کاغذ کی کشتی

 گزشتہ دنوں مجھ کو ضروری کام کے سلسلے میں صدر ،بولٹن مارکیٹ ،آئی آئی چند ریگرروڈ متواتر روزآنہ جانا پڑااسٹیل ٹاؤن موڑ پر کچھ دیر انتظار کے بعدایک کوچ آئی کوچ میں کافی رش تھا میں جلد پہنچنے کی غرض سے اُس کوچ میں سوار ہو گیاآہستہ آہستہ آگے بڑھنے کے بعد میں ایک نہایت ہی ضیعف شخص کے برابر میں کھڑا ہو گیا وہ بزرگ مجھکو بیمار بھی لگے لیکن یہ دیکھ کر مجھکو بہت افسوس ہوا کہ ہم دونوں کے بالکل سامنے کی سیٹ پر دو نوجوان لڑکے آپس میں خوش گپیوں میں مشغول تھے اُنکی گود میں رکھی کتابوں اور انکی عمروں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کسی کالج یا یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں اُن کی نگاہیں کئی دفعہ اُن بزرگ پر بھی پڑی لیکن دونوں نوجوانوں نے ذرا بھی اُن بزرگ کو سیٹ دینے کی صلاح نہیں ماری جبکہ کچھ فاصلے پہ سیٹ پر بیٹھے ادھیڑ عمر شخص نے ان سے درخواست بھی کی" بچوں آپ ان بزرگ کو سیٹ دے دو نا ــ" جواب ملا ،انکل آپ دے دو ناـ" اُس ادھیڑعمر شخص نے بزرگ کو سیٹ دے دی یہ منظر میں نے سفرکے دوران ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ دیکھامیرے ذہن میں یہ سوالات اُبھرے کہ آج کے نوجوانوں کو کیا ہو گیا ہے؟کیا یہ تربیت اُنکے والدین کی جانب سے ہے ؟آج کے نوجوانوں کی تربیت میں کونسی کمی رہ گئی ہے؟ان سوالوں کا اُبھرنا میرا فطری معاملہ ہے میرے ناقص ذہن نے مذکورہ بالا واقعہ کا تعلق تربیت کی کمی سے جوڑا لیکن یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ آج کے تمام نوجوان اور تمام والدین ہی ایسے ہی ہیں،بہت سے نوجوان ایسے بھی ہیں جو نیک کام کے لئے اپنے آپ کو ہمہ وقت تیار رکھتے ہیں بہت مہذب اور محنتی ہیں جنھیں میں خود جانتا ہوں۔ یہاں پہ بحث یہ نہیں کہ تمام نوجوانوں کو تربیت میں کمی کا سامنا ہے لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم پاکستان کو کس قسم کی افرادی قوت دے رہے ہیں ڈاکٹر کا پیشہ انسانیت کی خدمت کا پیشہ ہے اسکو پیسہ کمانے کا بہترین ذریعہ بنا لیا گیا ہے ہسپتالوں کو پیسہ کمانے کا مینار بنا لیا گیا ہے یہاں بندہ مر رہا ہوتا ہے اُسے اسوقت تک ہسپتال میں داخل نہیں کیا جاتا جب تک وہ پیسے جمع نہ کرادے ڈاکٹر اُسوقت تک آپریشن نہیں کرتا جب تک پیسے جمع نہ ہو جائیں آجکل کے زیادہ ترڈاکٹر زمیڈیسن کمپنیوں کے کمیشن ایجنٹ بن گئے ہیں۔انجینئرز نے ملک کی خدمت کے جذبے کے تحت کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہم نے اب تک کتنے ڈاکٹر عبدالقدیر خان بنائے،سوال یہ ہے کہ کتنے ڈاکٹر علامہ اقبال بنائے،سوال یہ ہے کہ احمد فراز،حبیب جالب اور دیگردانشوروں جیسی شخصیات کیوں نا پید ہو گئیں ہیں ہم کیوں فہم و فراست اور دور اندیش شخصیات کی کمی محسوس کر رہے ہیں؟ ان سوالوں کے جواب میں میری ناقص عقل پھر آج کے نوجوانوں میں تربیت کی کمی کے فقدان پر آکر مرکوز ہو جاتی ہے۔

