اہل اﷲ کی صحبت اور تز کیۂ قلب

تزکیۂ قلب دل کی پاکی کو کہا جاتا ہے یعنی انسان کے دل ودماغ کو بے حیائی اور دنیوی آلائشوں سے پاک کرکے اس میں خوفِ آخرت اور اﷲ کی محبت پیدا کی جائے، عام طور پر انسانی نفوس کا رجحان ان چیزوں کی طرف ہوتا ہے جو شریعت کے خلاف ہیں، جن میں نفس کو لطف اور مزہ آتا ہے، ان رجحانات کو موڑ کر نفس کو رشد وہدایت اور خیر پر لگانے کی محنتوں کو تصوف وسلوک اور تزکیہ سے تعبیر کیاجاتاہے، شریعت میں تزکیے کی بڑی اہمیت ہے، اس لیے کہ اگر انسان کا دل پاک ہوجائے، سوچ وفکر قرآنی اصول کے سانچے میں ڈھل جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ معاشرہ صالح اور نیک نہ ہو، زناکاری، شراب نوشی، ظلم وزیادتی، چوری، ڈاکہ زنی اور ہزار طرح کے جرائم اس لیے وجود میں آتے ہیں کہ دل میں اﷲ کا خوف ہے اور نہ آخرت پر یقین، خدا کی قدرت اور وجود کا تصور بلاشبہ بڑے سے بڑے گناہ کے عادی انسان کے ہاتھوں غیرمرئی ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں لگادیتا ہے، پھر وہ اس طرح سنور جاتا ہے کہ رات کے سناٹے میں بھی اس کا ذہن کسی برائی کی طرف نہیں جاتا، دولت کے خزانے میں بھی رہ کر دل میں خیانت کا تصور نہیں آتا۔ بے حیائی کے تمام اسباب ووسائل موجود ہوں، پھر بھی طبیعت اس پر آمادہ نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ قرآن نے تزکیۂ قلب پر بڑا زور دیا ہے۔ سورہ الاعلیٰ آیت ۴۱ میں ارشاد فرمایاگیا’’ قَد اَفلَحَ مَن تَزَکّٰی ’’تحقیق کہ وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اپنا تزکیہ کیا‘‘ یہی مفہوم سورۂ الشمس آیت ۹ میں ان کلمات میں بیان کیاگیا قَد اَفلَحَ مَن زَکّٰہَا وَقَدخَابَ مَن دَسّٰہَا ’’بلاشبہ وہ آدمی کامیاب ہوگیا جس نے اپنے نفس کو سنوارا اور ناکام ہوا جس نے اس کو خاک میں ملایا یعنی خواہشات نفس کی پیروی کی‘‘ ان دونوں آیات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کامیابی اور فوز وصلاح تزکیۂ قلب کے ساتھ مربوط ہے، دل پاک وصاف ہے تو اخروی نعمتیں استقبال کریں گی، دنیا میں سکون واطمینان، رعب و دبدبہ، عزت اور بلند مقام تو حاصل ہوگا ہی اسی کے ساتھ جنت کی ابدی راحت رساں چیزیں سامنے حاضر ہوں گی، وہ جب اور جس طرح چاہے گا کھائے گا اور مزے لے گا، اﷲ کی رضامندی اس کو مکمل طور پر حاصل ہوگی۔

عرب قوم جس کے درمیان رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی تھی، پلے، بڑھے اور جوان ہوئے یقینا وہ ایک خونخوار اور جنگ جو قوم تھی، تہذیب وتمدن سے نابلد، برائیوں کے خوگر، معرفت الٰہی سے کوسوں دور اور طبیعت کے اعتبار سے انتہائی سخت اجڈ اور گنوار تھی، نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر کرم نے ان کو ایسا بدلا کہ ساری دنیا کے لیے وہ ہدایت کے چراغ بن گئے، جو پہلے گنوار تھے مہذب بن گئے، مشرک تھے موحد ہوگئے، سخت تھے نرم ہوگئے، جو پہلے بے حیثیت تھے وہ دنیا کے امام بن گئے، حضرت ابوبکر صدیقؓ کو صدیقیت کا مقام نہ ملتا اگر نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت نصیب نہ ہوتی، حضرت عمر ؓ کو فاروق، حضرت عثمان ؓکو غنی اور ذوالنورین (دوروشنی والے) اور حضرت علیؓ کو شیرخدا کا خطاب اور اعزاز رسولِ رحمت صلی اﷲ علیہ وسلم کی صحبت اور محبت کا اثر ہے، حضرت بلال حبشیؓ اور حضرت سلمان فارسیؓ عرب کے باہر سے تشریف لائے، کوئی تعارف اور سناشائی نہیں، پہلے غلام تھے لیکن اﷲ اور اﷲ کے رسولصلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت وصحبت نے انہیں وہ مقام عطا کیا کہ تمام مسلمانوں کے وہ چہیتے اور سردار بن گئے۔ بقول شاعر ؂
خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا

نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد صحابہؓ، تابعین، تبع تابعین اور پھر اولیاء اﷲ اور بزرگانِ دین کی مجالس اور صحبت میں وہ تاثیر پائی جاتی ہے جس سے سخت سے سخت انسان کا دل بھی موم بن جاتا ہے، اﷲ کا خوف اور آخرت کی تڑپ پیدا ہوتی ہے، انسانوں کے اندر تکبر ہے، حسد ہے، بغض ہے، حب دنیا ہے، آخرت سے بے فکری ہے، گناہوں سے دلچسپی ہے، اس طرح کے تمام گندے اوصاف شیطانوں کے مکروفریب اور ان کے بہکاوے سے پیدا ہوتے ہیں، صلحاء اور بزرگان دین مدتوں ریاضت سے جن کے نفوس منجھے ہوئے ہوتے ہیں، وہ شیطان کے مکروفریب کو اچھی طرح جانتے ہیں، ان بزرگوں کی صحبت جو اختیار کرتا ہے اور ان کے توسط سے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے یہ نفوسِ قدسیہ ان کو شیطان اور نفس سے بچنے کی تدبیریں بتاتے ہیں، اگر ان کی ہدایات پر عمل کیا جائے تو بہت جلد نفس کے عیوب اور رزائل کا ازالہ ہوجاتا ہے اور ان کی فیض صحبت سے انسان اخلاقِ فاضلہ، معرفت الٰہی، خوفِ خدا، آخرت کی طرف رغبت کی صفات سے متصف ہوتا ہے۔ پھر وہ کہیں بھی رہے اﷲ کی قوتِ گرفت کا احساس ہمیشہ ساتھ رہتا ہے اس کو صوفیا کی اصطلاح میں تصوف وسلوک کہا جاتا ہے۔
 
Asif Jaleel
About the Author: Asif Jaleel Read More Articles by Asif Jaleel: 226 Articles with 277051 views میں عزیز ہوں سب کو پر ضرورتوں کے لئے.. View More