موبائل فون.....

ابو آج آخری بار آپ سے گزارش کررہی ہوں....اگر مجهے کل موبائل نہ ملا تو میں ہرگز کالج نہیں جائوں گی،میری سہیلیاں روز اپنے مہنگے موبائلوں کو اچهال اچهال کر میرا منہ چڑاتی ہیں،مجهے میں اب مزید ہمت نہیں کہ ان کے طنزکا نشانہ بنتی رہوں،واجد غوری صاحب دن بهر دفتر کے گهن چکروں میں الجھنے کے بعد ابهی گهر کے دروازے کے اندر قدم رکھ چکے تهے کہ ان کی بیٹی ماہم ایک سانس میں یہ ساری باتیں ان کے گوش و گزار کرکے اپنے کمرے میں گهس گئی......

غوری صاحب کی اہلیہ شبانہ غوری کچن کے دروازے پہ کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی......اس نے آکر غوری صاحب کو سہارا دے کر لاونج کے صوفے پہ بیٹها دیا اور کچن سے پانی لے کر آگئی....پانی تهماکر وہ ان کے ساتھ صوفے پہ بیٹھ گئی.....اور میاں بیوی آپس میں اپنی بیٹی کے رویے اور اس کے مطالبے پہ غور کرنے لگے.....غوری صاحب کا ایک ہی موقف تها کہ اس وقت ماہم کو موبائل فون رکهنے کی قطعی ضرورت نہیں.....اسے اپنی پڑهائی پر بهر پور توجہ دینی چاہیے.... موبائل اور دیگر فضولیات کے ساتھ کھیلنے کے لیے ابهی ایک لمبی زندگی پڑی ہے..... ایک ماں کی حیثیت سے شبانہ غوری اپنے شوہر اور اپنی بیٹی دونوں کی نفسیات سے بخوبی واقف تهی.....اس کو سمجھ نہیں آرہی تهی کہ وہ اپنے میاں کو کیا مشورہ دے.....آدھے گھنٹے کی چخ پخ کے بعد وہی ہوا جو آج کل ہر جگہ ہوتا ہے......میاں بیوی نے باہمی مشورے سے بیٹی کی ضد کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا فیصلہ کیا....اس فیصلے کے بعد غوری صاحب اضمحلال کی کیفیت میں اپنے کمرے کی جانب چل پڑے جب کہ شبانہ غوری دل میں گهٹن اور چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے بیٹی کو خوشخبری سنانے چل پڑی...........

وہ رات ماہم کی زندگی کی سب حسین اور طویل رات تهی.....اس پہ شادی مرگ کی کیفیت طاری تهی....اگلے دن کے انتظار میں وہ ساری رات جاگتی رہی....اللہ اللہ کرکے رات گزر گئی....اس دن صبح بادلوں کے کو ادهر ادهر دهکیلتے ہوئے کرہ ارض کے چپے چپے پر اپنی کرنیں بکھیرنے والا سورج غوری صاحب کے خاندان کے لیے ایک خطرناک پیغام لےکر آیا تها.....مگر اولاد کی ضد کا پردہ بصیرت پہ حائل ہو نے کی وجہ سے یہ پیغام کوئی سمجھ نہ سکا.....

کالج سے واپسی پر ماہم کو اپنا موبائل فون مل چکا تها.....وہ موبائل ہاتھ میں لیے خوشی کے عالم میں قلابازیاں کها تے ہوئے اپنے کمرے میں گھس گئی..اسے یقین نہیں آرہا تها کہ حقیقت میں اس کے پاس موبائل ہے.....ساری رات وہ موبائل کے ساتھ کھیلتی رہی.....صبح آدھا گھنٹہ پہلے ہی وہ کالج جانے کی تیاری مکمل کر کے انتظار میں بیٹھی تھی.....پهر وہ کالج گئی اور پورا دن اپنا مہنگا موبائل دکها دکها کر سہیلیوں کا منہ چڑاتی رہی.......

دن گزرتے گئے اور بات پرانی ہوتی گئی.....ایک دن وہ کالج سے واپسی پر کالج سے متصل موبائل کی دوکان سے اپنے نمبر پہ بیلنس لوڈ کروارہی تهی.....اسے معلوم نہ ہوسکا کہ اس کے عقب میں کهڑا ایک شخص اپنے موبائل پہ اس کا نمبر نوٹ کرکے وہاں سے جاچکا تها.....

