میڈم شمیم آرا!
(Shaikh Khalid Zahid, Karachi)
ایک جگہ پڑھا کہ۔۔۔ انسان دنیا
میں اس طرح رہتا ہے جیسے اسے مرنا ہی نہیں ۔۔۔مر ایسے جاتا ہے جیسے کبھی
زندہ تھا ہی نہیں۔۔۔کیا کوئی انسان ہمیشہ اس دنیا کا ہو کر رہ سکتا
ہے۔۔۔یقینا نہیں۔۔۔قرآن نے تو واضح کر دیا کہ ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا
ہے۔۔۔ہم بات کر رہے ہیں حضرتِ انسان کی ۔۔۔جسے قدرت نے تمام مخلوقات میں
افضل ترین منصب پر فائز کیا۔۔۔اور اشرف المخلوقات کہہ کر مخاطب کیا۔۔۔جب
کسی کو کوئی عہدہ سونپا جاتا ہے ۔۔۔چاہے کسی بھی درجے کا ہو۔۔۔تو اس شخص
میں تھوڑا بہت اختیار و اقتدار کا نشہ ضرور سرایت کرتا ہے۔۔۔ہاں فرق اتنا
ہوتا ہے کہ کچھ اس نشے میں بدمست ہوجاتے ہیں۔۔۔کچھ اس نشے کہ خوف سے اپنے
عہدے و منصب کہ ساتھ خوب انصاف کرتے ہیں۔۔۔وقت دونوں ہی پورا کرتے
ہیں۔۔۔مگر اطمینانِ قلب ایک کو ہی نصیب ہوتا ہے۔۔۔
یہ عہدہ یہ منصب ہم پیدائشی طور پر لے کر پیدا ہوتے ہیں۔۔۔قدرت جب دنیاکی
رونق میں ہمارے وجود کو شامل کرتی ہے۔۔۔تو اہل و عیال ہاتھوں ہاتھ لیتے
ہیں۔۔۔وہ وقت جس کا ہمیں علم ہی نہیں ہوتا۔۔۔ہم اپنی زندگی کہ اہم ترین
منصب پر فائز ہوتے ہیں۔۔۔ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے۔۔۔کبھی مسکرانے کی
واہ واہ ہوتی ہے ۔۔۔تو کبھی رخسار پر ڈمپل پرانگلیاں چٹخائی جاتی ہیں۔۔۔ہر
ایک آنکھ ہر نئی ادا پر واہ واہ کئے جاتی ہے۔۔۔مگر افسوس وہ وقت تعریف و
توصیف سے بے نیاز گزرتا جاتاہے۔۔۔بہت کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی اس خاص عہدے کو
برقراررکھ پاتا ہے۔۔۔مگر کچھ خاص ہوتے ہیں جو اپنی اہمیت کو برقرار رکھتے
ہیں۔۔۔کسی کو وقت جھیل لیتا ہے ۔۔۔کوئی وقت کو نہیں جھیل پاتا۔۔۔لوگوں کی
کثیر تعداد بہت کچھ سوچتی ہے۔۔۔عملی طور پر ہاتھ پیر مارتی ہے۔۔۔مگر حصول
توقعات سے بہت کم ہوتا ہے۔۔۔
فلم، ڈرامہ، فیشن ، سیاست بشمول میڈیا سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی زندگی
بڑی بناؤٹی ہوتی ہے۔۔۔خصوصاً وہ لوگ جو اسکرین پر نمایاں دیکھے جاسکتے
ہیں(جیسے ہیرو، ہیروئن، ولن وغیرہ)۔۔۔انکے چاہنے والوں کی لمبی قطاریں ۔۔۔انکی
ایک جھلک دیکھنے کیلئے بے قراروبے مہار رہتے ہیں۔۔۔یہ لوگ جب تک اپنی آب و
تاب برقرار رکھتے ہیں۔۔۔لوگ انہیں یاد رکھتے ہیں اور انہیں دیکھنے کہ متمنی
رہتے ہیں۔۔۔سورج کو ڈھلنا ہوتا ہے۔۔۔شام نے آنا ہوتا ہے ۔۔۔ رات ہوتی ہے
ایک نیا دن نئی توانایوں کے ساتھ جلواہ گر ہونے کو تیار ہوتا ہے ۔۔۔یہ تمام
لوگ بھی( سوائے سیاست سے وابسطہ لوگوں کہ کیونکہ انکا ڈرامہ و فلم تا دم
