حقوقِ نسواں

دراصل ہمارے معاشرے کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ہے۔ایک طرف تو وہ جاہلانہ معاشرہ ہے جہا ں عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھ لیا جاتا ہے ایک وہ جہاں بے لگام آزادی اور کھلی بے حیا ئی بے پردگی ہے۔ یہ دونوں اسلام کے منافی ہیں۔قبلہ کسی کا درست نہیں ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ اسلام کا مطالعہ کوئی کرتا نہیں سب کی اپنی اپنی دفلی اپنا اپنا راگ ہے۔مختلف تنظیمیں اور این جی او ز غیرہ جن کا آئیڈیل مغرب کا معاشرہ ہے نے عورتوں کی آزادی کا نعرہ لگا کر معاشرے میں فساد برپا کر دیا ہے۔اسلام اور تمام مشرقی اقدار پس پشت ڈال دیا ہے۔ شرم و حیا کے تمام بندھن توڑ کے عورت کو سر بازارلاکھڑا کرنا انکے نزدیک آزادی ہے۔اور جاہل افراد شعور کے نام پہ آنکھیں بند کر کے انکے پیچھے چل پڑے ہیں۔اس آزادی نے ہمیں کیا تحفے دیئے ہیں یہ آپ سب کے سامنے ہیں اور آئے روز اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ اور ایک طرف وہ لوگ ہیں جو عورت کے حق مانگنے کو ہی گناہ سمجھتے ہیں اور سمجھتے ہیں عورت کا کام مردوں کی غلامی ہے بیوی بہن بیٹی ہر صوورت میں وہ کولہو کا بیل تصور کی جاتی ہے اور یہ معاملہ ان پڑگ افراد کے ساتھ ہی نہیں پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی ایسا ہوتا ہے مرد تو پانی کا گلاس اٹھا کر پینا بھی معوب سمجھتے ہیں اپنے ہاتھ سے کام کرنا تو نبی پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے مگر مردوں کو تو موت پڑتی ہے اپنے کام کرتے مرد کو اپنی 8 گھنٹے کی جاب بہت ذیادہ لگتی ہے مگر عورت بیچاری جو 18 گھنٹے کام کرتی ہے وہ نظر نہیں آتا انکو گھر آ کر کبھی اسکا حال احوال تک نہیں پوچھتے کبھی پیار و محبت سے بات نہیں کی بس اپنی جھوٹی شان نظر آتی ہے۔اسلام نے عورت کو کیا مقام دیا ہے کیا عزت وفضیلت دی ہے یہ عورت خود نہیں جانتی۔اچھی بھلی پڑھی لکھی عورتیں بھی نہیں جانتی اگر جانتی ہیں تو صرف ٹی وی پہ مغرب زدہ عورتوں جانتی ہیں جو ہمیشہ مغربی معاشرے کی مثالیں دیتی ہیں آزادی کے حوالے سے۔مغرب میں عورتکو جو مقا م اور عزت حاصل ہے اس سے تو آپ بخوبی واقف ہوں گے جہاں ایک ہی عورت کے بچوں کے نقشے آپس میں نہیں ملتے مغرب میں تو عورت کی فطری پاکیزگی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا آخر ہم اسکی اندھی تقلید کیوں کرتے ہیں؟ بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ آج عورتیں مغرب کی مثالیں دیتی ہیں اسکے حوالے دیتی ہیں مگر مسلمان ہونے کے باوجود کوئی عورت بی بی سیدہ کائنا ت علیہا سلام کا کردار اجاگر نہیں کرتی۔کوئی عورت بی بی خدیجہ علیہا سلام کی پاک زندگی پر نظر نہیں ڈالتی۔اب ذرا اسلام کو دیکھیں کہ ا س نے کیا کیا حقوق اور عزت و مرتبہ عورت کو دیا ہے۔ میاں بیوی کے رشتے کو دیکھیں مرد کو حاکم بنایا مگر اس پہ فرض کر دیا کہ بیو ی کی کفالت کرو اسکا کھانا پہننا رہنااسکی تمام ضروریات کو پورا کرنا سب کاسب مرد کے ذمے ہے اگر ہووہ کوتاہی کرے گا تو اﷲ کی بارگاہ میں ذلیل ہوگا۔یہ حاکمیت دراصل خدمت ہے۔اسکے علاوہ عورت پہ کھانا پکانا بھی فرض نہیں یہ بات تو کئی عورتیں بھی نہیں جانتیں اورعموماََکھانا پکانا عورت کی بنیادی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے مگر یہ فرض نہیں ہے بلکہ عورت کا احسان شمار ہوتا ہے اور شوہر کیلئے کھانا پکانے پرہزار نوافل کاثواب بھی ملتا ہے۔اب ذرا سوچیں کے یہ کیسی مفت کی نیکیا ں دے دی ہیں اسلام نے کھانا تو تین وقت پکتا ہے گھرمیں گویا ہزار نوافل کا ثواب مفت میں۔مرد کے لئے تو ایسا کئی پیکج نہیں ہے کہ وہ بھی اگر بیوی کو نیا جوڑا لاکر دے تو اسے بھی ??? ، ??? نوافل کا ثواب مل جائے۔اور بہت ہی مزے کی بات یہ بتاؤں آپکو کہ بیوی کو ویک اینڈ پر باہر کھانے کھلانے لے جانا نبی پاک صلی اﷲ عیلہ وآلہ وسلم کی سنت ہے یہ ایک مستند حدیث ہے اور پھر بیوی نصف فیصد ایمان کی حصہ دار بھی ہے شوہر کے نیک اعمال کا پچاس فیصدبیوی کوگھر بیٹھے مفت میں مل جاتا ہے۔اسکے علاوہ پورے گھر کی ذمہ داری بھی عورت پہ نہیں ہے شوہر کے امی ابویعنی ساس سسر کی خدمت بھی اسکا احسان ہے مگر یہا یہ بات کرتا چلوں کہ ماں باپ کی خدمت میں بہت عظمت ہے اور ایک دن بہو خود ساس بن جا ئے گی تو اسے بھی خدمت کی ضرورت ہو گی۔ماں کے روپ میں عظمت و شان بیان نہیں کروں گا کیوں کہ یہ سورج کو موم بتی دکھانے والی بات ہے۔بیٹی کی شان میں تو کئی حدیثیں وارد ہوئی ہیں جیسے نبی پاک صلی اﷲ عیلہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹی کی تربیت کرنے والا جنت میں میرے ساتھ ہو گا،عورت کے لئے بہت ہی مبارک ہے کہ اسکی پہلی اولاد بیٹی ہو۔اﷲ پاک عزوجل شانہ تو فرماتے ہیں کہ میں بیٹی کے باپ کا دست و بازو بن جاتا ہوں اور یہ والدین پہ فرض ہے کی بیٹا بیٹی میں کوئی فرق نہ کریں دونوں کو ایک جیسا سمجھیں ایک جیسی مراعات دیں اکثر والدین اولاد میں فرق کرتے ہیں مگر یہ جہالت ہے۔شادی کے حوالے سے اسلام نے مکمل آزادی دی ہے عورت کو۔اسکی مرضی کے بغیر نکاح ہو ہی نہیں سکتا اور اسلام زبردستی کی سخت مخالفت کرتا ہے حتیٰ کہ والدین بھی لڑکی پر اپنی مرضی نافذ نہیں کر سکتے اسے اپنی پسند سے اپنی مرضی سے نکاح کرنے کی اجازت ہے اب اگر کسی جاہل معاشرے میں نا انصافی ہوتی ہے تو اسمیں اسلام کا کئی قصور نہیں یہ لوگوں کی جہالت ہے مختصراََ یہ حقوق بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اسلام نے عورت کو بہت بلند مقام و مرتبہ دیا ہے میری گزارش تمام قارئین سے یہ ہے کہ کسی مغرب زدہ کی باتیں سننے کے بجائے پہلے اسلام کا مطالہ کر لیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ جو مرتبہ اسلام نے دیا ہے وہ کہیں اور ملنا ہرگز ہر گز ممکن نہیں ہے-
Rao Nasir Ali
About the Author: Rao Nasir Ali Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.