وہ پر اسرار شیطان کون تها:؟؟

ایک طرف دسمبر کی سرد اور سیاہ رات ہو......دوسری جانب موسم سرما کی پہلی بارش...... اورتیسری جانب رات کا گهپ اندهیرا اور چور ڈکیتوں کا خوف ہو ......اوپر سے آپ کو فون آجائے کہ آپ کا جگری دوست ہسپتال میں موت و حیات کی کش مکش میں ہے..... اور اس کو ڈاکٹروں نے صرف پیسے نہ ہونے کی وجہ سے مرنے کے لیے چهوڑ دیا ہے.... تو ایسے عالم میں آپ پہ کیا گزرے گی اور کس طرح آپ گاڑی ڈرائیو کریں گے؟............

ان تمام پریشانیوں کا بوجھ اٹهائے،کچھ پیسے ساتھ لے کر اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے میں گاڑی تک پہنچا.....گاڑی اسٹارٹ کی اور ہسپتال کی جانب روانہ ہوا.....گاڑی کی حالت اور سڑک کی خستہ حالی نے مجهے جتنی اجازت دی اتنی تیز رفتاری سے گاڑی بھگانے لگا......ابهی بہ مشکل 10 منٹ کا سفر طے کیا تها مجهے ایک مین چوک پہ بارش میں بهیگی ہوئی ایک ممی نظر آئی.....چند سیکنڈ میں کئی مرتبہ ہارن بجانے کے بعد بهی اس ممی نے ہٹ کے نہیں دیا ....تو یک دم پائوں بریک پہ رکھ کر پوری قوت سے دبانے لگا....اندھیرے میں ایک خطرناک آواز گونجی اور گاڑی اس پراسرار ہیولے سے ٹکراتے ٹکراتے بال بال بچ گئی..........

میں نے شیشہ نیچے کر کے اس خستہ حال ابن آدم پہ جو پہلی نظر ڈالی تو اسے کوئی بھوت سمجھ کر آیت الکرسی کا ورد کرنے لگا.....بارش کےپانی نے اس کے چہرے کی جھریوں کو چھوٹی چھوٹی نہروں میں تبدیل کردیا تها.....سخت سردی کی وجہ سے اس کا تن بدن کانپ رہا تھا......ان کی دهنسی ہوئی آنکھیں گواہی دے رہی تھیں کہ اس نے کئی زمانے دیکهیں ہیں.....اس کے ایک ایک انگ سے غربت ،وحشت،نفرت اور حیرت ٹپک رہی تھی........

میں کچھ دیر تمام پریشانیاں بھول کر اس طلسماتی ہیولے میں کهو گیا....میں گاڑی سے اترا اور سہارا دے کر اسے فرنٹ سیٹ پہ بٹھادیا اور گاڑی ایک بار پھر فراٹے بهر نے لگی....وہ طلسم زدہ بدروح میرے برابر والی سیٹ پہ تا حال خاموشی کے چادر میں لپٹی ہوئی تھی....دس منٹ بعد اس خستہ حال لاش میں حرکت ہوئی تو میری چھٹی حس نے خطرے کی گھنٹی بجادی...اس لاش نما انسان کا قبر نما گهر شاید قریب آگیا تھا..............

جب اس نے گاڑی روکنے کے لیے کہا تو مجهے حیرت کا ایک جھٹکا لگا.... میں نے گاڑی روک دی وہ لڑ کهڑاتے ہوئے اترا اور آنا فاناً اندھیرے میں غائب ہوگیا....اس کی آواز اس کے خستہ حالی کی ترجمانی نہیں کر رہی تھی.....سوچوں کے طوفان میں غرق میں ہسپتال پہنچا تو مجهے دیکھ کر میرے دوست کے چہرے پر زندگی کے آثار نظر آنے لگے....اس شہر میں خدا کے بعد میرے علاوہ اس کا کوئی سہارا نہ تها.......

میں بغیر ٹائم ضائع کیے ریسیپشن پہ گیا اور ایمرجنسی آپریشن کے لیے رسید بنوانے لگا کیشئر نے رسید پکڑا دی تو اس پہ لکها ہوا 80ہزار کا ہندسہ کئی غریبوں کی موت کا خبر دے رہا تھا.....میں نے پیسے دینے کے لیے جیب میں ہاتھ ڈال دیا تو مجهے اتنا زور کا جھٹکا لگا کہ میرے اوسان خطا ہوگئے....تمام جیبوں کی تلاشی کے بعد میں گاڑی کی طرف دوڑا....گاڑی میں بهی پیسے نہیں ملے اور گاڑی کی تلاشی کے دوران یہ راز بهی منکشف ہوا کہ میرا موبائل اور گھڑی بهی غائب ہیں.....

میں شرمندگی کے سمندر میں قلابازیاں کها نے لگا....ایک طرف اپنے دوست کی حالت اور دوسری جانب اس بہروپیے کی حرکت کا سوچ کر میں ندامت اور غصے کے ملے جلے جذبات کے سمندر میں بہہ گیا..... اور زارا قطار رونے لگا....میرا دوست حسرت و یاس کی تصویر بنے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تها......

پهر وہی ہوا جس کا گمان تها....ہسپتال والوں سے بات چیت جاری رہی وہ بغیر پیسوں کے راضی نہ ہوئے.... بڑی بحث و تمحیص کے بعد گاڑی گروی رکھ کر آپریشن کے لیے تیار ہوگئے مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تهی فرشتہ اجل اپنا کام کر چکا تھا..اور میرا دوست میرے سامنے انتہائی بے بسی کے عالم دار فانی سے کوچ کر گیا........
Shakeel Akhtar Rana
About the Author: Shakeel Akhtar Rana Read More Articles by Shakeel Akhtar Rana: 36 Articles with 50583 views Shakeel Rana is a regular columnis at Daily Islam pakistan, he writs almost about social and religious affairs, and sometimes about other topics as we.. View More