علم کیسے اٹھتا ہے؟
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
علم کیسے اٹھتا ہے؟
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الامین، اما بعد:
اہل علم کا خطہ ارض پر موجود ہونا لوگوں کے لیے باعث رحمت و سعادت ہے اور
انکا یہاں سے چلے جانا حسرت ویاس کے علاوہ برائیاں عام ہونے کا ذریعہ ہے.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
بلاشبہ یہ علامات قیامت میں سے ہے کہ علم اٹھا لیا جاۓ گا اور جہالت پھیل
جاۓ گی. (کھلم کھلا) شراب پی جاۓ گی اور زنا پھیل جاۓ گا."
(حوالہ: صحیح بخاری رقم الحدیث: 80، صحیح مسلم رقم الحدیث 6785)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم:
(قیامت کے قریب) وقت مختصر ہوجاۓ گا، علم اٹھا لیا جاۓ گا، لوگوں میں بخل
عام ہوگا، فتنے رونما ہوں گے اور ہرج بکثرت ہوگا" صحابہ کرام رضی اللہ عنھم
نے عرض کیا، مفہوم: اے اللہ کے رسول! ہرج سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا: قتل و غارت
(حوالہ: صحیح بخاری رقم الحدیث: 7061، صحیح مسلم رقم الحدیث 2682 [6794])
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوۓ سنا، مفہوم: "اللہ تعالی علم کو
اسطرح نہیں اٹھاۓ گا کہ اسے لوگوں (کے سینوں) سے کھینچ لے لیکن وہ علم کو
اہل علم کی وفات کے ذریعہ سے اٹھا لے گا حتی کہ جب کوئ عالم باقی نہیں رہے
گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے. جب ان سے سوال کیا جاۓ گا تو بغیر
علم کے فتوی دیں گے، لہذا وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ
کریں گے."
(حوالہ: صحیح بخاری، رقم الحدیث: 100، صحیح مسلم، رقم الحدیث: 6800)
عمار بن ابی عمار بیان کرتے ہیں کہ جب سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فوت
ہوۓ تو سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، مفہوم: علم کا
اٹھنا اس طرح ہے. آج (زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ) بہت زیادہ علم دفن کر دیا
گیا.
(حوالہ: المعرفہ والتاریخ للفسوی جلد 1 صفحہ 261 وسندہ حسن)
معلوم ہوا کہ علم اٹھنے سے مراد علماء کا فوت ہونا ہے جوں جوں اہل علم اس
دنیا سے جا رہے ہیں تو معاشرے میں بد امنی، فتنہ وفساد، معصیت ونافرمانی
اور قتل وغارت کی بھی کثرت ہو رہی ہے جس سے یہ بات واضع ہو جاتی ہے کہ
علماۓ حق محلے، علاقے، شہر اور ملک و ملت کے لۓ باعث رحمت وبرکت ہوتے ہیں.
ابو العلاء ہلال بن خباب بیان کرتے ہیں کہ میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ
سے دریافت کیا، مفہوم: اے ابو عبداللہ! لوگوں کی ہلاکت و بربادی کی نشانی
کیا ہے؟ انھوں نے فرمایا: جب ان کے علماء فوت ہو جائیں.
(حوالہ: مصنف ابن ابی شیبہ جلد 14 صفحہ 38 وسندہ صحیح)
تنبیہ: مصنف کے اکثر نسخوں میں ثابت بن زید ہے جو کہ خطا ہے صحیح ثابت بن
یزید ہے اور یہ ثقہ راوی ہیں. دیکھۓ جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبدالبر
جلد 1 صفحہ 483 اور کتب اسماء الرجال وغیرہ، نیز ابو اسامہ حماد بن ابی
اسامہ برئ من التدلیس ہے، یعنی ان پر تدلیس ثابت نہیں اور یہ مدلس نہیں
ہیں...
سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مفہوم: علم اٹھ جانے سے
پہلے حاصل کرلو اور اسکا اٹھنا علماء کا فوت ہونا ہے
(حوالہ: جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبدالبر جلد 1 صفحہ 480 حدیث نمبر
1017، وسندہ صحیح
بقلم: حافظ ندیم ظہیر تلامذ حافظ زبیر علی زئ رحمہ اللہ
حافظ ندیم حفظہ اللہ کے اس مضمون سے ظاہر ہوا کہ علماء ہمارے دین کی جان
ہیں اور یہ سلسلہ اگرچہ اللہ کے اذن سے ھمیشہ سے رہا ہے مگر اس صدی کے شروع
میں تین کبار علماء کا انتقال ہوا کہ جس میں الشیخ محمد بن صالح العثیمین،
الشیخ عبدالعزیز ابن باز، الشیخ محدث کبیر البانی رحمہم اللہ اور پھر دو
اور الشیوخ جن میں یمن کے محدث الشیخ مقبل بن ہادی الوادعی اور الشیخ احمد
ابن یحہی النجمی رحمہما اللہ تھے، یہ پانچوں علماء علم کے سمندر تھے، جن کو
اللہ نے اپنے اذن سے اپنی طرف بلا لیا، اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرماۓ،
آمین. اور یقینا ان کے انتقال سے علم کا ایک عہد وفات پا گیا اور اسی طرح
پاکستان میں حال ہی میں قحط الرجال کے اس دور میں محدث العصر حافظ زبیر علی
زئ کا انتقال اور اس سے پہلے حافظ عبدالمنان نور پوری اور ڈاکٹر عبدالرشید
اظہر رحمہم اللہ کے انتقال سے یقینا طلباء میں اضطراب کی کیفیت آچکی ہے،
اللہ ہمیں اپنے دین کو سنجیدگی سے سیکھنے کی توفیق دے، جس طرح ہم دنیا کے
پیچھے سنجیدگی سے دوڑ دھوپ کرتے ہیں، اور اللہ ہم میں ایسے محدثین دوبارہ
پیدا فرماۓ کہ جن کا اوپر ذکر کیا گیا، اور ان آٹھ علماء کے ذکر انتقال سے
ہر طالب علم اور دین کی سوچ وفکر رکھنے والے مسلمان کی آنکھ اشکبار ہوجاتی
ہے، اللہ عز وجل ھمارے اس دین کی حفاظت فرماۓ، آمین. |
|