک مناسبت یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ جب رومانی بادشاہ کلاودیوس کو جنگ کے لئے لشکر تیار کرنے میں صعوبت ہوئی تو اس نے اس کی وجوہات کا پتہ لگایا، بادشاہ کو معلوم ہوا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل وعیال اور گھربار چھوڑ کر جنگ میں چلنے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس نے شادی پر پابندی لگا دی لیکن والنٹائن نے اس شاہی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خفیہ شادی رچالی، جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو اس نے والنٹائن کو گرفتار کیا اور 14 فروری کو اسے پھانسی دے دی، بنا بر ایں لیسیوس کے پجاریوں اور کلیسہ نے اس مقدس دن کو والنٹائن کی یاد میں عید کا دن بنا دیا۔

یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) دین وشریعت کی نظر میں
اخبار٬ افکار کے مطابق ہر دین ومذہب کے کچھ ایسے رسم ورواج، عید و تہوار اور تہذیب وثقافت ہوتی ہے جس سے وہ دین اور اس کے ماننے والے پہچانے جاتے ہیں۔ یوم محبت (ویلنٹائن ڈے) کی حقیقت اور تاریخ سے جب یہ بات بالکل عیاں ہے کہ یہ عیسائیوں کا ایک مقدس اور عید کا دن ہے. اللہ تعالیٰ نے امت اسلامیہ کے لئے اپنے محبوب کی لائی ہوئی شریعت میں دو دن عید کے طور پر خوشیاں منانے کے لئے عطا کئے ہیں، عید کا لفظ ایسی مناسبات پر دلالت کرتا ہے جو ایک متعین دن اور متعین وقت میں آتی جاتی رہتی ہے، یہ خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ایک تحفہ اور خوشیوں کا دن ہوتا ہے جس میں بندے پر یہ ضروری ہے کہ وہ خود بھی خوش اور ہشاش بشاش ہو، اپنی خوشی کا اظہار بھی کرے اور اپنے خدا کو بھی راضی اور خوش کرے، اسی لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے خدا کے بتائے ہوئے جملہ احکام و امور کا خیال رکھے اور اپنی خوشیوں میں کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے اس کا خدا ناخوش ہو جائے، اسی لئے عید میں یہ شرط لگائی جاتی ہے کہ اس کی خوشیاں عبادت کے طور پر خدائی احکامات کے مطابق انجام دی جائیں.
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 175814 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.