مرگ نشر ہوتا رہتا ہے یہ کسی نا کسی بہانے وہیل چئیر پربھی محفلوں اور
مجلسوں میں اپنی جگہ قائم رکھتے ہیں)۔۔۔
ایک طویل فہرست ہمارے فنکاروں اداکاروں گلوکاروں اور ہدایتکاروں پر مشتمل
ہے ۔۔۔جو صرف پاکستان سے وابسطہ ہیں ۔۔۔اگر ہم دنیا کے گرد گھومنے لگے تواس
فہرست کو سمیٹنا مشکل ہوجائے گا ۔۔۔ان شخصیات کا نام آنے پر ان کہ فن کے
حوالے سے لوگ تعریفی کلمات ادا کرنا شروع کردیتے ۔۔۔ کیا اداکاری تھی کیا
آواز تھی کیا ترنم تھا۔۔۔طبعی خوبصورتی کہ دلدادہ الفاظ سے زیادہ ایک آہ پر
اکتفا کرکے رہ جاتے۔۔۔
گزشتہ دنوں اخبار کی ورک گردانی کرتے ہوئے اپنے وقت کی نامور ادکارہ جنہیں
لوگ نائلہ کہ نام سے بھی جانتے ہیں ۔۔۔نائلہ پاکستان کی پہلی رنگین فلم تھی
جو اکتوبر ۱۹۶۵ میں ریلیز ہوئی ۔۔۔فلم نائلہ میں جس ہیروئن نے اس کردار کو
یادگار بنایا انہیں ہم سب شمیم آراء کہ نام سے جانتے ہیں ۔۔۔یہ وہ لوگ ہیں
جن کی پذیرائی کیلئے ان کی تصاویر کہ طویل القامت بینرز بنتے ۔۔۔اشتہارات
انکے ۔۔۔جگہ جگہ ان کی فلموں ڈرامو کی تشہیر۔۔۔غرض یہ کہ ان کہ سوا دنیا
میں رکھا کیا ہے۔۔۔ شمیم آراء نے فلمی دنیا پر دو دہائیوں تک اپنی خوبصورت
اداکاری سے راج کیا ۔۔۔جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ یہ لوگ کیمرے سے دور نہیں
رہ سکتے۔۔۔۱۹۶۸ میں ایک فلم صائقہ بطور پروڈیوسر کہ پاکستانی فلمی صنعت کہ
نام کی ۔۔۔ بطور ہدایت کاربھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔۔۔تقریباً سن
۲۰۰۰ تک فلمی دنیا سے وابستہ رہیں۔۔۔آخر ایک دن عمر کی شام ہوتی ہی
ہے۔۔۔مگر یہ شام اسوقت بہت تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے جب اس شام میں کوئی ساتھ
نہ ہو۔۔۔یہ شام ان پر ہنگم شاموں کا شور لئے ہوتی ہے جب یہ لوگ ان شاموں
میں اہم ترین ہوا کرتے تھے۔۔۔لیکن جسے اب اکیلے جھیلنا ہوتا ہے۔۔۔خالی گھر
کی کھڑکیاں دروازے سونی آنکھوں سے ٹٹولنا رہ جاتاہے۔۔۔ کبھی کبھی گھر میں
نصب برقی قمقمے آنکھوں کو بہت برے لگنے لگتے ہیں۔۔۔کبھی یہی آنکھیں بڑی بڑی
روشنی پھیلاتی سرچ لایٹ سے بھی نہیں جھپکتی تھیں۔۔۔
شمیم آراء گزشتہ سات سالوں سے بستر پر زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی
ہیں۔۔۔یہ لوگ کبھی آخباروں کی شہ سرخیوں میں نمایاں ہوتے ہیں۔۔۔آخبار اور
رسائل کی آمدنی انہی کی وجہ سے ہوا کرتی ہے۔۔۔اور پھر یوں ہوتا ہے کہ کسی
اخبار کہ کسی کونے میں بہت چھوٹی سی خبر پر نظر پڑتی ہے ۔۔۔جس میں تاریخ کو