موجودہ ماحول کی طرف جب نظر اُٹھا کر دیکھتا ہوں تو ہر نوجوان پیسے کے حصول کے فراق میں نظر آتا ہے طاقتور کا بچہ اپنی طاقت کا بے دریغ استعمال کرتا ہوا نظر آتا ہے وہ کسی غریب کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتا ایسے بہت سے واقعات کی روداد ہم ٹی وی پر دیکھ چکے ہیں ہمارے نوجوانوں کی تربیت میں کمی کے فقدان کے ذمہ دار ہمارے چند موجودہ سیاستدان بھی ہیں جنھوں نے ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں بندوقیں تھمائی چند سیاستدان ہمارے بچوں کو کرپشن کرنے کے گُر سکھا رہے ہیں چند سیاستدان بلندی پر چڑھ کر مارو،مرجاو،کی ترغیب دے رہے ہیں ہمارے بچوں کو ڈی جے کی دھن پر ڈانس کرنا سیکھا رہے ہیں سوشل میڈیا پہ گالیاں دینا سکھا رہے ہیں اور خود ساختہ نیا پاکستان بنا رہے ہیں اور چند سیاستدان مذہبی جنونیت کو اُبھار رہے ہیں او رجب اسکا نتیجہ نکلنا شروع ہوتا ہے تو ان تمام بچوں کے والدین پریشان نظر آتے ہیں مجھے ایک فلم کے ڈائیلاگ یاد آگئے ــ"جیل میں ماں اپنے بچے کو ملنے جاتی ہے تو اسکے جرم کی داستان اسکو پہلی مرتبہ جیل میں پتہ چلتی ہے ، ماں بے اختیار بیٹے کو تھپڑ رسید کرتی ہے تو بیٹا کہتا ہے "ماں کاش یہ تھپڑ تونے مجھکو بچپن میں مارا ہوتا"

ہمارے ملک کے ٹی وی چینلز کو بھی میں قصوروار ٹھراتا ہوں جو ویلن نما سیاست دانوں کو ہیرو بنا کر پیش کرتے ہیں جنھوں نے کبھی عوام کی خدمت کا پلان دیا ہواور نہ ہی کسی اینکر نے یہ کوشش کی ہو کہ ٹاک شوز میں عوام کی بھلائی کے بارے میں بات کی جائے۔یہ ہی سارے عوامل ہیں جو ہمارے نوجوانوں میں بھلائی،خدمت،دوسروں کی عزت کرنا،شائستگی و عاجزی ، کو پروان چڑھنے نہیں دے رہے ہیں مجھ کو تو نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں ہمارے معاشرے میں مکڑی کے جالوں کی مانند پھیلائی گئی بُرائیوں کو ختم کرنے کے لئے کوئی مسیحا آئے گاشاید عوام اسی کے منتظر ہے۔قوموں کی شعوری بیداری اور اخلاقی تربیت میں معا شرے کی اکائیوں کا بڑا دخل ہوتاہے جو کہ اپنے اصل فرائض سے غافل ہیں میں تو صرف اتنا کر سکتا ہوں کہ والدین کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کروں کہ خدارا اپنے بچوں میں اخلاقی تربیت کو اُجاگر کرنے اور اُنکے شعور کو بیدار کرنے کے پہلووں کو تلاش کریں اور یہ بھی دیکھیں کہ آپ اپنے بچے کو جس کشتی میں سوار کر رہے ہیں وہ کشتی کاغذ کی تو نہیں ،اُسکے ڈوبنے کیلئے تو بارش کا پانی کافی ہے ۔
Sheikh Muhammad Hashim
About the Author: Sheikh Muhammad Hashim Read More Articles by Sheikh Muhammad Hashim: 77 Articles with 91873 views Ex Deputy Manager Of Pakistan Steel Mill & social activist
.. View More