اشرف ا لمخلوقات
(Zahid Mehmood, Islamabad)
اﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو
اشرف المخلوقات بنایا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات کیوں ہے؟ اس کی وجہ وہ بے
شمار صلاحیتیں ہیں جو اﷲ نے انسان کو عطا کی ہیں۔ انہیں صلاحیتوں کی بدولت
انسان دنیا کو تسخیر کر رہا ہے۔ اپنی زندگی کو آرام دہ اور پر سکون بنانے
میں لگا ہوا ہے۔ یہی صلاحیتیں انسان کو زمین کی گہرائیوں سے آسمان کی
بلندیوں تک لے گئیں۔ انسانی زندگی کے ہر پہلو میں اس قدر تبدیلیاں انہیں
صلاحیتوں کی وجہ سے ہے جو اﷲ نے انہیں عطا کی ہیں۔ جب انسان ان صلاحیتوں کو
استعمال کرنا سیکھ لیتا ہے تو اس کیلئے آسمان کی بلندیوں میں اڑنا کوئی
مسئلہ نہیں رہتا، چاند کی تسخیر بائیں ہاتھ کا کھیل بن جاتا ہے، دنیا کے
ایک کونے میں بیٹھ کر ہزاروں کلو میٹر دور کسی عزیز سے بات کرنا کوئی مشکل
نہیں رہتا، موسم کی شدت کا ہر حل موجودہے۔ ہر لمحے پوری دنیا کا احوال اس
کے سامنے ہے۔ اس کی زندگی خوشگوار ہے۔ جی ہاں!یہ سب کچھ اﷲ کی عطا کردہ
انہیں صلاحیتوں کی بدولت ہے جو اﷲ نے ہر انسان کو عطا کی ہیں۔ اور جب ہم ان
صلاحیتوں کی پرواہ نہیں کرتے، انہیں استعمال نہیں کرتے تو انسان اسی دنیا
میں درندہ بن جاتا ہے ، وہ اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ دوسروں کی زندگی کو بھی
اجیرن بنا دیتا ہے۔ وہ ساری زندگی پنے خدا سے شکوے شکایات کرتا گزارتا ہے ۔
کبھی موسم کی شدت کے شکوے اور کبھی حالات کی ستم ظریفی کی شکایات، کبھی
اپنے ملک کے حالات کا شکوہ اور کبھی غریب گھرانے میں پیدا ہونے کی بے بسی
اسے اور بھی کمزور بنا دیتے ہیں۔ لیکن حقیقتاً انسان اپنے اندر موجود ان
صلاحیتوں کو ہی پہچان نہیں پاتا جو اس کے خدا نے اسے ایک خوشگوار زندگی
گزارنے کے لئے عطا کی ہیں۔ جی ہاں آپ کے اندر بھی خدا نے وہ صلاحیتیں رکھیں
ہیں جن کی بدولت آپ ایک کامیاب خوشگوار اور مطمئن زندگی گزار سکیں۔ اب یہ
آپ کا اپنا انتخاب ہے کہ آپ ان صلاحیتوں کو نظر انداز کردیں اور زندگی جیسی
چل رہی ہے اسے اسی حال میں گزارتے چلے جائیں چاہے آپ اس میں خوش ہوں یا نہ
۔ خود کو مجبور سمجھتے ہوئے ایک غیر مطمئن زندگی گزار دیں ۔یا یہ کہ آپ ان
صلاحیتوں کو پہچان کر ان کا بہترین استعمال کرنا سیکھیں، اپنی زندگی کو
بدلیں ، دنیا کے سامنے خود کو ثابت کریں اور بارگاہِ خدا وندی میں اپنے
اشرف المخلوقات ہونے کا ثبوت دیں۔مثلاً اﷲ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے کی
صلاحیت عطا کی ہے۔ یہ صرف صلاحیت ہی نہیں بلکہ ایک طاقت ہے۔ جی ہاں! خدا نے
ہم سب کو سوچنے کی طاقت عطا کی ہے۔ کیا آپ نے کبھی اس طاقت کو استعمال کیا؟
قارئین آ پ کی سوچ جس قدر بڑی ہو گی اسی قدر کامیابیاں آپ سمیٹ سکتے ہیں۔
اگر آپ بڑی سوچ رکھتے ہیں تو آپ کے اندر کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہو
جاتاہے۔بڑا کام کرنے کی صلاحیت آجاتی ہے۔مثلاً آپ دس منزلہ بلڈنگ کی