اپنی انگلیوں پر نچانے والوں کی ابتری کی خبر چسپاں ہوتی ہے۔۔۔ ایک دن پھر
بڑی خبر لگتی ہے ۔۔۔جب فلاں کہ خالقِ حقیقی سے جاملنے کا اعلان ہوتا
ہے۔۔۔دنیا جہان اکھٹا ہونا چاہتا ہے۔۔۔اسی گھر میں ایک رونق لگتی ہے نامی
گرامی لوگوں کا میلہ لگتا ہے۔۔۔مگر اسے دیکھنے والا نہیں ہوتا۔۔۔میلے میں
آئے سب لوگوں کہ دلوں میں ایک لمحے کیلئے یہ ضرور آتا ہوگاکہ کچھ یا بہت
وقت کہ بعد مجھے بھی اس جگہ پہنچنا ہے۔۔۔مگر اگلے ہی لمحے میں کیمرے مائک
سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔۔۔
یہ فنکار، گلوکار، مصور، مصنف ، شاعر، موسیقار، ہدایتکارغرض یہ کہ فنون ِ
لطیفہ یا ادب کی کسی بھی صنف سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنی تمام زندگی لوگوں
کیلئے وقف کردیتے ہیں۔۔۔مگران لوگوں کی نجی زندگی اتنی متاثر کن نہیں
ہوتی۔۔۔یہ لوگ تمام زندگی لوگوں کو تفریح کا سامان مہیہ کرنے صرف کردیتے
ہیں۔۔۔ہم بہت بے قدرے لوگ ہیں ۔۔۔قبروں اور مردوں کو پوجنے والے۔۔۔ان کے
ناموں پر سڑکے تعمیر کرادی جاتی ہیں۔۔۔بڑی بڑی عمارتیں انکے ناموں سے منصوب
کردی جاتی ہیں۔۔۔جو جیتے جی سر چھپانے کیلئے کسی کال کوٹھری میں بسر کرتے
ہیں۔۔۔جن کہ ناموں پر بڑی بڑی پر تقلف و پر تعیش محفلیں منعقد کی جاتی
ہیں۔۔۔مگر زندگی میں ان عظیم لوگوں کو اہمیت کہ سب سے آخری خانے میں رکھا
جاتاہے۔۔۔جو بیماری میں لوگوں سے مدد کی اپیل کرتے ہیں۔۔۔
اپنے اس مضمون کہ توسط سے محکمہ ثقافت سے درخواست کرونگا کہ وہ تمام ایسے
لوگوں کی فہرست مرتب کرے ۔۔۔جو کسی نہ کسی طرح ادب کی کسی بھی صنف سے
وابسطہ ہیں۔۔۔اس فہرست کی بنیاد پر سب سے پرانے لوگوں کا احوال لے۔۔۔اور ان
لوگوں کو میڈیا کہ ذریعہ منظرِ عام پر لائے۔۔۔اور میڈیا اپنا کردار نبھاتے
ہوئے ان لوگوں کہ حالاتِ حاضرہ سے لوگوں اور اربابِ اختیار کو آگاہ کرے ۔۔۔حکومتِ
وقت سے مطالبہ کرے کہ جس کسی کو کسی بھی قسم کی ضرورت ہے اسے مہیہ کی جائے۔۔۔
تاکہ ہمارا یہ ورثہ اتنی بری طرح متاثر وضائع نہ ہو۔۔۔اور نئی نسل کو پتہ
چلے کہ وہ آج جن میدانوں میں دندناتے پھر رہے ہیں وہ کن لوگوں کی مرہونِ
منت ہیں ۔۔۔وہ کن لوگوں نے اور کس کس طرح بنایا ۔۔۔تمام شہروں میں موجود
آرٹس کونسل کو اس بات کو پابند بنایا جائے کہ وہ اپنے اپنے شہر کہ مذکورہ
لوگوں سے رابطہ رکھے اور انہیں ہر طرح کی رہنمائی فراہم کرے۔۔۔آج کا کیا یہ
کام کل آپکے کام بھی آئے گا۔۔۔
آخر میں دعا کیجئے۔۔۔ جتنے بھی بیمار ہیں اﷲ انہیں اپنی خصوصی رحمت سے
شفائے کاملہ و اجلہ نصیب فرمائے ۔۔۔اور ہم سب کہ لئے آسانیاں پیدا فرمائے۔۔۔(آمین)
|
|