ویسے تو اپ سب ہمارے نظام تعلیم سے واقف ہی ہوں گے اور اس
کی خوبیوں سے بھی نبرد آزماں ہو رہے ہوں گے آج کل ہر بچے کے والدین اس سے
نمٹ رہے ہوں گے۔ کل میرا کراچی کے ایک نامی گرامی اسکول میں جانا ہوا میں
آفس میں بیٹھا اخبار میں خبریں ٹٹول رہا تھا کہ آفس میں کچھ والدین نمودار
ہوئے تھکاوٹ ان کے چہرے پر عیاں تھی ایسا لگ رہا تھا کہ کوئی مارکہ سر کر
کے آ رہے ہوں اور اگے مزید کسی مارکے کی تیاری بھی لگ رہی تھی ان والدین
اور اسکول آفس کے عملے کے درمیان جو گفتگو ہوئی ملاحظہ فرمائیں۔
والدین: اسلام علیکم ہمیں اپنے بچے کو اس اسکول میں داخل کروانا ہے۔
آفس: جی کیا عمر ہے آپ کے بچے کی یا پھر تاریخ پیدائش کیا ہے؟
والدین: 22 نومبر 2013
(میں تاریخ پیدائش سن کر چونکا کہ شاید والدین کو اسکول میں داخل کروانے کی
بہت جلدی ہے)
تاریخ پیدائیش سن کر آفس ورکر معنی خیز انداز میں مسکرایا۔ اس کی مسکراہٹ
سے یہ لگ رہا تھا کہ اس آفس ورکر کو داخلے دینے کے لئے نہیں بلکہ داخلے کے
لئے منع کرنے کے لئے رکھا گیا ہو۔)
آفس: آپ کا بچہ تو ابھی بہت چھوٹا ہے اس کو آپ اگلے سال داخل کروائئے گا۔
والدین: حیرانی سے جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفس : جی ہاں بلکہ مجے لگتا ہے کہ آپ کے بچے کا داخلہ اگلے سال بھی نہیں
بلکہ اس سے اگلے سال ہوگا کیوں کہ آپ کے بچے کی تاریخ پیدائیش اور ہماری
مطلوبہ تاریخ پیدائیش میں 10 دنوں کا فرق ہے۔
(یہ سن کر والدین کے مورال ڈاؤن ہونے شروع ہو گئے اور دونون ایک دوسرے کو
دیکھتے ہوئے مسکرانے لگے)
والدیں: اچھا یہ بتادیجئے کہ آپ کے اسکول میں داخلے کے لئے کیا طریقہ کار
ہے؟
آفس: نومبر کے مہینے میں داخلوں کا آغاز ہوتا ہے اور کلاسیں اپریل میں شروع
ہوتی ہیں۔
والدین انا للہ پڑکر واپس روانہ ہوگئے اور کہا کہ پاکستان کا تو اللہ ہی
حافظ ہے۔
اوپر دیئے گئے اسکرپٹ پڑ کر آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ یہ بے رخی بے سبب
نہیں؟ اس کے پیچھے سالوں کا ذوال ہے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں آٹھویں
کلاس میں تھا تو ہمارے اسکول میں کراچی کی ایک سیاسی تنظیم کے شناختی کارڈ
تقسیم ہونے شروع ہوگئے یہ وہ وقت تھا کہ جب گورمنٹ اسکولوں کا معیار
گرناشروع ہو گیا نہ استاد استاد رہا اور نہ شاکرد شاکرد دونوں باہم شیر و
شکر ہو گئے شاگرد اور استاد نوں ایک ہی پڑیا سے مین پوری اور پان کھانے
لگے، کمرہ امتحان میں دونوں ساتھ بیٹھ کر امتحان میں ایک دوسرے کی مدد کرنے
لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے نوبت اب یہاں تک آگئی کہ ہم والدین کو پرائیویٹ
اسکول کی انتظامیہ سےجلی کٹی باتیں سننے کو مل رہی ہیں اور ہم سب یہ کہنے
پر مجبور ہیں کہ پاکستان کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
ہمارے پرائیویٹ اسکول نہ صرف من مانی فیس وصول رہے ہیں بلکہ نصاب بھی اپنا
من مانا پڑھا رہے ہیں فیسیں ہیں کہ کنٹرول میں ہیں نہیں ہیں فیس ہر سال اس
طرح بڑھائی جاتی ہیں جیسا کہ پنجاب کی زمیں پر فصل اگتی ہو اور ماشاءللہ
اسکول کا مالک اپنی پجیرو پر اس طرح اکڑ کر آتا ہے کہ جیسا کہ شاہ رخ خان
اپنے فلم میں کسی ارب پتی کے بیٹے کا کردار ادا کر رہا ہو۔ واہ رے شہزادے
تیرے نخرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کے نخرے ہیں کہ ختم ہی نہیں ہونے والے کتابوں فہرست اتنی لمبی کہ ایسا
لگتا ہے کہ بچے کو پانچوں جماعت نہیں گویا پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنی ہو
فہرست میں کچھ کتابیں ایسی ضرور ہوں کہ کتاب ڈھونڈنے سے نہ ملے واہ رے
شہزادے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہزادے کا ایک اور کارنامہ پیش کرتا ہوں۔۔۔۔ ایک ایسی ہی لسٹ ہمیں بھی
موصول ہوئی اس میںسب کچھ ٹھیک تھا بس شہزادے کی ایک فرمائیش نے ہماری جان
لے کی کہ بچے کی کاپیوں کا سائیز 9.5 بائی 7 ہو۔۔ پھر کیا تھا ہم نے اسٹیل
کا اسکیل اٹھایا اور علاقے کی تمام دوکانیں چھان ماریں، اور دانتوں سے
پسینا آنا" کی مثال اس دن سمجھ آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|