تر قی آ گے بڑ ھنے کو کہتے ہیں
اور یہ ایک حقیقت ہے کہ کو ئی بھی معا شرہ ا پنی تا ر یخ بھلا کر ا پنے ہیر
و ز کو نظر ا نداز کر کے تر قی نہیں کر سکتا مگر ہما رے ہا ں عجب ہی ما حول
بن چکا ہے جنکی تا ر یخ اور ہیرو ز سے د نیا نے سبق حا صل کیا ہم نے ا نھیں
بھلا د یا نہ صر ف بھلا د یا بلکہ ا کثر لو گ تو اسقدر ا حسا س کمتر ی کا
شکا ر ہو چکے ہیں کہ اپنی ہی تا ر یخ کا چہر ہ مسخ کر کے پیش کر تے ہو ئے
نظر آ تے ہیں د نیا سے جنگ کر نے کے لیئے جن ہتھیا رو ں کا استعما ل ہمیں د
شمن کے خلا ف کر نا چا ہیے ہما ری بیو قو فی د یکھیئے کہ ہم ا نھی تما م
ہتھیا رو ں کو ا پنو ں کے خلا ف ا ستعما ل کر رہے ہیں آج ہما را معیا ر
اتنا گر گیا ہے کہ ہمیں خود کو یقین جا نئے مسلما ن کہتے ہو ئے شر م آ تی
ہے جسمیں اسلا م اور مسلما ن بد نا م ہو رہے ہیں نو جو ا نو ں میں آ ج بھی
ا بن ز یا د و ابن خطا ب جیسا جذ بہ پا یا جا تا ہے مگر ا نکی ر ہنما ئی کر
نے وا لا اس سو سا ئٹی میں کو ئی نہیں ہے ہما رے حکمرا ن جب ا ند ھی تقلید
کر نے پر بضد ہیں تو پھر نو جو نو ں او عوا م کا تو ا ﷲ ہی حا فظ ہے حکمرا
ن کسی بھی معا شر ے کا چہر ہ ہو ا کر تے ہیں جس سے قو مو ں کی شنا خت کی جا
تی ہے اب ظا ہر ہے جیسا چہر ہ ہو گا اسی لحا ظ سے ا نسان یا معا شر ے کی
شخصیت کا اندا زہ لگا یا جا سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں آج ایک بہت بڑی غلط فہمی یہ ہو گئی ہے کہ ہم غیرو ں کے طو ر طر یقے
انکے ر سم و روا ج ا نکی ز با ن و ا قدار اور انکے مذہب و ثقا فت و تمدن کو
اپنا کر انکی طر ح تر قی یا فتہ کہلا نے لگیں گے بھلا کیا ایسا ہو سکتا ہے
اگر مغرب میں ترقی ہو ئی ہے تو اسکی اصل و جہ ہمیں جا ننے کی کو شش کر نی
چا ہیئے نہ کہ ا ند ھی تقلید کر نی شرو ع کر دیں اور مغرب میں تر قی کی اصل
و جہ یہ ہے کہ وہ نو ے فیصد ا سلام پر عمل کر کے یہا ں تک پہنچے ہیں اور جو
بیما ر یا ں و ہا ں پا ئی جا تی ہیں صر ف دس فیصد اسلام پر عمل نہ کر نے پر
ہی پا ئی جا تی ہیں مثلا و ہا ں خوا تین پر دہ نہیں کر تیں جس سے فحا شی و
عر یا نی عا م ہو گئی ہے شرا ب نو شی عا م ہے اس پر کو ئی پا بند ی نہیں
لگا ئی گئی اس و جہ سے جرا ئم کی شر ح میں و ہا ں ا ضا فہ ہو ر ہا ہے ۔۔۔۔
خو ا تین کو و ہا ں مر دو ں کے شا نہ بشا نہ کھڑا کر نے کے چکر میں خا ندا
نی نظا م کی د ھجیا ں ا ڑ گئیں ہیں جس سے پو را معا شر تی نظا م بھی در ہم
بر ہم ہو گیا ہے بیٹا ما ں کو نہیں پہچا نتا اور بیٹی با پ کو نہیں پہچا
نتی بز ر گو ں کی جگہ او لڈ ہو مز ہیں جہا ں وہ قیمتی سر ما یا ضا ئع ہو جا
تا ہے جس کے تجر بے سے بے ا نتہا فا ئدہ حا صل کیا جا سکتا ہے یہ وہ چیدہ
چیدہ خرا بیا ں ہیں جو مغر بی معا شر ے میں پا ئی جا تی ہیں ۔۔۔۔۔مگر ا فسو
س کے سا تھ کہنا پڑ تا ہے کہ ہم ا نہی بر ا ئیو ں کو ا پنا کر ا پنے آ پ کو
ما ڈرن اور جدت کے حا می کہلو ا نا چا ہتے ہیں جو کہ جد ت نہیں بلکہ جہا لت
ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب کر کے ہم بھی تر قی یا فتہ قو مو ں کی صف میں کھڑے
ہو جا ئیں گے مگر یہ ہما ری بہت بڑی بھو ل ہے حلا نکہ ہما ری نظر ان برا
ئیو ں پر نہیں بلکہ ان ا چھا ئیو ں پر ہو نی چا ہیے جو کہ مغرب نے ہما رے آ
با و ا جداد سے حا صل کی ہیں مثلا حضرت عمر کے ز ما نے جیسا ا نصا ف قا ئم
کیا حضرت خا لد بن و لید جیسی جنگی صلا حیتیں پیدا کیں حضرت ا بو بکر صد یق
جیسی حکمت عملیا ں مر تب کیں اور حضرت عثما ن جیسی غنیمت پیدا کی اب ہمیں
اس با ت کو تسلیم کر لینا چا ہیئے کہ پا کستان میں سنگرز ا یکٹرز او ر قا
صا و ں کی ضرو رت نہیں ہے یہا ں پر بھی ا چھے سپا ہ سالار سیا ستدا نو ں
اور ا چھے ڈا کٹرز ا نجینئرز بز نس مین سچ بو لنے وا لے صحا فیو ں اور اچھی
پا کباز بلند خیا ل بہا در ما و ں کی ضرو رت ہے جو اس معا شرے کو پستی سے
نکا ل کر بلند ی کی اور تر قی کی را ہ پر گا مز ن کر سکیں مگر ا فسو س کے
سا تھ کہنا پڑ تا ہے کہ میڈ یا نے جس طر ح ان چیزو ں کو ہا ئی لا ئٹ کیا ہو
ا ہے ا یسا لگتا ہے کہ یہ ہی ایک شعبہ ہے جس میں آ گے بڑ ھ کر ہم سر خرو ہو
سکتے ہیں جبکہ اس شعبے میں تر قی نہیں تنز لی ہے ان چیزو ں سے سستی کا ہلی
اور مردہ د لی ہی پیدا ہو تی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب ہمیں ہو ش کے نا خن لے لینے چا ہئیں ہم سے جو غلطیا ں ہو ئیں وہ آ گے آ
ئند ہ نسل میں پروان نہ چڑ ھنے دی جا ئیں تو یہ نسل با قی قا ئم رہ سکتی ہے
ور نہ ہما ری بر با دی کے دن دور نہیں جس طر ح سے میں ا پنے ارد گرد د
یکھتی ہو ں لو گو ں نے ا پنے بچو ں کو اس قدر آ زاد کر دیا ہے کہ اب ا نہیں
نہ تو ا پنا ما ضی یا د ہے اور نہ ہی ا پنی تا ر یخ نہ ہیرو ز آ جکل کے نو
جوا نو ں کے ہیرو ز بھی یہ ہی چند رقا ص اور ر قا صا ئیں ہیں جو ہمیں تبا
ہی اور بر با دی کی جا نب لے جا ر ہے ہیں ہم ان کو کا پی کر کے جتنا فخر
محسو س کر نے لگے ہیں ا تنا تو ا پنے با پ دادا کی عا دات و ا طوار کو ا
پنا کر بھی نہیں کر تے اور یہ ہی نو جوا ن نسل ہما را سب سے بڑا ہتھیا ر
ہیں ا گر یہ ہما رے خلا ف چلنا شر و ع ہو گئی تو جا ن لیجیئے کہ سب کچھ تبا
ہ ہو جا ئے گا ہم تنز لی اور تبا ہی کا شکا ر تو ہیں ہی اسکے بعد ہما ری
نسلیں بھی ختم ہو جا ئیں گیں اور یہ بھی ہما رے خلا ف سا ز ش ہے کہ ہما ری
آ ئندہ نسلو ں کو ہما رے خلا ف کر کے ان سے وہ کا م لے لیا جا ئے جو د شمن
آج تک ہم سے نہ لے سکے ۔۔۔۔۔خدا را ا پنے تما م ہتھیا رو ں کی حفا ظت
کیجیئے اور ا نھیں چلانا سیکھیئے کہیں یہ نہ ہو کہ د شمن ا پنے ارادو ں میں
کا میا ب ہو جا ئے کیو نکہ ہما را نقطہ عرو ج سے یا تر قی سے تنز لی تک کا
سفر طے کر نے کی ایک و جہ یہ بھی ہے ا گر ہمیں تر قی کی را ہ پر گا مز ن ہو
نا ہے تو لا زمی طو ر پر ہمیں ا پنی سو چ کے زاو یئے کو بد لنا ہو گا ور نہ
سے ہم آ گے نہیں بڑ ھ ر ہے بلکہ پیچھے کی جا نب جا رہے ہیں
|