بریک چر چرائے اور بس ایک لمحہ
........پھر کار فراٹے بھرتی ہوئ زن ..... سے گزر گئ پر یہ کیا جب تک کیچڑ
سے بنے بے شمار نقش و نگار ہمارے لباس پر اپنی جگہ بنا چکے تھے.
ایک تو یہ بڑی کار میں بیٹھنے والے اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں .سرکار نے
لگتا ہے سڑکیں انکے نام کیں ہوئیں ہیں.پیدل چلنے والوں کا خیال ہی نہیں
نائلہ کی زبان تواتر سے کار والے کی شان میں زہر اگل رہی تھی.
نائلہ .......میں نے اسے سرزنش کی کوئ بات نہیں کبھی ایسا ہو جاتا ہے.اسکا
مطلب یہ نہیں کہ آپ کسی کو بھی کچھ بھی بولتی جائیں.ہماری ڈانٹ کا نائلہ پر
خاطر خواہ اثر ہوا اور وہ چپ ہو گئ.گھر نزدیک تھا اسلیئے ہم لوگ کپڑے تبدیل
کرنے چلے گئے.
ماما! پھر بھی یہ بری بات ہے نا.....نائلہ نے دبے دبے لہجے میں پھر شکایت
کی.
میں نے مسکرا کر اسے دیکھا........بے شک بیٹا ..پر یہ کیا درست ہے کہ اگر
کوئ غلط کرے تو ہم بھی اسکا جواب غلط طریقے سے ہی دیں.......
ویسے بھی یہ داغ تو دھونے سے صاف ہو جائیں گے پر جو داغ ہمارے کردار پر لگ
جائیں وہ تو دھونے سے بھی صاف نہیں ہوتے.......اب وہ الجھی ہوئ کچھ ہماری
طرف دیکھ رہی تھی ....مطلب.....مطلب یہ کہ ابھی واپس اسکول چلتے ہیں.آپکی
پرائز کی تقریب شروع ہوگئ ہوگی.اسکے بارے میں کبھی میں آپکو تفصیل سے
سمجھاؤں گی......اب چلو بھی.....
ہم دونوں پھر سے اسکول کے لیئے نکلے.شکر ہے زیادہ دیر نہیں ہوئ ابھی تقریب
شروع ہی ہوئ تھی......نائلہ کو اسکی ٹیچر کی طرف روانہ کرکے میں بھی ایک
کرسی پر بیٹھ گئ.پرنسپل ابھی تقریر کررہی تھیں....
تقریر سنتے ہوئے ہمارا ذہن پھر اسی نقطے پر اٹک گیا.......
کردار پر چھینٹے........
نزہت نے جیسے تیسے کمرے میں انٹری ماری کیا ہوا آپا؟؟؟؟
نصرت پوچھتی رہی.
نزہت کا ذہن ابھی تک ان آنکھوں میں اٹکا ہوا تھا....
وقت کو اپنی چال چلنے سے کبھی کوئ روک پایا ہے...یہ نہ بے چارا عتیق جانتا
تھا اور نہ سکی دونوں بہنیں...
دھیرے دھیرے کاروبار جان پکڑنے لگا عتیق کا فیصلہ غلط ثابت نہیں ہوا گھر کے
حالات بہتر ہو رہے تھے. زبیدہ خاتون نے اب تو کچھ پس انداز بھی کرنا شروع
کردیا تھا.....
پر اسی بیچ شاہنواز اور اسکے دوسرے ساتھی کا گھر آنا جانا بڑھ چکا تھا.اب
تو وہ عتیق کی غیر موجودگی میں بھی آنے لگے تھے.
انکا میل جول عتیق کی بہنوں سے بڑھ رہا تھا.جبکہ عتیق اس بات سے ابھی تک
انجان تھا.اور رہی زبیدہ خاتون شاید انکی بیٹیوں کو انکی چنداں فکر بھی
نہیں تھی وہ انکی سرزنش کو بلکل خاطر نہ لاتیں تھیں.
سارے گھر کو ایک عجیب سا سناٹا گھیر رہا تھا.جیسے جیسے ...کچھ بہت برا ہونے
والا ہو
عتیق جیسے ہی دوکان میں داخل ہوا.تو سامنے کا کاؤنٹر اسے خالی نظر آیا وہ
شاہنواز کو ڈھونڈتا ہوا اسٹور روم کی طرف بڑھا.
پر اندر سے آتی ہوئ آوازوں نے اسکے قدم جیسے پتھر کے کردیئے........
نہیں پتہ چلے گا اسے. اسے پیسہ چاہیئے تھا وہ اسے مل رہا ہے. کم عمر نا
تجربہ کار نوجوان ہے اسے کبھی بھنک بھی نہیں پڑے گی.کہ ہم اس سے بزنس کی آڑ
میں نقلی دوائیوں کا کام کررہے ہیں ویسے بھی ہمیں ایک ایسی جگہ چاہیئے تھی
جہاں ہم رازداری سے اپنا کام کرسکیں.تم فکر نہ کرو اور مال کا آڈر دے
دو.راتوں رات مال آجائے گا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا.
عتیق کا تو جیسے خون ہی کھول اٹھا.......
میری اور بابا کی دوکان جو ہمیشہ محنت اور ایمانداری سے چلائ گئ یہ لوگ
......نہیں ان نقلی دوائیوں سے تو بہت سے لوگ مر سکتے ہیں.اسے ایسا لگا کہ
ہر طرف بین کی آوازیں آرہی ہوں سبکی انگلیاں اسکی طرف اٹھ رہی ہوں.
نہیں....نہیں .....میں یہ نہیں ہونے دوں گا میں کسی غلط آدمی کا غلط کام
میں ساتھ نہیں دوں گا..
کیا کروں پھر جیسے اسکی سمجھ میں آگیا.....وہ جلد ہی پولیس اسٹیشن کے لیئے
دوکان سے نکلنے لگا.....
دھڑام .....اور جلدی کے چکر میں پاس رکھا اسٹول گر گیا.اب اسٹور روم میں
بیٹھے وہ دونوں انسانیت کے دشمن خبردار ہوچکے تھے وہ تیزی سے دیکھنے نکلے
کہ کون ہے جو انکی باتیں سن رہا تھا...پر عتیق نکل چکا تھا ....شاہنواز نے
عتیق کو بائیک پر جاتے آخر دیکھ ہی لیا اب اسکے لیئے یہ سمجھنا مشکل نہیں
تھا.کہ عتیق سب سن چکا ہے.......... |