ائمہ آن لائن

پچھلے دنوں سنٹرل لندن کے ایک مقامی ہوٹل میں ’’Faith Associates ‘‘ کے ذیلی شعبہ ’’Imams Online ‘‘ کے زیر اہتمام مختلف مکاتب فکر کے سکالرز اور دانشوروں کی دو روزہ کانفرنس کا اہتمام ہوا۔ اس کانفرنس کا عنوان تھا ’’ Digital Summit 2015 ‘‘ ۔ اس کانفرنس میں یوکے بھر سے ایک سو سے زیادہ سکالرز نے شرکت کی۔ اس کانفرنس کے مہمان خصوصی کے طور پر امریکہ سے آئے ہوئے عظیم مذہبی سکالر اور کئی کتب کے مصنف حمزہ یوسف صاحب نے خصوصی طور پر شرکت اور خطاب کیا۔ آخری نشست کے مہمان خصوصی موریطانیہ سے آئے ہوئے متبحر عالم دین اور دانشور جناب عبداﷲ بین بایا تھے جنہوں نے آخری نشست سے خطاب بھی کیا۔ راقم الحروف نے بھی دونوں دن اس کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ کانفرنس حالات حاضرہ کے تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہے اس لئے مناسب سمجھا کہ اختصار کے ساتھ اس کے لب لباب کو ہدیہ قارئین کیا جائے۔

اس کانفرنس کا بنیادی مقصد ائمہ مساجد اور مذہبی راہنماؤں کی توجہ حالات حاضرہ کے تناظر میں میڈیا سے پیدا ہونے والے سماجی اور مذہبی اثرات کی طرف مبزول کرانی تھی۔ مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی ایک عفریت کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے جو کہ اسلام کی بد نامی کا سبب ہے۔ جبکہ ہماری تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے ہردور میں بہترین روایات اور بین الثقافتی اقدار کو مثالی انداز میں پروان چڑھایا۔ لیکن آج جب ہم دنیا کے مختلف حصوں میں نگاہ دوڑاتے ہیں تو اسلام کا نام استعمال کر کے تباہی و بردادی، قتل و غارت گری اور دہشت گردی کو رواج دینے والوں نے اسلام کے حسن و جمال کو بھی داغدار کردیا ہے۔ اسلام کی روحانی اساس نے امن و آشتی کو معاشرے میں عملا عام کیا لیکن آج اسے بھی کئی ایک چیلنجز در پیش ہیں۔ مجرمانہ مذہبی انتہا پسندی ہر طرف عام دکھائی دیتی ہے۔ اس تمام صورت حال میں ایک بڑا کردار سوشل میڈیا اور جدید ذرائع مواصلات کا بھی ہے۔ میڈیا پر نفرت آمیز پیغامات لکھے، پڑھے اور سنے جا رہے ہیں ۔ اسی سے متاثر ہو کر کچے ذہن کے نو عمر بچے اور بچیاں اور پختہ عمر کے نوجوان بھی آئے روز دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ ملنے کیلئے مختلف ممالک کارخ کر رہے ہیں۔ یہ از حد ضروری ہو گیا ہے کہ مذہبی راہنما اور ائمہ مساجدجدید میڈیا سے منسلک ہوں تاکہ انتہا پسندی کے رجحانات کے حوالے سے جو چیلنجز در پیش ہیں ان کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ائمہ کرام اور مذہبی طبقات وقت، حالات اور ماحول کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔ سماجی میڈیا اور ذرائع ابلاغ پر دسترس حاصل کر کے ہی ان کے ذریعہ اٹھنے والے طوفانوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح سماجی میڈیا کے ذریعہ نسل نو کی نظریاتی تربیت اور بہتر راہنمائی کا فریضہ بھی ادا ہو سکتا ہے۔ ہر دور کے کچھ اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔ میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کے ساتھ میل جول رکھ کر انہیں راہ راست پر رکھنا یا لانا آسان ہو جاتا ہے۔ ائمہ کرام کا یہ بھی فریضہ ہے کہ مساجد اور اسلامک سنٹرز میں آنے والے والدین کو بھی جدید میڈیا کے دور رس اثرات سے آگاہ کریں تاکہ وہ اپنے بچوں بچیوں کی بہتر تربیت کا اہتمام کرسکیں۔

آجکل آن لائن اسلام اور مذہب کے نام پر کئی گمراہ کن ویب سائٹس موجود ہیں ۔ سوشل میڈیا اور ان سائٹس کے ذریعے بد عقیدگی اور لا دینیت پر مبنی مواد کثرت سے پھیل رہا ہے۔ مذہبی راہنماؤں کی ذمہ داری ہے کہ ایسے حالات اور مواقع پیدا کرنے کیلئے جد و جہد کریں کہ اس گمراہی سے بچاؤ کا کوئی سامان ہو سکے۔

اس کانفرنس میں شریک سکالرز نے اسلام کے حوالے سے کہا کہ یہ ایک پر امن مذہب ہے جو دہشت گردی اور فساد فی الرض سے اپنے ماننے والوں کو روکتا ہے۔ بلکہ اسی فساد فی الارض اور فتنہ کا قلعہ قمع کرنے کا نام جہاد ہے۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کوقتل کرنا اسلامی تعلیمات ت کے قطعی خلاف ہے۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ دور حاضر کے ائمہ ان چیلنجز کو سمجھنے کیلئے محنت کریں۔ ہمارے بس میں یہ نہیں کہ اس سوشل میڈیا کو معاشرے سے ختم کر سکیں بلکہ روز بروز اس کا استعمال بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہر روز کئی نئی اپلیکیشنز انسٹال اور ڈاؤن لوڈ ہو رہی ہیں۔ ایک موبائل ہی ہر طرح کے دیگر میڈیا سے بے نیاز کرنے کیلئے کافی ہے۔ برطانیہ و یورپ سے جتنے بچے ماں باپ کو بتائے بغیر داعش جیسی تنظیموں سے ملنے جا رہے ہیں انہیں یہ تعلیم کم ہی کسی اسلامی ادارے یا مسجد نے دی ہے۔زیادہ ترنے یہ سب کچھ اسی میڈیا سے متاثر ہو کر کیا ہے۔ آج مسئلہ پوچھنے کیلئے امام صاحب کی طرف رجوع کرنے کا رواج بھی پرانا ہوتا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے ’’مفتی گوگل صاحب‘‘ سے پوچھتے ہیں اگر پھر بھی تسلی نہ ہو تو ثانوی حیثیت میں امام صاحب کی خدمات لی جاتی ہیں۔ آج’’ اسلام ‘‘کے نام سے سینکڑوں غیر مسلموں کی ویب سائیٹس ہیں۔ عام آدمی کیلئے اس میں تمیز کرنا بھی مشکل ہے جس کی وجہ سے وہ پھسل کر گمراہ بھی ہو جاتے ہیں۔ شوکت وڑائچ صاحب اور ان کے رفقاء کار تحسین کے مستحق ہیں کہ جنہوں نے ایک اچھی سمت قدم اٹھایا اور توجہ مبزول کرائی۔
Prof Masood Akhtar Hazarvi
About the Author: Prof Masood Akhtar Hazarvi Read More Articles by Prof Masood Akhtar Hazarvi: 208 Articles with 222392 views Director of Al-Hira Educational and Cultural Centre Luton U.K., with many years’ experience as an Imam of Luton Central Mosque. Professor Hazarvi were.. View More