اس رات وہ معمول سے پہلے کمرے میں جا چکی تهی.....ماں باپ نے سمجھا کہ شاید امتحان کی تیاری چل رہی ہے....مگر انہیں کیا معلوم تها کہ زندگی کا ایک ایسا امتحان سر پہ آنے والا ہے جس کا نتیجہ ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں نہیں ہے.... "ماہم" نے کمرے میں گھستے ہی کنڈی چڑادی.... حفظ ما تقدم کے طور پہ اس نے کتابوں کا ایک پلندہ میز پہ بکھیر دیا اور کرسی سے سر ٹکائے اپنی کسی سہیلی کے ساتھ گفتگو میں مگن ہوئی......ایک کے بعد ایک سہیلی سے باتیں کر کرکے وہ تهک گئی....اور سونے کا ارداہ کرکے کرسی سے اٹهنے ہی والی تھی.....کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجنے لگی.....موبائل کی اسکرین پہ ایک اجنبی نمبر بلنک کررہا تھا....."ماہم" کچھ دیر تک سوچتی رہی کہ یہ کس کا نمبر ہوسکتا ہے.......کافی سوچ و بچار کے بعد اس کے ذہن نے یہ فیصلہ کیا کہ شاید کسی سہیلی کا نمبر ہوگا......وہ کافی عرصہ اس کے متعلق سوچتی رہی..... اسی دوران موبائل کی سکرین پہ موجود مس کالوں کی تعداد چار تک پہنچ چکی تھی....پانچویں مرتبہ جب موبائل بجنے لگا تو اس نے کال رسیو کرکے موبائل کان سے لگالیا.....
ہیلو.....کون؟
مم.....میں....کاشف....
کون کاشف.....کس کو فون کیا ہے آپ نے؟
تهوڑی دیر توقف کے بعد.....میں کاشف بات کررہا ہوں....
کیوں فون کیا ہے اور کس سے بات کرنی ہے؟
وه وہ.. دراصل...... آپ سے بات کرنی تهی.....
بکواس بند کرو.....آئندہ اس نمبر پہ کال کرنے کی کوشش کی تو مجه سے برا کوئی نہیں ہوگا.....یہ کہتے ہوئے ماہم نے کال کاٹ دی اور زیر لب بڑبڑاتے ہوئے جاکر بستر پر لیٹ گئی......ابهی وہ اس فون کے بارے میں شش و پنج میں مبتلا تهی کہ اچانک موبائل پهر بجنے لگا......پهر وہی نمبر....اس نے موبائل کان سے لگایا اور گالیوں کی ایک گردان سنانے کے بعد موبائل آف کرکے سوگئی.......

کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا......کاشف فون کرتا رہا اور ماہم اسے سنے بغیر گالیاں دیتی رہی.....جب کاشف اپنی شرارت سے باز نہ آیا تو اس نے اپنی ماں کے واسطے سے والد کے سامنے اپنی پریشانی بیان کرنے کا فیصلہ کیا..... اس نے اپنی ماں کو بلاکم وکاست پوری کہانی سناڈالی....ماں نے اس کو سختی سے منع کیا کہ وہ اس کا ذکر اپنے ابو سے ہرگز نہ کرے....ورنہ اودهم مچ جائے گا....اور ساتھ یہ بهی نصیحت کی کہ نامعلوم نمبروں سے وہ بالکل کال رسیو نہ کرے..... ماں کی نصیحت نے کسی قدر اس کا بوجھ ہلکا تو کردیا تها.....مگر ایک کاشف نامی اجنبی شخص اس کے اعصاب پہ سوار ہوچکا تھا.....کچھ دنوں تک وہ اس کی کال نظر انداز کر تی رہی....مگر کاشف کی استقامت میں کوئی کمی نہیں آئی......"ماہم" نے ایک دن کاشف سے فیصلہ کن بات کرنے کا فیصلہ کر لیا......

آج وہ اپنا تمام تر غصہ کاشف پہ انڈیلنے کا فیصلہ کر چکی تهی......اسے پورا یقین تها کہ رات 11 بجے کاشف کا فون آئے گا.....اس نے تمام کام ملتوی کر دیے اور اپنی یادداشت کی ڈکشنری میں غصے کے الفاظ اور گالیوں کی اقسام میں اضافہ کرنے لگی.......