پانچویں منزل پر جا نے کا سوچتے ہیں جس میں لفٹ نہیں ہے اور آپ کو سیڑیوں
کا راستہ ہی استعمال کرنا ہے۔تو جب آپ پانچویں منزل پر پہنچیں گے تو آپ
کافی حد تک تھک چکے ہوں گے۔ لیکن اگر آپ پانچویں کی بجائے دسویں منزل پر
جانے کا سوچتے ہیں تو آپ پانچ منزلیں بڑے خوشگوار انداز میں طے کر چکے ہوں
گے اور تھکاوٹ کا احساس اس کے بعد شروع ہوگا۔ ایسا کیوں ہے؟کیونکہ جب آپ
بڑی منزل کو سوچتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو بڑی منزل کے لئے تیار کرلیتے
ہیں۔آپ کے جسم میں اس کام کو کرنے کی صلاحیت اسی کام کے مطابق آ جاتی
ہے۔لیکن جب آپ چھوٹی منزل کو سوچتے ہیں تو آپ کی صلاحیت بھی اسی کے مطابق
ہوتی ہے۔ چنانچہ اپنی زندگی کے ہر فیصلے میں اپنی سوچ بڑی رکھیں۔ اگر آپ
طالب علم ہیں تو امتحانات میں 70%نمبر ز کی امید رکھے بیٹھے ہیں تو اسے
بڑھا کر 80%یا85%کر دیں۔ آپ کی صلاحیت میں اسی کے مطابق اضافہ ہو جائے
گا۔آپ کا کام بس اس سوچ پر قائم رہنا ہے اور اس سوچ سے آنے والی صلاحیت کا
بہترین استعمال کرنا ہے۔اسی طرح زندگی کے ہر مرحلے میں اپنی سوچ کو بڑا
رکھیں اور اس پر قائم رہیں۔ہم بہترین زندگی تو گزارنا چاہتے ہیں لیکن
بہترین سوچ نہیں رکھتے۔ذرا نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ اگر انسان نے اپنی اس
طاقت کو استعمال نہ کیا ہوتاتو کیا آپ اتنی ترقی یافتہ زندگی گزار رہے
ہوتے؟کچھ عرصہ قبل انسان نے ہوا میں اڑنے کا سوچااور آج ہزاروں افراد
روزانہ ہوا میں اڑتے ہوئے دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں موجود ہوتے
ہیں۔ چاند کے ساتھ رشتہ داریاں بنانے والا انسان جب اسکو تسخیر کرنے کی سوچ
سوچتا ہے تو وہ اس ناممکن کام کو بھی ممکن بنا لیتا ہے۔ پرندوں کے ذریعے
اپنے پیغامات پہنچانے کا سلسلہ بنانے والا انسان آج ہزاروں کلو میٹر دور
اپنے پیاروں کے سامنے بیٹھ کر بات کر سکتا ہے۔اس طرح کی ہزاروں مثالیں لی
جا سکتی ہیں کہ جس سے بڑی سوچ سے نا ممکن دکھنے والے کام کو ممکن بنا لیا
گیا۔ کیوں کہ سوچ اسی وقت آتی ہے جب آپ میں اس کام کو کرنے کی صلاحیت ہوتی
ہے۔ آپ کے اندر ایسی کوئی سوچ نہیں آسکتی جس کی صلاحیت آپ میں نہیں ہے۔اب
فیصلہ آپ کا ہے اپنی زندگی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ایک معمولی
اور شکایات سے بھری زندگی گزارنے ہے یا خدا کی دی ہوئی بہترین صلاحیتوں کو
استعمال کے ایک مطمئن اور شکرگزاری والی زندگی گزار کر اپنے اشر ف
المخلوقات ہونے کا ثبوت دینا ہے۔کم ازکم اس ایک صلاحیت ’’سوچ کی طاقت‘‘کو
بہترین طریقے سے استعمال کر کے ہی ہم نہ صرف اپنی زندگی بلکہ کئی دوسرے
لوگوں کی زندگی میں بھی ایک بہت بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں کیونکہ تاریخ گواہ
ہے کہ جب بھی بڑی سوچ رکھنے والے اپنے خوابوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں
تو اس کا ثمر پوری دنیا کو ملتا ہے۔ |
|