اف یہ تماشا

شریف، کمزور آدمی کا احساس کرنے والا،بس اتنا نہیں بلکہ حکمت کی دوائیوں کو سٹیرائیڈز استعمال کئے بغیر بنانے والا، پرانے حکیموں کی طرح مزاج کے مطابق نسخہ ترتیب دینے کے فن کا ماھر اور حکیم ایسا جس کے علاج سے مریضوں کی اکثریت کو شفا نصیب ھو رھی ھو۔ ایسے حکیم ھوں گے لیکن پتہ نہیں کہاں۔ لیکن وہ پرانے حکیموں کی لائن کا بہت اچھا حکیم تھا۔ طب کے ایک کالج کا پرنسپل بھی رھا۔ پریکٹس بڑھ گئی تو حکیم نے اپنا پورا دواخاںہ بنا لیا دوائیاں تیار کر کے مارکیٹ میں سپلائی بھی شروع کر دی۔ مستحق مریض حکیم کو فون کرتے،حکیم جاتا اپنی دوائیاں بھی سپلائی کرتا اور کسی کو مفت اور کسی کو انتہائ سستی دوائی دے کر چلا جاتا۔ لوگوں کی خدمت کر کے حکیم کو خوشی ھوتی اور شفایاب ھونے والے مریض سے مںہ ضرور میٹھا کرتا۔ کئی مریضوں کا سستا اور مفت علاج ھوتا رھا اور مریض صحت یاب ھوتے رھے۔ لیکن حکیم نے آنا کم کر دیا اور دور نہ جا سکنے والے مریض وھیں کے وھیں رہ گئے۔ وجہ حکیم کی پریشانی تھی اور وجہ ایک معمولی لیکن عجیب سی بات تھی۔ بنا تحقیق کے زبان چلانے والے چلتے پھرتے ریڈیو نما لوگوں نے حکیم کے اچھے مالی حالات سے حسد کا شکار ھو کر مطب سے غیر حاضری پر مشہور کر دیا کہ حکیم کوئی دو نمبر کام کرتا ھے جو مطب بند رکھ کر بھی اتنے پیسے کما رھا ھے،پلاٹ بھی خرید لیا۔ یہ بات اس شدت اور انداز سے مشہور ھو گئی کہ حکیم کو اپنا سپلائی کا کم روک کر مطب پر زیادہ وقت دینا پڑا۔ بات بڑی معمولی سی تھی لیکن ایک شریف آدمی نے اس کا بڑا اثر لیا۔اب حکیم کا کام پھر سے عروج پر ھے اور باتیں کرنے والوں کا کچھ پتا نہیں۔ حکیم کا کام تو نہیں رکا لیکن ذھنی تکلیف برداشت کرنی پڑی۔ شریف آدمی کو کوئی دو نمبر کہ دے تو اسے مصیبت پڑ جاتی ھے۔ ذھنی پریشانی کی وجہ صرف بہتان بازوں کی بہتان گردی کی تھی۔ حکیم کی تو ایک مثال ھے،ھمارا معاشرہ تو ایس حرکتوں کے سیلاب کی زد میں ھے۔غیبت ، بہتان، تہمت یہ سگی بہنیں ھیں اور ھماری نیشنل بیماریاں بن چکی ھیں۔ شادیوں کی محفلوں،مرنے والوں کے لئے دعائیہ اجتماع،ٹی وی پروگرام، جہاں چار بندے اکٹھے ھوں تو غیبت اور تہمتوں کا سیلاب بہنا شروع ھو جاتا ھے۔ حسد کی بو میں لپٹی باتیں کر کر کے یہ لوگ تھکتے بھی نہِیں۔ ایک لڑکی سے لے کر بوڑھے تک، سیاستدانوں سے لے کر مرنے والوں تک، کسی کو نہیں بخشا جاتا۔ یہ لوگ بھول جاتے ھیں کہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا لیکن نیکیاں ھی مرنے کا بعد ساتھ جائیں گی اور حسد نیکیوں کو کھا جاتا ھے۔ صاف فرما دیا گیا ھے کہ کسی کے جھوٹا ھونے کیلئے یہ کافی ھے کہ وہ کوئی بات تصدیق کے بغیر لوگوں میں کرتا پھرے۔ کسی کی جھوٹی برائی بیان کی جائے تو بہتان،تہمت اور سچی کر دی جائے تو غیبت۔ ان لوگوں کو اس بات کی کیا پروا کہ جھوٹ بولنے سے لعنت نازل ھوتی ھے،اپنا بیڑا غرق ھوتا ھے۔ ان کو کیا احساس کہ غیبت زنا سے بدتر ھے اور ان کی نیکیاں دوسرے کے نامہ اعمال میں منتقل ھو جاتی ھیں۔۔ تہمت،بہتان بازی کی تباہ کاریوں سے ان لوگوں کو کیا لینا دینا۔ ان کی تو زندگی کا اھم ترین مشغلہ ھی یہی ھے، جہاں موقع ملا لوگوں پر عیب سازی، تہمت سازی کے حملے شروع ۔ یہ لوگوں کے پیچھے،ان جیسے لوگ ان کے پیچھے۔ عجیب تماشا لگا ھوا ھے اور میڈیا بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ھے،جب مرضی جس پر مرضی حملہ کر دیا جاتا ھے۔ ملزم کو مجرم بنا کر پیش کر دیا جاتا ھے، بعد میں چاھے وہ ملزم باعزت بری ھو جائے لیکن میڈیا اس سے پہلے ھی اس کی عزت کا فالودہ بنا کر لوگوں میں بیچ کر پیسے بنا چکا ھوتا ھے۔ اگر کوئی بات اصلاح معاشرہ کے جذبہ سے یا برائی کی نشاندھی کر کے لوگوں کو برائی سے بچانے کی کوشش کرنے کیلئے کرنا ضروری ھو جو کہ کرنا بہت ضروری ھے، میڈیا کو بھی اور ھم سب کو بھی، تو مکمل تصدیق کے بعد پوری احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ ھی بات کرنی چاھئے،جو غیبت اور بہتان سازی کی زد میں نہ آتی ھو۔ اس بات کو ھم سب کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنا چاھئے۔ پرائم منسٹر پاکستان نے ریحام خان کی کردار سازی پر برھمی کا اظہار کیا اور منع کر دیا۔ سیاستدانوں کیلئے تعریف اور تقلید کا مقام ھے اور سیاست کا درست راستہ۔ کردار پہلی سیڑھی ھَے انسانیت کی،ملک وقوم کی بہتری کی۔ اس بات پر مجھے ایک بات یاد آ گئی۔ جنگ پبلشرز گروپ کے انچارج مظفر محمد علی اب اس دنیا میں نہیں ھیں،اکثر اپنے دفتر کی سیڑھیاں اتر کر میرے آفس میں آ کر بیٹھ جاتے،میرے ساتھ ،میرے بھائی کے ساتھ انتہائی شفقت فرماتے تھے،ھمارے ساتھ کھل کر بات کیا کرتے تھے،سب سے تعلق نبھاتے تھے لیکن بھٹو کے جیالے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کوئی ایسا سیاستدان ھے جسے آج کے دور میں ملک اور عوام سے مخلص کہا جا سکے،اس سے کوئی اچھی امید رکھی جا سکے۔ جواب بڑا حیران کن تھا۔ انھوں نے اس وقت کی پیپلز پارٹی کی نفی کر دی اور بتایا کہ کچھ دن پہلے حرمین شریفین میں جلاوطن میاں نواز شریف سے ملاقات ھوئی ھے،ان میں ملک و قوم کا عجیب درد دیکھا ھے،انھیں دوبارہ حکومت ملی تو سیاست میں مثبت تبدیلی اور ملکی بہتری کی قوی امید ھے۔