رات کے 11 بج کر 7منٹ....اچانک موبائل تهر تهر کانپنے لگا....اسکرین پہ کاشف کا نمبر نمودار ہوچکا تها.....ماہم کی پیشانی پر کئی شکنیں نمودار ہوگئیں....غصے کی وجہ سے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی....دماغ ہانڈی کے گرم پانی کی طرح ابلنے لگا....ہاتھ لرزنے لگے.....اس نے موبائل کان سے لگا یا اور پورے جسم میں دوڑنے والے تمام غصے کو زبان پر مجتمع کرتے ہوئے گرجنے لگی......کمینہ انسان آخر تم چاہتے کیا ہو؟.....تهوڑی دیر خاموشی کے بعد آگے سے جواب آیا......ایک مرتبہ میری بات تو سنو.....اس کے بعد آپ کی مرضی.....اگر آپ نے کہا تو اس کے بعد میں کبھی فون نہیں کروں گا....شیطان کی محنت رنگ لانے لگی تهی.....کئی دن کے بعد کاشف کی نخل تمنا ہری ہونے ہونے کو تهی....پهر ماہم سنتی گئی اور کاشف بولتا گیا.... ایک گھنٹے کے اندر کاشف نے ماہم کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاکر اس کو شیشے میں اتار دیا تها.....وہی ماہم جو ایک گھنٹہ پہلے گالیاں دے رہی تهی اب جب کاشف کال کاٹنے لگا تو اس نے پوچها......پهر کب کال کروگے؟؟؟

اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا....."ماہم" گهر سے کالج کے نام پہ نکل جاتی مگر دن بهر کاشف کے ساتھ کبهی مزار قائد تو کبهی کلفٹن کی سیر پہ چلی جاتی....وقت گزرتا گیا.....دل بہلتا رہا....

واجد غوری صاحب دفتر اور سماجی کاموں میں مصروف رہے.....شبانہ غوری صاحبہ گھریلو کام کاج میں مگن رہی.......اسی اثناء میں کالج کے سالانہ امتحانات قریب آگئے.....ماہم رات بهر جاگتی رہتی.....ماں باپ کا خیال تها کہ وہ رات بهر امتحان کی تیاری میں مصروف رہتی ہے.....مگر وہ رات بهر جاگ کر سکون سے سوئے ہوئے ماں باپ کے لیے ذلت کا ایک گہرا کهڈا کودنے میں مصروف تھی....رات بهر وہ کاشف سے فون پہ باتیں کرتی.....اور صبح غنودگی کے عالم میں کالج چل دیتی......

پهر ایک رات فون پہ بات کرتے کرتے اچانک کاشف نے کہا کہ آج رات کہیں آئس کریم کهانے کیوں نہ چلے......ماہم نے نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ یہ ناممکن ہے.....کاشف صد کرتا رہا وہ انکار کر تی رہی.....بات تلخی تک پہنچ گئی....کاشف نے دھمکی دی کہ اگر وہ آج نہ آئی تو وہ اس کے ساتھ تعلق ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا..... کئی مہینوں کی ملاقاتوں کی وجہ سے وہ اس کے محبت میں پاگل ہو چکی تھی.... بالآخر اس نے ہار مانتے ہوئے جانے کی حامی بهر لی.....آپس میں ایک منصوبہ طے ہوا.....منصوبے کے مطابق ماہم نے گھر بھر کا ایک جائزہ لیا اور ماں باپ کو خواب میں غفلت میں پاکر گھر کے دروازے کی طرف چل پڑی.... گھر کے دروازے سے پرے کاشف ایک خوبصورت کار میں اس کا انتظار کررہا تھا...ماہم کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے ملے جلے اثرات نمودار ہوئے...کیوں کہ اس سے پہلے کاشف اسے ایک خستہ حال بائک پہ گھمانے لے جاتا تها. ...

تهوڑی دیر بعد کار شہر کی ایک مرکزی سڑک پر فراٹے بهر رہی تھی.......ابھی ماہم پوچھنے ہی والی تھی کہ ہم کہاں جارہے ہیں ......اچانک کار ایک حویلی نما مکان میں داخل ہو ئی... ماہم کو خوف کا ایک شدید جھٹکا لگا ....مگر بہت دیر ہوچکی تھی....کاشف کے منصوبے کے مطابق اس کے 5 دوست پہلے سے مکان میں موجود تھے...یہ کار بھی ان ہی میں سے کسی کی تھی..........

دو دن بعد شہر کے مختلف اخباروں میں یہ خبر غوری صاحب کی عزت سر بازار نیلام کرنے کے لیے کافی تھی...

"معروف سماجی کارکن واجد غوری کی اکلوتی بیٹی گزشتہ رات اجتماعی زیادتی کے بعد قتل.. مسخ شدہ لاش سپر ہائی کے قریب جھاڑیوں سے بر آمد"
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 50605 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More