پیشہ ور تہمت سازوں اور غیبت سازوں کو یہ بات یاد رکھنی چاھئے کہ عام آدمی ھو یا سیاستدان، برا آدمی ھو یا نیک ، کسی کو اخلاقی طور پر،معاشرتی طور پر اور مذھبی طور پر کسی لحاظ سے یہ اجازت نہیں ھے کہ جس کو مرضی جھوٹ کی تلوار سے کاٹ دیے۔ میرے ایک دوست جنہوں نے ایک اپنی آبائی زمین بیچ کر اپنے کاروبار کو بہت بڑی رقم سے وسعت دی ، ان سے کچھ نام نہاد صحافی انھیں کاروبار بدنام کرنے کی دھمکی دے کر ھر ماہ رقم لیتے رھے،ایک دفعہ بہت زیادہ رقم مانگ لی توانھوں نے مجھے فون کیا،ھم دوستوں نے مناسب کوشش کی اور ان کی اس بلیک میلنگ سے جان چھوٹی۔ اسے لوگ بھی ھمارے معاشرے کا المیہ ھیں۔ اگر غیبت،بہتان،تہمت،بلیک میلنگ کرنے والے اپنی حرکتوں سے باز نہِیں آنا چاھتے تو یاد رکھیں کہ سب کچھ یہیں رہ جائے گا۔ موت آنے والی ھے، قبر میں جا کر سب پتہ چل جائے گا اور کروٹ لیتے پاکستان میں یہ بھی ممکن ھے کہ آپ کو اپنی حرکتوں کا خمیازہ اسی پاکستان میں بھگتنا پڑے۔ بہتری اسی میں ھے کہ توبہ کر کے ایک اچھی زندگی گزاری جائے۔

ٹی وی پروگراموں میں خود ساختہ دانشور صاحبان کے ساتھ اچھے لوگ بھی نظر آتے ھیں ،لیکن سماجی برائیوں کے خلاف اٹھتی آوازیں بہت کمزور ھیں، ان کو بہت زیادہ توانا کرںے کی ضرورت ھے۔ ان سماجی برائیوں کے متعلق بھی عام پروگرام ھونے چاھئیں۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117174 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More